منی بجٹ کا تکلف بھی کیوں؟

آج قومی اسمبلی کا اجلاس طلب کر لیا گیا ہے تاکہ منی بجٹ منظور کیا جائے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ آئی ایم ایف کی تسلی کے لئے اس کی ضرورت پیش آگئی ہے۔مقروض ملک ہونے کی بناء پرپاکستان سے بعض مالیاتی اقدامات کا تقاضہ کیا گیا تھا۔ ان اقدامات میں بعض شعبوں کو دی جانے والی چھوٹ کا خاتمہ اور ٹیکسوں رد و بدل شامل ہے۔تمام بینک کسی فرد، فرم یا ملک کو قرض دینے سے پہلے اپنے مفادات کاخیال رکھتے ہیں۔سرفہرست کیا جانے والاکام یہ ہے کہ قرض لینے والے سے قیمتی اثاثے بطور ضمانت اپنے پاس رکھوا لیں، تاکہ اگر قرض لینے والا کسی وجہ سے قرض واپس نہ کر سکے تو اس کی رہن رکھوائی گئی جائیداد بیچ کر قرض دی گئی رقم وصول کر لی جائے۔یادرہے رقم کی وصولی میں کسی قسم کی کوئی نرمی نہیں برتی جاتی۔”گھوڑا گھاس سے دوستی کرے گا تو کھائے گا کیا؟“ والا جملہ دہرایا جاتا ہے۔پاکستا ن74برسوں میں اپنی مالی مشکلات کی بناء پر 22بارآئی ایم ایف کے پاس گیا ہے۔ جانے نہ جانے کی بحث اپنی جگہ ضروری ہے لیکن اس مرحلے پر اس کی قطعاً ضرورت نہیں۔آج سوچا جا رہاہے کہ آئی ایم ایف سے جان چھڑانے کے لئے کیا کیا جائے؟۔۔۔۔ اور اس سے بھی پہلے اس سوال کاجواب تلاش کیا جائے کہ قرض کی موجودہ شرائط سے کیسے نمٹا جائے؟اس لئے کہ ہر 6ماہ بعد قسط روک لی جاتی ہے اور مذاکرات شروع ہو جاتے ہیں کہ پاکستان نے فلاں شرط کیوں پوری نہیں کی؟بلکہ یہ مطالبہ بھی کیا جاتا ہے کہ پہلے یہ کام کرو،اس کے بعد بات آگے بڑھے گی۔ہر شرط کے ساتھ مہنگائی نتھی ہے،شرط پوری ہوتے ہی عوام کی جیب سے معقول رقم مزید نکل جاتی ہے۔مثلاً بجلی، گیس یا پیٹرول میں سے کسی ایک کے یا سب کے دام بڑھنے کے معنے ہیں:”ضروریات زندگی کی ہر شے کے دام بڑھ جائیں“۔ویسے بھی پندرہ روزہ بنیادوں ان کے دام عالمی منڈی میں رونما ہونے والی شرح کے مطابق تبدیل ہونا روزمرہ کا معمول بن چکا ہے۔عوام ذہنی اور عملی طور پر عادی ہو چکے ہیں۔لیکن حکومت کے لئے لمحہئ فکریہ ہے۔چار ماہ میں مہنگائی پر قابو پانے کی نوید سنائی جا رہی ہے۔ عام آدمی ایسی پیشگوئیاں گزشتہ ساڑھے تین سال سے لگاتار سنتا چلا آرہا ہے۔اس کے لئے ”شیر آیا، شیر آیا“جیسی بازگشت سے زیادہ اس کی کوئی اہمیت نہیں رہی،بلکہ اس دعوے کا اثر ہمیشہ اس کے بر عکس دیکھا گیا ہے۔ڈالر بے قابو ہونے کی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ حکومت کو رواں مالی سال میں بڑی مقدار میں (26،27ارب ڈالر) واجب الاداقرض اور سود کی اقساط واپس کرنی ہیں۔ جس ملک کی برآمدات 21،22ارب ڈالر سے بھی کم ہوں، اوورسیز پاکستانیوں کی ترسیلات پر معیشت چل رہی ہے، اس کے لئے یہ ادائیگی جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔یہ قرضے ماضی میں لئے گئے تھے، حال میں کئے جارہے ہیں۔جو قرضے موجودہ حکومت لے رہی اس کی ادائیگی ہماری آئندہ نسلیں کریں گی۔ہمارے دل میں اپنی آئندہ نسلوں ہمدردی ہو تو ہم ایسا نہ کریں۔تاہم ایک فرق یہ ہے کہ موجودہ حکومت آمدنی بڑھانے کے غیرروایتی اقدامات بھی کر رہی ہے۔سیاحت کو فروغ دینا ایسے اقدامات میں شامل ہے۔”بھنگ“سے ادویات کشید کرنا فی ایکڑ ایک لاکھ ڈالر اضافی آمدنی کا ذریعہ بن چکا ہے۔ زیتون کی بڑی 50لاکھ درختوں کے لگ بھگ شجر کاری اور بیر ی کے درختوں سے شہد حاصل کرنے جیسے اقدامات پیداواری مرحلے تک پہنچنے لگے ہیں۔زیرِ تعمیرڈیم بھی ایک دو برسوں میں سستی بجلی فراہم کرنے کے قابل ہو جائیں گے۔ان منصوبوں کی تیز رفتار تکمیل دیکھ کر کہا جا سکتا ہے کہ آئندہ نسلیں آج جیسی مشکلات کا سامنا کرنے سے محفوظ رہیں گی۔زراعت کے شعبے میں جدید ٹیکنالوجی کا متعارف ہونا بھی ایک حوصلہ افزااور مفید اقدام ہے۔فی ایکڑ پیداوار میں اضافے کے ساتھ ملکی معیشت بہتر بنانے میں مددگار ثابت ہوگا۔ واضح رہے ملک کو قرضوں کی دلدل میں دھنسنے میں نصف صدی صرف ہوئی ہے، اس دلدل سے نکلنے میں بھی کم از کم دو دہائیاں تو لگیں گی۔یہ بجلی کے ”آن۔آف“بٹن کی طرح”آن“ کرتے ہی منظر تبدیل نہیں کرے گا۔بلوچستان اور وزیرستان کے ناراض لوگوں سے بات چیت کااعلان سنجیدگی اور دانشمندی سے عملی اقدامات میں ڈھالا جائے۔ سب جانتے ہیں کہ یہ ایک الجھا ہوا اور پیچیدہ معاملہ ہے،کئی دہائیوں پر محیط ہے۔عالمی طاقتیں بھی اس کے حل ہونے کی راہ میں حائل رہی ہیں اور تاحال ایک رکاوٹ بنی ہوئی ہیں۔بظاہر لگتا ہے کہ پی ٹی آئی کی حکومت ماضی کے مقابلے میں زیادہ دلچسپی لے رہی ہے۔ ممکن ہے اسے کچھ بہتر حالات میسر آئے ہوں۔جیسا کہ کابل سے امریکی انخلاء اس سمت میں ایک مثبت تبدیلی لانے کا سبب بنا ہے۔افغانستان میں افغان حکومت سے پاکستان کے اشرف غنی حکومت کی نسبت کہیں اچھے تعلقات ہیں۔ بھارت کا اپنے مسائل میں زیادہ الجھنا بھی پی ٹی آئی کے لئے معاون ہونا خارج از امکان نہیں۔ایران کی چین سے قربت اور امریکہ سے دوری کے اثرات کو نظر انداز کرنا درست نہیں ہوگا۔کسی ملک کے داخلی اور خارجی مسائل دو اور دو کی طرح سادہ نہیں ہوتے۔ان کے درمیان بہت سارے اگر، مگر اور چونکہ،چنانچہ بھی آتے ہیں۔ درجنوں عوامل بیک وقت کام کر رہے ہوتے ہیں۔ہمسایہ ممالک کی خوشیاں اور ناراضگی اثر انداز ہوتی ہے۔ سب سے بڑی بات دانا سمجھا گئے ہیں کہ کبھی کے دن اور کبھی کی راتیں بڑی ہوتی ہیں۔وقت ہمیشہ ایک جیسا نہیں رہتا۔کورونا جیسا انسانی آنکھ سے نظر نہ آنے والا وائرس عربوں کی معیشت کو زمین بوس کر دیتا ہے۔چند دن پہلے جنوبی افریقہ سے اطلاع ملی:کورونا وائرس نے اپنی شکل تبدیل کر لی ہے، ”اومی کرون“‘ بن گیا ہے۔دیکھتے ہی دیکھتے پیٹرول کی قیمت آسمان سے زمین
کی طرف آنا شروع ہو گئی۔امریکہ اور چین کے درمیان سرد جنگ کا آغازکسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔وقت گزرنے کے ساتھ یہ بھی اپنی شکلیں تبدیل کرے گا۔ امریکی سینیٹرزکے چار رکنی وفد کی پاکستان آمد اور وزیر اعظم عمران خان سے ملاقات کو تفریحی دورہ نہیں کہہ سکتے۔ طاقتور ملک گاجر اور چھڑی ایک ساتھ رکھتے ہیں۔امریکی تھنک ٹینک بھی معاملہ فہم ہیں، 76سال سے دنیا پر حکمرانی کر رہے ہیں۔حکمرانی کے آداب سے واقف ہیں،جانتے ہیں کب گاجر آگے بڑھانی اور کب اسٹک سے کام لینا ہے۔افغانستان میں تبدیلی اس خطے کی سیاست اور معیشت کو نئی شکل دے رہی ہے۔تسلیم کئے بغیر اقوام متحدہ انسانی المیہ کے نام پر متحرک ہے۔ منی بجٹ ایک رسمی کارروائی سے زیادہ کچھ نہیں۔آسانی سے منظور ہو جائے گا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں