عالمی سطح پر افراط زر بڑھنے سے مہنگائی کا طوفان آیا،جلد قابو پالیں گے،وزیر اعظم

مارچ2022 تک پنجاب کے ہر خاندان کو ہیلتھ کارڈ مل جائے گا،، تین سال میں 440ارب روپے صحت کے شعبے میں خرچ ہوں گے، غریب خاندانوں کو احساس راشن کارڈ دے رہے ہیں جس کے تحت انہیں 30فیصد رعایتی قیمتوں پر راشن کی سہولت حاصل ہوگی، 47ارب روپے غریب خاندانوں کے بچوں کیلئے تعلیمی اسکالر شپس د یئے جائیں گے، پنجاب بھر میں اسپتالوں کا جال بچھایا جائے گا لوگوں کی خدمت عقل سے نہیں نیت سے کی جاتی ہے،عمران خان کا صوبہ پنجاب میں صحت انصاف کارڈ کی فراہمی کی تقریب سے خطاب
لاہور(آئی این پی)وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ اگلے سال مارچ تک صوبہ پنجاب کے ہر خاندان کو ہیلتھ کارڈ مل جائے گا، احساس راشن کارڈ بھی جلد جاری کریں گے،معاشرے میں فلاح کا سب سے بڑا کام مفت علاج کی سہولت ہے،اگلے تین سال تک 440ارب روپے صحت کے شعبے میں خرچ ہوں گے اور نجی ادارے بھی ان میں شرکت کریں گے،پنجاب میں اسپتالوں کا جال بچھایا جائے گا، مارچ2022تک پورے پنجاب کے تین کروڑ سے زائد خاندانوں کو صحت انصاف کارڈ کی سہولت میسر ہوگی، ملک میں مہنگائی کا اندازہ ہے، عالمی سطح پر چیزیں مہنگی ہونے کی وجہ سے مہنگائی کا طوفان آیا ہے،جلد اس پر قابو پالیں گے،غریب خاندانوں کو احساس راشن کارڈ دے رہے ہیں جس کے تحت انہیں 30فیصد رعایتی قیمتوں پر راشن کی سہولت حاصل ہوگی، اس کے ساتھ 47ارب روپے کی غریب خاندانوں کے بچوں کیلئے تعلیمی اسکالر شپس دیے جائیں گے،جب کورونا وباء آئی تو تین ماہ تک مسلسل اپوزیشن نے ملک میں لاک ڈاؤن نہ لگانے کا طعنہ دیا،مجھے بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی مثالیں دی گئیں اور کسی نے کہا کہ اگر کورونا سے ملک میں کوئی مر جائے تو اس کی ایف آئی آر وزیراعظم پر کاٹی جائے،اپوزیشن نے اسمبلی، اخباروں اور ہر جگہ مجھے برا کہا لیکن اس وقت بھی میں نے ملک میں مکمل لاک ڈاؤن نہیں لگایا اور لوگوں سے یہی پوچھتا رہا کہ دیہاڑی دار دن میں بچوں کا پیٹ پالتا ہے، ہفتہ وار کام کرنے والے،رکشے والے، چھابڑی والوں کا کیا بنے گا؟لیکن کسی نے بھی میری ان باتوں کا جواب نہیں دیا، ملک میں مالدار طبقے کو غریب کی فکر ہی نہیں ہے۔انہوں نے کہا آج دنیا میں پاکستان کی مثال دی جاتی ہے، پیر کو وزیراعظم عمران خان نے لاہور میں صحت وانصاف کارڈ کے صوبہ پنجاب کی فراہمی کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بیماری کے علاج معالجے کیلئے غریب خاندان بے بسی کا شکار ہوجاتے ہیں اور اس کا اندازہ وہی کرسکتے ہیں جن پر یہ گزرتی ہے، لوگ اپنا سب کچھ بیچ دیتے تھے اور مقروض ہوجاتے تھے، مریض بھی چلاجاتا تھا اور گھر بھی تباہ ہوجاتے تھے۔انہوں نے کہا کہ اپنی والدہ کی بیماری کا احساس ہے،غریب پر بیماری کس طرح آزمائش بن کر گزرتی ہے۔انہوں نے کہا کہ اگر معاشرے میں کسی نے سب سے بڑا کام کرنا ہے تو غریب خاندانوں کی بیماری میں ان کا سہارا بنیں تاکہ ان کو علاج معالجے کی فکر نہ ہو۔وزیراعظم نے کہا کہ ریاست مدینہ میں دنیا کا سب سے بڑا انقلاب آیا تھا، ریاست مدینہ کو فلاحی ریاست بنانے کا فیصلہ کیا گیا اور حالات ایسے تھے کہ معاشرے میں غربت چھائی ہوئی تھی، دنیا میں پہلی فلاحی ریاست،ریاست مدینہ بنی۔ انہوں نے کہا کہ ریاستوں یں پہلے انسانیت آتی ہے پھر اس کے بعد وہاں پیسہ آتا ہے،پھر فلاحی ریاست بنتی ہیں اور اللہ کی طرف سے خوشحالی آتی ہے لیکن 74 سال سے ہم انتظار کر رہے تھے کہ پیسہ آئے گا تو پھر فلاحی ریاست بنے گی لیکن قرارداد مقاصد میں موجود ہے کہ اس ملک کو اسلامی فلاحی ریاست بنانا ہے۔انہوں نے کہا کہ لوگوں کی خدمت عقل سے نہیں نیت سے کی جاتی ہے۔انہوں نے کہا کہ کینسر کا بہت مہنگا علاج ہے، مریض بھی جاتا تو ساتھ میں اس کے اہل خانہ بھی تباہ ہوجاتے تھے، اسی لیے میں نے شوکت خانم ہسپتال بنایا۔انہوں نے کہا کہ اگر آپ معاشرے میں سب سے بڑا کام کرنا چاہتے ہیں تو وہ یہ ہے کسی گھرانے میں لوگوں پر یہ عالم نہ آئے کہ ہمارے پاس پیسے نہیں تھے تو ہم علاج نہیں کرواسکتے ہیں۔وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ یہ سب سے زیادہ کسی انسان پر مشکل وقت گزرتا ہے، بچوں پر اپنے ماں باپ کو دیکھ کر اور والدین کو اپنے بچوں کو دیکھ کر اسی وقت میں نے سوچا تھا کہ اس ملک میں ایک ہی طریقہ ہے ایک صحت انشورنس ہو کہ معاشرے میں غریب سے غریب آدمی کو گھر میں بیماری یا مشکل آتی ہے تو اس کو یہ خوف نہ ہو علاج کے لیے ہمارے پاس پیسہ نہیں ہے،انہوں نے کہا کہ ریاست مدینہ کے تصور کی لوگوں کو سمجھ نہیں آتی ہے اسی لیے ہم نے رحمت اللعالمین اتھارٹی بنائی ہے تاکہ اپنے بچوں، نوجوانوں اور تمام لوگوں کو پتہ چلے کہ سیرت النبیؐ کیا ہے اور دنیا کی تاریخ میں کتنا بڑا انقلاب آیا تھا، جس کو ہم ریاست مدینہ کہتے ہیں۔وزیراعظم نے کہا کہ ایک نقطہ سب کو سمجھنا ہے کہ جب نبی اکرمؐ نے ریاست مدینہ کی سربراہی سنبھالی تو مسلمان غریب ترین تھے، زیادہ تر لوگ ہجرت کرکے آئے تھے اور ان عوام کے پاس کچھ نہیں تھا اور غربت کی انتہا تھی تو انہوں نے تب فیصلہ کیا کہ ہم اس کو ایک فلاحی ریاست بنائیں گے۔وزیراعظم نے کہا کہ جب کورونا وباء آئی تو تین ماہ تک مسلسل اپوزیشن نے ملک میں لاک ڈاؤن نہ لگانے کا طعنہ دیا،مجھے بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی مثالیں دی گئیں اور کسی نے کہا کہ اگر کورونا سے ملک میں کوئی مر جائے تو اس کی ایف آئی آر وزیراعظم پر کاٹی جائے،اپوزیشن نے اسمبلی، اخباروں اور ہر جگہ مجھے برا بھلاکہا لیکن اس وقت بھی میں نے ملک میں مکمل لاک ڈاؤن نہیں لگایا اور لوگوں سے یہی پوچھتا رہا کہ دیہاڑی دار دن میں بچوں کا پیٹ پالتا ہے، ہفتہ وار کام کرنے والے،رکشے والے، چھابڑی والوں کا کیا بنے گا؟لیکن کسی نے بھی میری ان باتوں کا جواب نہیں دیا، ملک میں مالدار طبقے کو غریب کی فکر ہی نہیں ہے۔انہوں نے کہا آج دنیا میں پاکستان کی مثال دی جاتی ہے اور دی اکانومسٹ میگزین میں 172ملکوں میں سے جس ملک نے سب سے بہتر انداز میں کورونا وبا سے مقابلہ وہ ملک پاکستان ہے، اس کے مقابلے میں پڑوسی ممالک میں جتنی تباہی پھیلی وہ سب کے سامنے ہے۔وزیراعظم نے کہا کہ ہمارے ملک میں اللہ کی برکت آئی ہے اس لئے کہ ہم نے غریب طبقے کا احساس کیا ہے اور اللہ غریبوں کی سنتا ہے۔وزیراعظم نے کہا کہ پنجاب حکومت نے عوام کیلئے صحت کارڈ کا اجراء کر کے بہت بڑا کارنامہ سرانجام دیا ہے جس کے تحت اگلے تین سال تک 440ارب روپے صحت کے شعبے میں خرچ ہوں گے اور نجی ادارے بھی ان میں شرکت کریں گے اور پورے صوبے میں اسپتالوں کا جال بچھایا جائے گا، مارچ2022تک پورے پنجاب کے تین کروڑ سے زائد خاندانوں کو صحت انصاف کارڈ کی سہولت میسر ہوگی۔ وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ ملک میں مہنگائی کا اندازہ ہے، عالمی سطح پر چیزیں مہنگی ہونے کی وجہ سے مہنگائی کا طوفان آیا ہے،جلد اس پر قابو پالیں گے۔غریب خاندانوں کو احساس راشن کارڈ دے رہے ہیں جس کے تحت انہیں 30فیصد رعایتی قیمتوں پر راشن کی سہولت حاصل ہوگی، اس کے ساتھ 47ارب روپے کی غریب خاندانوں کے بچوں کیلئے تعلیمی اسکالر شپس دیے جائیں گے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں