بلدیاتی انتخابات عوامی موڈ کا مظہر ہوں گے

خیبر پختونخوا میں بلدیاتی انتخابات منعقد ہونے میں محض 48گھنٹے باقی ہیں۔چند روز قبل وزیر اعظم عمران خان کی پشاور آمد اور ایک جلسے سے خطاب کا الیکشن کمیشن نے نوٹس لیتے ہوئے وارننگ لیٹر جاری کیا ہے کہ 19دسمبر کو بلدیاتی انتخاب ہو رہے ہیں کبکہ پہلا مر حلہ جاری ہے، ایسے وقت پر ان کادورہ ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی ہے۔اسی قسم کے نوٹسز پی پی پی کے رہنماؤں کو بھی جاری کئے گئے ہیں۔ بلدیاتی انتخابات کا خیبر پختونخوا سے آغاز اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ کہ جہاں جس حکومت کو اپنی جیت کا یقین ہے وہاں انتخابت کرائے جا رہے ہیں۔سندھ میں بھی قانون سازی کر لی گئی ہے۔اگر مردم شماری کا عذر آڑے نہ آیا تو انتخابات ہو جائیں ورنہ زیر التوا رہیں گے،اور پی پی پی کی حکومت کو عوام کا سامنا کرنے کی مشکل سے عارضی چھوٹ حاصل رہے گی۔پنجاب میں پی ٹی آئی کی حکومت ہے اور وہاں صحت کارڈ کا اجرا کچھ صوبوں میں ہو چکا ہے جبکہ باقی اضلاع میں بھی جنوری سے مارچ کے دوران ہر خاندان کو یہ سہولت فراہم کر دی جائے گی۔اس کے علاوہ بعض بڑے منصوبوں سمیت ترقیاتی کام بھی حکومت کے لئے اطمینان کا باعث ہیں۔البتہ بعض مبصرین کا خیال ہے مہنگائی کی بلند سطح اور بیوتوکریسی کے عدم تعاون کی بناء پر عام آدمی پنجاب حکومت کی کارکردگی سے خاصا ناراض ہے، اور پی ٹی آئی کو اس ناراضگی کی وجہ سے بلدیاتی مقابلے میں غیر متوقع صورت حال پیش آسکتی ہے۔ضمنی انتخابات میں نون لیگ کی کامیابیوں سے بھی یہ مکتبہئ فکر یہی سمجھتا ہے کہ پی ٹی آئی کی جیت مخدوش نظر آتی ہے۔ان کے برعکس وزیر اعظم کا ملک بھر میں جلسوں سے خطاب اور اپنے مخصوص انداز میں ریاست مدینہ کی جانب مثبت پیش قدمی کوتواتر سے اجاگر کرنا بھی یکسر نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔میانوالی کے اجتماع کا جوش و جذبہ دیدنی تھا۔آبائی حلقہ عموماً حکومتی کارکردگی سے مطمئن نہیں ہوتا۔اسی طرح کراچی میں منصوبے اپنے طے شدہ پروگرام کے مطابق بروقت تکمیل کی جانب بڑھ رہے ہیں۔80گرین بسیں 25دسمبر سے سڑکوں پر آجائیں گی۔پانچ بڑے برساتی نالوں میں سے دو تین (محمودآباد، گجر ونالہ اور اورنگی نالہ)تکمیل کے قریب پہنچ چکے ہیں،جاری کام کی رفتاردیکھتے ہوئے کہہ سکتے ہیں دیگرنالے بھی جلد ہی مکمل ہوجائیں گے۔پینے کے پانی کا بہت بڑا منصوبہ K-4کی نگرانی وزیراعظم خود کر رہے ہیں اور واپڈا کو تعمیراتی ذمہ داری سونپی گئی ہے، اس لئے غالب امکان ہے کہ یہ پرانا منصوبہ بھی 2023تک مکمل ہو جائے گا۔کراچی کے عوام کی سب سے بڑی پریشانی پانی کی شدید قلت ہے۔اس کے دور ہونے کا سارا کریڈٹ پی ٹی آئی کو جائے گا۔ مردم شماری کی درستگی کے نتیجے میں باور کیا جاتا ہے کہ کراچی اور سندھ کے دیگر شہروں کی صوبائی اور قومی سیٹیں بڑھ جائیں گی۔ یہ بھی پی پی پی کو نہیں ملیں گی۔پی پی پی گزشتہ ساڑھے تیراہ برسوں سے حکومت کر رہی ہے، مگر عوامی مسائل جوں کے توں موجود ہیں۔انتخابات کے دوران عوام اپنا رد عمل یقینا دیں گے۔کتوں کی کثرت بھی عوام کے لئے ایک عذاب سے کم نہیں۔علاج معالجے کی سہولت بھی قریبی اسپتالوں میں دستیاب نہ ہو توعوام ناراضگی دو چند ہوجاتی ہے۔بلدیاتی انتخابات کے دوران عوامی موڈ کھل کر سامنے آجاتا ہے۔ ان کے نتائج سے واضح ہوجائے گا صوبائی اور قومی حکومت کس پارٹی کو ملے گی۔اس مرتبہ کرپشن کیسز کے فیصلے بھی انتخابی نتائج کا رخ متعین کرنے میں اہم کردار ادا کریں گے۔شریف فیملی کی مزاحمت اور مفاہمت کی ملی جلی حکمت عملی شریف فیملی کو مطلوبہ نتائج دلوانے میں ناکام رہی ہے۔ بالخصوص گلگت بلتستان کے سابق چیف جج رانا محمد شمیم والا لندن میں نوٹرائز کرایا گیابیانِ حلفی تو سو فیصد پورس کا ہاتھی ثابت ہوا ہے۔اپنے ہی مورچوں کو تہس نہس کر کے رکھ دیا ہے۔ادھر مسلم لیگ نون کے صدر اور ان کے صاحبزادے کے خلاف بینکنگ کورٹ میں زیر سماعت مقدمہ بھی لمحہ بہ لمحہ چونکا دینے والا منظر پیش کرنے لگا ہے۔میڈیا کے ذریعے سامنے آنے والے شواہد کی روشنی میں مبصرین کی اکثریت کا خیال ہے شریف فیملی کے لئے دفاع حد درجہ مشکل ہے۔مقدمہ کا فیصلہ شریف فیملی کے لئے انتخابی شرکت کاراستہ بھی روک سکتا ہے۔عدالتی فیصلوں کے نتیجے میں قیادت کے بغیرالیکشن میں کامیابی آسان نہیں ہوگی۔ ناراض نون لیگی لیڈرشپ کا رویہ بھی فیصلہ کن کردار ادا کرے گا۔یاد رہے دوسرے درجے کی ناراض قیادت اتنی بڑی تعدادمیں، ماضی میں کبھی کھل کر شریف فیملی کے سامنے نہیں آئی۔اس کی وجوہات کچھ بھی ہوں، لیکن مصائب اکٹھی ہوکرایک سیلابی ریلے کی شکل اختیار کر لیں تو عقل ماؤف ہوجاتی ہے۔ہر طرف بروٹس دکھائی دینے لگیں تو سیزر صرف دیکھتا رہ جاتا ہے،”بروٹس یو ٹو!“ کہنے کے لئے زبان اس کا ساتھ نہیں دیتی۔ٹیکسلا کے ناراض لیگی رہنما نے دو تین روز قبل اپنے سیاسی فیصلے اور لائحہ عمل کا اعلان کر دیا ہے۔ یہ اعلان ہر چند غیر متوقع نہیں مگر اس کی ٹائمنگ نے اس فیصلے کی شدت دوچند کر دی ہے۔دیگر ناراض اراکین قومی و صوبائی اسمبلی اس چھتری کے نیچے با آسانی پناہ لے سکیں گے۔ٹیکسلا میں اتنی گنجائش ہے کہ بڑی تعدادمیں آنے والوں کے لئے گھنی چھاؤں فراہم کرسکے۔تیسرے اور چوتھے درجے کی قیادت کا قد اعلیٰ قیادت نے اپنی غیر سیاسی سوچ اور تربیت کے باعث دانستہ اونچا نہیں ہونے دیا۔اس لئے انہیں بیساکھیوں کے بغیر چلنے کی عادت نہیں رہی۔اوپری سطح کااس طرح یکلخت غائب ہوجانا نون لیگ کے لئے پہلا تجربہ ہے۔ ٹوئیٹر کلچر کا پہنچایا جانے والا نقصان اس کے علاوہ ہے۔کیااتنے بڑے امتحان سے نکل پائے گی؟اس سوال کا ہاں میں جواب دینا فوری طور پر ممکن نہیں۔اس سوال کا جواب وقت دے گا اور حالات کے تیور بتارہے ہیں کہ وقت زیادہ دور نہیں۔نون لیگی تھنک ٹینک میرٹ پر چنے گئے ہوتے تب بھی اتنے بڑے بحران کا سامنا کرنا ان کے بس سے باہر ہوتا۔یہ تو منتخب کنندگان کی ذاتی پسند کے نتیجے میں اس مقام تک پہنچے ہیں، ان سے ایسی کوئی توقع نہیں کی جا سکتی۔کچھ لوگ اس صورت حال کو مکافات عمل پر محمول کریں گے۔تاہم کارکنوں کو کوئی دوش نہیں دیا جا سکتا۔اعلیٰ قیادت بے خبری کا دعویٰ نہیں کرسکتی۔ معاملات 2014 میں بگڑنا شروع ہوئے۔ایک سال بعد جسٹس انور ظہیر جمالی کے پاس انتخابی دھاندلی کیس کا جانا خطرے کی گھنٹی بجنے کے مترادف تھا۔اسے گالم گلوچ سے جیتنا ممکن نہیں تھا۔غیردانشمندانہ حکمت عملی اختیار نہ کی جاتی تو یہ دن نہ دیکھنا پڑتے۔موجودہ منظر کسی خوش فہمی کی اجازت نہیں دیتا۔ حقیقت پسندی سے کام لیا جائے تواب بھی مکمل تباہی سے بچنے کی راہ نکالی جا سکتی ہے۔بصورتِ دیگرانا پرستی اور بیجا ضد سب کچھ بہا کرلے جائے گی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں