نواب نوروز خان سردار عطاء اللہ مینگل تک

تحریر: امان اللہ شادیزئی
بلوچستان کی تاریخ میں تمام حوالوں سے بڑی دلچسپ اور عبرت ناک ہے وفا داری بد عہدی تاریخ کے مختلف مرحلوں میں نظر آئے گی اور اس کا سیاسی پہلوؤں سے جائزہ لے تو اس میں بھی تضادات نظر آئیں گے یہ سب خیالات میرے ذہن میں ابھر رہے تھے جب سردار عطاء اللہ مینگل کی تعزیت کے لئے جارہا تھا۔عبدالحق ہاشمی نے کہا کہ ہم صبح سویرے کوئٹہ سے نکلیں گے ہم 7بجے کوئٹہ سے روانہ ہوگئے مستونگ کے قریب خلیل ہمارے ہمراہ گئے ہم جب اس سڑک سے گذر رہے تھے کہ اچانک ہماری کار کوجھٹکا لگا ڈرائیور نے کہا کہ شعلے بلند ہورہے ہیں شاید دھماکہ ہوا ہے یہ بعد میں معلوم ہوا کہ یہ خودکش دھماکہ تھا جوا ایف سی پر ہوا تھا راستے میں اسی پر گفتگو کررہے تھے۔صبح ٹریفک کا رش نہیں تھا ہم ناشتہ کے حوالے سے طے کررہے تھے کہ کہاں کیا جائے تو شاہوانی نے کہا کہ منگچر پر کریں گے وہاں چائے اچھی ملتی ہے کچھ دیر کے بعد ہم ہوٹل پہنچ گئے ہوٹل کا السروری تھا چائے پیا لوں میں دی گئی ہم چبوترے پر بیٹھ گئے میری نگاہ خان کی میری پرگئی اور میرا ذہن ماضی میں کھو گیا اور خان بلوچ میر محراب خان کی تاریخی نگاہوں پر گھومنے لگی اور میری کو دیکھتا رہا اور تاریخ کے لمحات نے بڑا افسردہ کردیا۔برطانوی سامراج نے جب افغانستان میں شاہ شجاع کو تخت نشین کرنے کے لئے برٹش فوج اور شاہ شجاع کی فوج درہ بولان سے داخل ہورہی تھی۔برطانیہ نے جب افغانستان میں کامیابی حاصل کرلی اور شاہ شجاع کو تخت پربیٹھا دیا تو اس کے بعد میر محراب خان کے خلاف فوج کشی کی اور خان نے برطانوی فوج کا بڑی بہادری سے مقابلہ اور جام شہادت نوش کیا۔
خان قلات میر احمد یار خان نے اپنی کتاب میں لکھا کہ بعض سرداروں نے اپنی بیٹیوں کو اپنے ہاتھ سے قتل کیا تا کہ شکست کی صورت میں انگریزوں کے ہاتھ نہ آجائیں۔ارباب خان محمد نے اپنی نوجوان بیٹیوں اور بہوؤں کو خود موت کے گھاٹ اتار دیا اور خان قلات نے بڑی بہادری سے انگریزی فوج کا مقابلہ کیا اور جام شہادت نوش کی کتاب میں لکھا کہ خان قلات کے ہمراہ کل 3سو مجاہدین تھے جنہوں نے برطانوی فوج کا مقابلہ کیا اور جام شہادت نوش کی۔اس پر خان کی میری کے حوالے سے تاریخ کے یہ لمحات نگاہوں سے گزار رہے تھے اور طبعیت پر اداسی چھا گئی اور جب تک میری کو دیکھتارہا ملال اور افسردگی چھائی رہی اور ذہین میں ہندوستان کے شیر میسور سلطان ٹیپو اور جھانسی کی رانی کا خیال آتا رہا ان دونوں نے برطانوی سامراج کی بالادستی کو قبول نہیں کیا اور جام شہادت نوش کیا اور تاریخ میں امر ہوگئے۔بلوچستان کے دیگر صاحبان نے برطانیہ کی باجگزاری کو قبول کرلیا اور مختلف معاہدے کرتے رہے۔
تاریخ بڑی بے رحم ہوتی ہے وہ کسی کے ساتھ بے وفاقی نہیں کرتی جو کچھ ہوتا ہے اس کو وہ اپنے سینے میں محفوظ کرلیتی ہے۔
بلوچوں کے……صاحبان نے جتنے معاہدے برطانوی سامراج سے کئے وہ تاریخ کا حصہ ہیں 1839ء میں میر محراب خان شہید نے بھی قلات کے مقام پر حکومت برطانیہ سے معاہدہ کیا اس معاہدے میں خان کے جہاں برطانیہ کا ذکر کیا اس وہاں انہوں نے شاہ افغانستان شاہ شجاع کی بالادستی کو تسلیم کیا یہ معاہدہ 28مارچ 1839ء کو ہوا۔
معاہدہ کی ایک شق یوں ہے۔
چونکہ حال ہی میں حکومت نے برطانیہ نے اعلیٰ حضرت شاہ شجاع الملک سے دائمی رفاقت اور دوستی کا ایک معاہدہ کیا ہے اور چونکہ خان صاحب میر محراب خان ولی قلات اور ان کے خلاف ہمیشہ شاہی خاندان سدوزئی کے مطیع رہے ہیں اس لئے اب حکومت برطانیہ پر رضا ومشورہ شاہ شجاع الملک پر محراب خان موصوف اور ان کی اولاد سنڈیلا سنلاکے ساتھ اس معاہدے کی رفعات کی حلیف رہے گی اور جب تک خان صاحب موصوف اپنی خدمات عمدگی کے ساتھ انجام انصرام دیتے ہیں گے حکومت برطانیہ اس معاہدے کی پابند رہے گی۔
اس کی 6شقیں ہیں اس معاہدے پر خان میر محراب خان اور گورنر سلطنت ہند کے نمائندے لیفٹیننٹ سر الگزنڈربرنزونائٹ اور خان نے دستخط کئے 28مارچ1839ء بمقام قلات(کتاب تاریخ خواتین بلوچ صحفہ221)اس معاہدے کو پڑھنے کے بعد۔
یہ خیال ذہن میں آیا کہ خان نے کیا خلاف ورزی کی نہ فوج نے لشکر کشی کی جبکہ معاہدہ پر دونوں فریق بہ رضارغبت مطمئن تھے اور خان نے جنگ کا راستہ اختیار کیا اور جام شہادت نوش کیا برطانوی سامراج کے سامنے جھگ گئے اور غلامی قبول کرلی منگچر میں بیٹھے بیٹھے یہ خیالات آرہے تھے اس لئے اس کو قلمبند کرلیا اب یہ ہمارا تاریخ کار حصہ ہے اب جب ان خیالات کو قلمبند کر رہا ہوں تو ایک دلچسپ واقعہ کا ذکر بھی اہم ہے اور تاریخ ہے۔1910کے انتخابات کی مہم تھی تو مجھے بھی جماعت اسلامی کے قیادت نے دعوت دی کہ خضدار میں جماعت اسلامی کے انتخابی جلسہ سے خطاب کریں۔اس وفد میں جماعت اسلامی بلوچستان کے امیر مولانا عبدالعزیز (مرحوم)کے ہمراہ عبدالحمید مینگل،مولانا خلیفہ عبدالرحیم شامل تھے جلسہ کے بعد ہم کوئٹہ کے لئے روانہ ہوئے تو ایک گھنٹہ کے بعد ایک جیپ مخالف سمت سے آرہی تھی اس میں تمام افراد مسلح تھے بندوق سے اشارہ کیا کہ رک جاؤ ہم رک گئے اس نے براہوئی زبان میں بات کی تو عبدالحمید مینگل اور مولانا براہوئی میں بتلایا کہ ہمارا تعلق جماعت اسلامی سے ہے اور مولانا عبدلعزیز کا تعارف بھی کرایا اس نے ہمیں سلام کیا ور مسکراتے ہوئے چلا گیا یہ ایوب خان کا دورہ تھا اور پہاڑوں پر مسلح جدوجہد ہورہی تھی ایک طرف خان قلات حکومت کے حامی تھے تو دوسری طرف و مسلح جدوجہد کرنے والوں کے ساتھ مکمل تعاون کررہے تھے اسلحہ اور مالی تعاون اور پناہ بھی دے رہے تھے۔
علی محمد مینگل نے ایک تصادم اپنی آنکھ کھو چکے تھے اور اس کا نشانہ بڑا زبردست تھا وہ سوئی کو اڑاتا تھا حکومت اس کی تلاش میں تھی وہ خضدار پہنچا تو اس کی مخبری ہوگئی وہ کئی گھنٹوں تک مقابلہ کرتا رہا لیکن ہتھیار نہیں ڈالے اور مارا گیا اس کی لاش کو ہیلی کاپٹر کے ذریعہ کوئٹہ لایا گیا اب میرے علم میں نہیں ہے کہ اس کو کہاں دفن کیا گیا اس کے حوالے سے ہفت روزہ زندگی میں کالم لکھا تو ایس پی آر نے جوابی بیان جاری کیا جو ہفت روزہ زندگی میں شائع ہوا۔
بھٹو کے دور میں مسلح تصادم کے واقعات زندگی میں لکھتا رہا بعض دوست بتلاتے تھے کہ ہم پہاڑوں میں آپ کے مضامین پڑھتے تھے شہزادہ عبدالکریم بیٹا سلیمان میرے ساتھ اسلامیہ ہائی سکول میں پڑھتا تھا اور وہ بھی قلات کے پہاڑوں میں مسلح تصادم مین شریک تھے جب میرا یک اور کالج فیلو افضل مینگل بھی مسلح تصادم میں شریک تھا یہ گورنر بلوچستان (سابق)امیر الملک مینگل کا چھوٹا بھائی تھا اس نے بتلایا کہ ہم زندگی رسالہ پہاڑوں میں پڑھتے تھے۔
ایک دن جناح روڈ پر سلیمان مل گیا یہ کوئی 10سال کے بعد بعد ملاقات ھی تب مجھے معلوم ہوا کہ سلیمان پہاڑوں پر جدوجہد میں شریک تھا وہ ملا تو بہت خوش ہوا۔ایوب خان کے دور میں نواب نوروز خان اپنے ساتھیوں کے ساتھ مسلح جدوجہد میں شریک تھا سردار دودا خان ایوب خان کے قریب تھا۔سردار دودا خان زہری 1962 تا1965مغربی پاکستان صوبائی اسمبلی کے ممبر تھے اور یہ نشست انہوں نے قلات کم خاران سے جیتی تھی۔
حکومت نے سردار دادو خان سے رابطہ کیا اور نوروز خان کو مسلح جدوجہد ترک کرنے کو کہا اور حکومت کے سامنے ہتھیار ڈالنے کو کہا انہوں نے سردار دودا کی بات مان لی کہے ہیں کہ قرآن کو درمیان میں گواہ بنالیا نواب نے حکومت کا کہنا مان لیا لیکن آفیسر شاہی نے سردار دودا خان سے خلاف وزری کی اور نواب نوروز خان اور ان کے 6ساتھیوں کو گرفتار کر لیا اور سزائے موت دے دی نواب جیل میں کچھ عرصہ کے بعد فوت ہوگئے ان کی لاشوں کو نواب خیر بخش مری نے وصول کیا خوف کا عالم تھا نواب کے اپنے ہمرائیوں کے علاوہ کوئی نہ تھا سردار دودا کے ساتھ حکومت نے بد عہدی کی اس کادکھ سردودا زہری کو ہمیشہ مضطرب کرتا رہا بھٹو کے دور میں بلوچ نوجوانوں اور دیگر لوگوں نے بغاوت کی اس جدوجہد میں سردار عطاء اللہ مینگل بیٹا منیر مینگل شامل تھا اور اس مسلح جدوجہدکی کمان عید محمد عیدو کررہا تھا گھیرے میں آگیا اور معلوم تھا یہ تمام لوگ مارے جائیں گے۔ سردار دودا خان زہری نے خان قلات گورنر بلوچستان سے ملاقات کی اور کہا کہ مجھے موقع دیں تا کہ ان کو ہتھیار ڈالنے پر آمادہ کروں سردار دودااس داغ کو بھی دھوناچاہتے تھے جو آفیسر شاہی کی بدولت لگگیا تھا۔خان مرحوم نے آپریشن رکوادای اور سردار دودا نے عید محمد عیدو سے رابطہ کیا اور تمام مسلح جدوجہد کرنے والوں نے ہتھیار ڈال دیئے اور گورنر ہاؤس میں خان کے روبرو یہ تمام لوگ موجود تھے پریس کانفرنس میں ہتھیار ڈالنے کا اعلان کیا سردار دودا خان زہری (مرحوم)اور منیر جان مینگل فرزند سردار عطاء اللہ مینگل موجود تھے بعد میں سرکٹ ہاؤس میں منیر مینگل سے سرور بنگلزئی کے ہمراہ ملاقات کی اس نے میرتعارف منیر مینگل کرایاکافی دلچسپ گفتگو ہوئی۔منیر مینگل بہت ہی خوبصورت نوجوان تھاگھنگریالے تھے عمر انداز 22سال یا 20سال ہوگی ہتھیار ڈالنے کی تصویر اخبارات میں شائع ہوگئی تھی میرے ریکارڈ میں موجود ہے یوں سردار دودا نے اپنے دامن کو صاف کر لیا جو آفیسر شاہی کی سازش سے ان پر لگا تھا اور سرخرو ہوگئے۔
یہ تاریخ کا ایک اہم باب ہے بعد سردار عطاء اللہ مینگل نے اپنی زندگی میں منیر مینگل کے بیٹے کے سر پر سرداری کی دستار بندھ لی۔(جاری)

اپنا تبصرہ بھیجیں