تذبذب سے باہر نکلیں

ملکی سیاست میں ہلچل اور متضاد فیصلے اور اعلانات بند کمروں سے نکل کر میڈیااور اجتماعات کی زینت بننا شروع ہو گئے ہیں۔ مسلم لیگ (نون)میں فکری اختلاف دوسری صف کی قیادت کے رویوں میں نظر آنے لگا ہے۔ حکومت نے بھی کھل کر اپنی بات منوانے کاراستہ اختیار کر لیا ہے۔الیکٹرانک ووٹنگ مشین کو انتخابی عمل کا حصہ بناے کاسوال بظاہر حکومت اور اپوزیشن کے درمیان محاذ آرائی کا سبب نظر آتا ہے لیکن اس کی جڑیں دور تک پیوست ہیں۔سماجی اور معاشی مسائل آپس میں اس طرح گڈ مڈ ہوگئے ہیں کہ دونوں کو الگ کرنا آسان نہیں رہا۔ایک مسئلے پر بات کریں تواس سے جڑے ہوئے مزید دو مسائل سامنے دکھائی دینے لگتے ہیں۔جیسے بعض اوقات مریض کے آپریشن کے دوران ڈاکٹر مریض کے اہل خانہ سے رابطہ کرکے سمجھاتاہے کہ آپریشن سے پہلے ہماری جورائے تھی بعض نئے حقائق سامنے آنے کے بعد اس میں آپ سے مشورہ ضروری ہو گیا ہے۔آپ کی اجازت کے بغیر ہم کچھ نہیں کر سکتے۔یہی صورت حال سیاسی حالات کوسدھارنے کے طریقہ کار اور ممکنہ اقدامات کے دوران پیداہو گئی ہے۔حکومت کو پارلیمنٹ سے بعض معاملات میں نئی قانون سازی درکار ہے۔ای وی ایم کا سوال ان پیچیدہ معاملات میں سے ایک ہے۔الیکشن کمیشن اور حکومت کے درمیان اختیارات سے تجاوز کی بازگشت بھی سنائی دے رہی ہے۔عام حالات میں سیاسی پارٹیوں میں گروہ بندی روز مرہ کامعمول کہہ کرنظر انداز کر دی جاتی ہے مگر موجودہ تناظر میں اس گروہ بندی کا حجم اور کمیت غیر معمولی شکل اختیار کرتادکھائی دیتا ہے۔پی ٹی آئی کے بعض وزراء کے خلاف ایسے شواہد سامنے آئے ہیں کہ انہیں ساتھ لے کر چلناممکن نہیں رہا۔یاد رہے کہ پی ٹی آئی کے پاس ایوان میں معمولی سی اکثریت حاصل ہے، دو چار سیٹوں کے ادھر ادھر ہوتے ہی حکومت عددی اعتبار سے نہ صرف کمزور ہو جائے گی بلکہ اس کا وجود بھی خطرے میں پڑ سکتا ہے۔اسے ایوان کے اندر کمک نہ پہنچی تو قبل از وقت انتخابات کاراستہ اختیار کرنا پڑے گا۔خطے کے حالات اس کی اجازت نہیں دیتے۔ افغانستان میں 40سالہ خانہ جنگی کے خاتمے اور امریکی افواج کے انخلاء بعد غیریقینی صورت حال پیدا ہو گئی ہے۔ افغان طالبان کی حکومت ابھی تشکیل کے مرحلے میں ہے، عالمی سطح پر اسے تسلیم کیا جانا اپنی جگہ خود ایک بڑا سوالیہ نشان ہے۔جو ممالک تسلیم کرنا چاہتے ہیں انہیں بھی اس کی ہیئت پر اعتراض ہے۔وہ اس کی یک رنگی سے خائف ہیں۔لسانی اور مذہبی حوالوں سے ازبک اور تاجک نمائندگی ضروری سمجھتے ہیں۔پاکستان اور تاجکستان کو یہ ذمہ داری سونپی گئی ہے کہ مخلوط حکومت بنوائی جائے۔ خواتین کی کابینہ میں نمائندگی کا معاملہ بھی زیر بحث اور حل طلب ہے۔افغان طالبان کو اپنی ماضی والی سخت گیرہونے کی شناخت سے علیحدگی اختیار کرنے کا عملی ثبوت دینا ہے۔یورپی ممالک عمل کا تقاضہ کر رہے ہیں۔البتہ یورپی ممالک کو بھی یہ توقع نہیں کرنی چاہیئے کہ سارے وعدے ایک ہی مرحلے میں پورے کئے جاسکتے ہیں۔کچھ ہلکی پھلکی رعائتیں دینا ہوں گی۔مخلوط طریقہئ تعلیم کیلئے وقت دینا ہو گا۔ حجاب برداشت کرنا ہوگا۔خواتین کے حقوق کے یہ معنے نہ لئے جائیں کہ کابل میں ”میرا جسم، میری مرضی“جیسے نعروں کی اجازت ہوگی۔حج کے دوران سعودی عرب جیسے ماحول پر اکتفا کافی ہے۔ یہ حقیقت فراموش نہ کی جائے کہ افغان طالبان کو داعش اور ٹی ٹی پی جیسی شدت پسند تنظیموں کی موجودگی سے پیدا ہونے والے مسائل کا سامناہے۔ان حالات کے تناظر میں پاکستان میں قبل از وقت انتخابات کا انعقاد خارج از امکان ہے۔نون لیگ میں واضح دراڑ اور چوہدری نثار علی خان کے بارے میں اپنے ساتھیوں سمیت حکمراں جماعت میں شمولیت کی اطلاعات یہی اشارا سمجھی جائیں کہ موجودہ حکومت اپنی مدت پوری کرے گی۔اپوزیشن کو اپنی حکمت عملی تازہ حقائق کی روشنی میں مرتب کرنی ہے۔ خواہشات کا دباؤ معروضی حالات کے برعکس ہو تو کامیابی کے امکانا معدوم ہو جاتے ہیں۔نیب کے دائر کردہ ریفرنسز(مقدمات) کی سماعت کے دوران لیگی رہنماؤں کے وکلاء کو تیاری کے بغیر نہ آنے کہ ہدایت اہمیت کی حامل ہے۔پی پی پی کو بھی نئے مسائل درپیش ہیں۔پی پی پی سے جو عوامی لگاؤ ماضی میں دیکھا جاتا تھا اس میں کافی حد تک کمی آئی ہے۔ قیادت کو سوچنا ہوگا کہ عوام ان کے جلسوں میں آنے کے بعدانہیں ووٹ کیوں نہیں دیتے؟سمٹ کر سندھ تک کیوں محدود ہوگئی ہے؟لیاری کی سیٹ کا چھن جانا معمولی واقعہ نہیں تھا،سندھ میں پی پی پی کی حکومت ہے،لیاری والوں کی ناراضگی دور کرنے کے لئے کیااقدامات کئے گئے؟لاڑکانہ والے بھی اپنی ناراضگی کا اظہار کرتے رہتے ہیں،چند ماہ قبل ایک بچے کا مرغامضر صحت پانی پینے سے مرگیا تو اس نے مراہوا مرغا اٹھا کر چیئرمین پی پی پی بلاول بھٹو زرداری سے معصوم احتجاج کیا تھا،بچے کو ایک آدھ مرغا اور پانیکی چند بوتلیں بھجوا کراصل مسئلہ فراموش کردیا گیا ہے کیونکہ پینے کے پانی کی فراہمی کے کسی منصوبے پر کام نہیں ہورہا۔عدم توجہی کا یہ رویہ لاڑکانہ کے لوگوں کوبھی لیاری کی طرح پی پی پی سے دور کر دے گا۔ مانا کہ موجودہ حکومت کے دور میں سیاستدانوں کو مشکلات کا سامنا ہے، مگر سوال یہ ہے کہ پاکستان کی تاریخ میں اپوزیشن کو کب حکومت کی جانب سے پھولوں کے ہار پہنائے گئے؟محترمہ بینظیر بھٹو نے کون سی مصیبت ہے جو برداشت نہیں کی؟اس کے صلے میں عوام نے انہیں کبھی تنہا نہیں چھوڑا۔ ورنہ انہیں پراسرار انداز میں لیاقت باغ سے نکلتے ہی شہید نہ کیا جاتا۔یہ بھی نئی حقیقت ہے کہ پاکستان اپنے جغرافیائی محلِ وقوع کی بناء پراس خطے میں اہم حیثیت کا ملک بن گیا ہے،اسے مائنس کرنا آسان نہیں۔کم از کم شنگھائی تعاون کانفرنس کے مناظر سے یہی تأثر ملتا ہے۔ عالمی سطح پر رونما ہونے والے واقعات کو یکسر نظرانداز نہ کیا جائے۔ تین سال کے دوران
اپوزیشن نے دیکھ لیا ہے کہ صرف نعرے عوام کی ناراضگی دور نہیں کر سکتے۔ عوام اپوزیشن سے مستقبل کی فول پروف پلاننگ چاہتے ہیں۔دانشمندی کا تقاضہ ہے کہ اپوزیشن تذبذب سے باہر نکلے، عوام کے سامنے قابلِ فہم اور قابلِ عمل متبادل روڈ میپ رکھے۔وقت بڑی تیزی سے اپوزیشن کے ہاتھ سے نکلتا جا رہا ہے۔جو فیصلہ کرنا ہے،کر لیا جائے۔سیاست کے کھیل میں نشیب و فراز اور پیچ و خم کا مکمل اداراک ضروری ہے۔ ناقص منصوبہ بندی پر تکیہ کرنے وقت نہیں، ٹرمپ کارڈ اگر ہے تو کھیلا جائے بصورتِ دیگر کھیل ہاتھ سے نکل سکتا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں