ایران شنگھائی تعاون کانفرنس کا رکن بن گیا

شنگھائی تعاون کانفرنس میں ایران کو پہلے مبصر کی حیثیت حاصل تھی،حالیہ اجلاس میں اسے رکنیت مل گئی ہے۔اس پیشرفت کے خطے کی سیاست پر دور رس اثرات مرتب ہوں گے۔چین اور ایران کے درمیان باہمی تجارت کا حجم بڑھانے کے لئے ایک سے زائد معاہدے ہو چکے ہیں، ان معاہدوں میں ایران سے چین اور روس تک گیس معاہدہ بھی شامل ہے۔یہ پائپ لائن پاکستان سے گزرے گی، پاکستان بھی 2013میں کئے گئے گیس پائپ لائن والے معاہدے کو مکمل کر سکے گا۔اس کا دیرینہ بہانہ ختم ہوجائے گا کہ اس پائپ لائن کی تعمیر کے پاکستان کے پاس فنی مہارت موجود نہیں، درکار مشینری امریکہ نے فراہم کرنی تھی، اور امریکہ ایران سے ایٹمی صلاحیت بڑھانے کوایران دشمنی کے لئے استعمال کرتا ہے، ہر قسم کی معاشی پابندیاں عائد کر رکھی ہیں، پاکستان جیسے مقروض ملک ایران سے تجارت نہیں کر سکتے۔متعدد دیدہ و نادیدہ رکاوٹیں پیروں کی زنجیر بن جاتی ہیں۔قرض دینے والا ملک مقروض ملک کو عملی طور پر اپنا غلام سمجھتا ہے۔ اس کی تازہ مثال سعودی عرب اور عرب امارات کی طرف پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان اور وزیر خارجہ کو ملائیشیاکی مسلم ممالک کی کانفرنس میں شرکت سے منع کردیا گیا تھا، اور اس کے علاوہ (ڈیفالٹر ہونے سے بچنے کے لئے)کچھ عرصہ پہلے دیا گیا اپنا قرض بھی واپس مانگ لیا تھا۔ اس کے معنے یہ ہوئے کہ دوسروں سے قرض لیناذلت آمیز اقدام ہے، اپنی عزت اور وقار قرض دینے والے ملک کے پاس گروی رکھوانا پڑتا ہے۔آج کل پاکستان امکان بھر کوشش کررہا ہے کہ غیر ملکی قرضوں کے چنگل سے نکلے۔ایران کو شنگھائی تعاون کانفرس کی رکنیت ملنے کے بعد چین اور ایران کے درمیان پہلے سے موجودمعاشی تعلقات میں مزید تیزی اور پختگی کے امکانات ہیں۔ اس کا بالواسطہ فائدہ پاکستان کو بھی پہنچے گا۔ایران سے بہتر کوئی دوسرا ملک امریکی خودغرضانہ ذہنیت سے واقف نہیں۔شہنشاہ ایران رضا شاہ پہلوی کے فرار کے بعد آٹھ سال تک عراق نے امریکی فرنٹ مین بن کر جنگ لڑی۔آخر خود عراق کو بھی اس بھیانک غلطی کی سزا ملی۔عراقی صدر صدام حسین کی افسوسناک پھانسی سب کو یاد ہوگی۔پاکستان نے امریکی محبت میں 80ہزار سول اورعسکری جانوں کی قربانی دی۔15ارب ڈالر سے زیادہ کا مالی نقصان برداشت کیا۔پاکستان پرامریکہ کی جانب سے480ڈرون حملے بھی ہوئے۔ 40لاکھ افغانی ہجرت کر کے پاکستان آئے اور ابھی تک واپس نہیں جا سکے، اس لئے کہ وہاں امریکہ اور اس کے نیٹو اتحادی غاصبانہ قبضے کی جنگ لڑ رہے تھے۔اتنی بڑی نقل مکانی اور چار دہائیوں تک پاکستان میں قیام اپنے ساتھ متعدد سماجی اور معاشی مسائل بھی اپنے ساتھ لایا۔امریکہ کے بارے میں برطانیہ کا تجزیہ درست ہے کہ اب اس کی حیثیت عالمی سپر پاور جیسی نہیں رہی،دوسرے متعدد ملکوں جیسا ایک شکست خوردہ عام ساملک ہے۔اگر امریکی مقتدرہ نے اپنی ماضی والی حکمت عملی مستقبل میں بھی جاری رکھنے کی ضد کی تو اسے اس کی پوری قیمت ادا کرنی پڑے گی۔بحرِ ہند اوربحرالکاہل میں برطانیہ اور آسٹریلیا کے ساتھ مل کر کسی نئی جارحیت کی کو شش کی تو اسے بہت کم وقت میں علم ہوجائے گا کہ اس نے خونخوارشارک مچھلیوں سے بھرے سمندر میں پڑاؤ ڈال دیا ہے۔اس خطے میں ایٹمی صلاحیت سے لیس نصف درجن ملک پہلے سے موجود ہیں۔ یہاں کمزور خلیجی ریاستیں واقع نہیں۔امریکی مقتدرہ غلط اندازوں کی شہرت رکھتا ہے۔دو ہفتے قبل امریکہ نے افغانستان میں ایک سماجی کارکن اور سات معصوم بچوں پر ڈرون حملہ کرکے اعلان کیا تھا کہ اس نے”داعش“ سے بدلہ لے لیا ہے۔مگر اگلے روز تسلیم کرنا پڑا کہ مرنے والے بے گناہ شہری تھے۔ایسی کوئی غلطی انڈو پیسفک میں نہ دہرائی جائے تو بہتر ہوگا۔امریکی مقتدرہ اس خوش فہمی میں نہ رہے سات سمندر پار ہونے کی بناء پر محفوظ ہے۔ شمالی کوریا بین البراعظمی میزائل کا تجربہ کر چکا ہے۔دیگر ملک بھی ضرورت کے وقت امریکی جارحیت کا بھرپور جواب دینے کے لئے ہر حد عبور کر سکتے ہیں۔یہ 1945والاخطہ نہیں رہا۔جاپان کے چاروں طرف ایٹمی صلاحیت رکھنے والے ملک موجود ہیں۔اس خطے میں کی جانے والی ہر غلطی کا فوری حساب دینا ہوگا۔ اس خطے میں جدید ٹیکنالوجی کے ماہرین آباد ہیں،ان ماہرین پرجیسا بم گراؤ گے، سیکنڈوں میں اسی قسم کے درجنوں بم امریکی شہری نیویارک اور واشنگٹن پر گرتے دیکھیں گے۔ دنیا جنگ سے نفرت کرتی ہے۔امریکی مقتدرہ کی غلطیوں کا خمیازہ امریکی شہری بھگت رہے ہیں۔آج کوئی امریکی شہری اپنی شناخت چھپائے بغیر دنیا کے کسی ملک میں بے خوف و خطر نہیں گھوم سکتا۔انڈو پیسفک معاہدے پرعمل درآمد کرنے سے پہلے امریکی حکومت اپنے جاری کردہ الرٹ نوٹسز کابغور مطالعہ کرے۔ابھی وقت ہے سوچ بچار کی جاسکتی ہے،اس مہلت کو اپنی حماقتوں کی نذر کر دیا تو پچھتانے کے لئے وقت نہیں ملے گا۔امریکہ مان لے کہ وہ عالمی برادری کا ایک رکن ملک ہے، اسے چوہدری ہونے کی سند کسی نے نہیں دی۔کل تک جو لوگ سر پر شاہانہ تاج سجائے شاہانہ پروٹوکول کے ساتھ دنیا کے چپے چپے پر نظر آتے تھے، آج صرف برطانیہ میں اور تاش کے پتوں پر دکھائی دیتے ہیں۔ملکہ برطانیہ کا عہدہ علامتی ہے، انہیں جیب خرچ پارلیمنٹ کی منظوری سے ملتا ہے۔ان کاشاہی خاندان ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے، شہزادے شاہی محل کی گھٹن زدہ فضاؤں سے نکل کر امریکہ میں ملازمت کرنے لگے ہیں تاکہ سکھ کی زندگی بسر کر سکیں۔ امریکی مقتدرہ دنیا کو اپنی چراگاہ نہ سمجھے۔برطانوی حکومت بھی اپنی آنکھیں کھولے۔امریکی تقلید میں کسی نئے موت کے کنویں میں چھلانگ نہ لگائی جائے۔اپنے دماغ سے سوچا جائے۔یہ واسکوڈی گاما اور کرسٹوفر کولمبس کا زمانہ نہیں،2021کا ستمبر ہے۔پانچ صدیوں سے زیادہ وقت گزر چکا۔کرسٹوفر کولمبس کا قول ہے:
”سورج کی روشنی کے تعاقب میں نے ہم نے پرانی دنیا چھوڑ دی“
امریکہ کو کولمبس کا ممنون ہونا چاہیے کہ اس نے مغربی سمت سے بھارت پہنچنے کی کوشش کرتے ہوئے امریکہ کے مغرب میں جا پہنچا۔”ویسٹ انڈیز“اسی کا دیا ہوا نام ہے۔ورنہ دنیا امریکہ نام کے براعظم سے عرصے تک بے خبر رہتی۔اس اتفاقی یا حادثاتی دریافت پرضرورت سے زیادہ فخر مناسب نہیں۔دیگر براعظموں سے زیادہ اسے کوئی مقام نہیں دیا جا سکتا۔اپنی اوقات نہ بھولے، ویت نام (1975)اور کابل (2021)دونوں انخلاء یاد رکھے، کسی نئی رسوائی کو دعوت نہ دے۔دنیا میں روشنی پھیلائے، اندھیروں کا سوداگر نہ بنے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں