سرفہرست مسئلہ‘تباہ شدہ معیشت میں بہتری لانا

2019میں کورونا وائرس کی شکل میں ایک عالمی مسئلہ سامنے آیااور برق رفتاری سے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔اتنی بڑی ہلاکتیں پہلی بار ہوئیں،اعدادوشمار عام آدمی کے لئے توناقابل یقین تھے ہی،حیرانگی اس وقت ہوئی جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ بھی یقین نہ کرنے والوں کی صف میں کھڑے نظر آئے۔احتیاطی تدابیر کا جتنا مذاق صدر ٹرمپ نے اڑایا دنیا کے کسی حکمران کو ایسا کرنے کی ہمت نہیں ہوئی۔باقی دنیا اس کے خلاف سینہ سپرر ہی، اپنے وسائل اور میڈیکل ٹیکنالوجی کی مدد سے اس کی یلغار کا سامنا کیااور بالآخر اسے زیر کرنے میں کامیاب ہو گئی۔کورونا وائرس میں یہ عجیب صلاحیت پائی جاتی ہے کہ مختلف ماحول میں اپنی ہیئت تبدیل کر لیتا ہے۔اب تک چار باراپنی شکل تبدیل کر چکا ہے، کرومی کرون اس کا چوتھا روپ ہے۔اس کے خوف سے ایک بار پھر خدشہ پیدا ہو گیاہے کہ شہریوں کی بین الاقوامی نقل وحرکت محدود ہو جائے گی۔تاہم ویکسین ایجاد ہونے کی بناء پر خوف میں اتنی شدت نہیں جتنی کہ ابتدائی دور میں دیکھی گئی تھی۔ان دنوں میتوں کی تدفین سے بھی لوگ خوفزدہ تھے۔ آج ڈاکٹروں کی رائے ہے کہ ویکسن لگوانے والے افراد پر کورونا کے حملہ آور ہونے کا خطرہ 90فی صد کم ہوجاتا ہے۔لیکن جب تک خوف صفر نہیں ہوتا، عالمی معیشت غیر یقینی کیفیت میں گھری رہے گی۔پاکستان کے لئے تیل کی قیمتوں میں کمی اچھی خبر بن جاتی ہے۔یاد رہے یہ ایک خبر معیشت میں موجود تمام خرابیوں کا مداوا نہیں کر سکتی۔خرابیاں ہمہ جہتی ہیں۔ مہنگائی میں سب سے بڑی برائی یہ ہے کہ یہ ایک بار بلند سطح پر چلی جائے تو پھر نیچے آنے کو تیار نہیں ہوتی۔ مافیاز اسے نیچے نہیں آنے دیتیں۔پاکستان ان چندملکوں میں ایک ہے جہاں مافیاز بہت طاقت ور ہیں۔حکومت میں بھی موجودہے، اہم وزارتیں مافیاز کے پاس ہیں۔ماضی میں کئے گئے معاہدے طویل المدتی ہیں۔35سال تک پابندی کی جائے گی۔یعنی ایک حکومت نے یہ معاہدہ کیا تھا، اسے آنے والی چھ حکومتوں نے من و عن جاری رکھناہے۔ اس دوران دوسرا ظلم یہ ہواکہ واجب الادا قرض کی اقساط اورسود کی ادائیگی کا سابق حکومتوں نے کوئی انتظام نہیں کیاتھا، اس کا نتیجہ سب کے سامنے ہے۔برادر اسلامی ملک کی شرائط میں آئی ایم ایف کی شرائط سے زیادہ سخت اور تکلیف دہ شرائط شامل ہیں۔ اس ضمن میں امریکی دباؤ بھی اس کا سبب ہو سکتا ہے۔بزرگ بہت پہلے سمجھا گئے ہیں کہ سیاست ہمیشہ معیشت کے تابع ہوتی ہے۔معیشت کمزور ہونے کے معنی یہی ہوتے ہیں کہ سیاسی مقام بھی کمزور ہو گا۔عراق، شام، لیبیاء اسی معاشی کمزوری کی حالیہ نشانی ہیں۔پاکستان اپنی جغرافیائی پوزیشن کے سبب شرمناک تباہی سے تومحفوظ رہا مگر نادہندہ ہونے کے قریب پہنچ گیا تھا۔مگر اس معاشی تباہی سے نکلنے میں بھی وقت لگے گا جو چار دہائیوں کی غفلت، لاپروائی اوربعض دیگر عوامل کے اشتراک سے پروان چڑھی۔ہمارے ماہرین معیشت کی اکثریت گزشتہ چار دہائیوں کے دوران حکومتوں کا حصہ رہ چکی ہے۔اگر ان میں اتنی بصیرت ہوتی تو ملک اورعوام کو اس بدحالی سے بچا سکتے تھے۔ٹی وی ٹاک شوز میں درسی کتب میں لکھی معاشی اصطلاحوں کہی گردان سے ٹاک شوز کی ضرورت تو پوری ہوسکتی ہے لیکن ملکی معیشت کو سنبھالا نہیں مل سکتا۔مفروضوں کی بجائے ٹھوس معاشی پروگرام دیا جاتا،جو ساڑھے تین برسوں میں نہیں دیا گیا۔حکومت نے غیر روایتی راستہ منخب کیا، اور آج تک اسی پر چل رہی ہے۔موجودہ حکومت سمجھتی ہے کہ سیاحت کے شعبے کو فروغ دے کر آمدنی کا نیا ذریعہ بنایا جا سکتا ہے اسی سوچ کے تحت اسنے ساڑھے تین سال کی مختصر مدت میں اسکردو ایئر پورٹ کو انٹرنیشنل ایئر پورٹ کے درجے تک پہنچا دیا۔گلگت سے اسکردو تک سڑک تعمیر کی، جس سے فاصلہ کئی گھنٹے کم ہوگیا ہے۔سیاحت کے لئے قدرت نے خوبصورت مقامات سے فراوانی سے نوازا ہے مگر اس قدرتی حسن کو آمدنی کے وسائل میں ڈھالنے کے لئے اسعلاقے میں سیاحوں کی آمدو رفت میں آسانی پیدا کرنا ضروری تھا۔سیاحوں کے لئے قیام اور طعام کا معقول انتظام بھی لازم تھا۔موجودہ حکومت نے اس ضرورت کو کم وقت میں پورا کرنے کے لئے سنجیدہ اقدامات کئے۔توقع کی جانی چاہیئے کہ یہ کوشش بار ور ثابت ہوگی۔ اسی طرح ڈیموں کی تعمیر بھی گزشتہ چار دہائیوں میں متروک رہی، اب ادھر بھی بھرپور توجہ دی گئی ہے، بروقت تکمیل کے نتیجے میں معیشت میں مثبت تبدیلی آئے گی۔اسکردو ایئر پورٹ اور گلگت سے اسکردو تک سڑک کی تعمیر کو دیکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ ڈیموں کی بروقت تکمیل کے امکانات واضح ہیں۔بھنگ کو زرمبادلہ کمانے کا ذریعہ بنانے کے منصوبے کو کل تک ایک مذاق سمجھا جارہا تھا، آج اس منصوبے میں سرمایہ کاری کے لئے 100کمپنیز کو الائسنس جاری کرنے کے لئے ضروری اقدامات کئے جا رہے ہیں،اوریہ بھیکہا جارہا ہے کہ لائسنس کے لئے درخواست گزاروں کی تعداد بہت زیادہ تھی مگر ابتدائی طور پر 100پر ہی اکتفا کیا گیا ہے۔تاریخ شاہد ہے کہ زندہ اقوام ماضی کی غلطیوں پر نوحہ خوانی کی بجائے نئے عزم اور حوصلہ کے ساتھ منزل کی جانب جانے والی نئی راہیں تلاش کرتی ہیں۔ پاکستان کے جفاکش اور محنتی عوام بھی ناکامیوں کو کامیابی میں ڈھالنے کا ہنر جانتے ہیں۔ ان پر اعتماد کیا جائے،توقعات سے بڑھ کر کامیابیاں سمیٹ سکتے ہیں۔آج پرائمری اسکول کا بچہ بھی جانتا ہے کہ پاکستان کا نمبر ون مسئلہ تباہ شدہ معیشت میں بہتری لانا ہے۔دسمبر 2014میں پہلے نمبر پر مسئلہ دہشت گردی کاخاتمہ تھا۔اس مشکل پر سات برس کی مختصر مدت میں قابو پا لیا گیا ہے۔دہشت گردی کا سر کچلے بغیر ملکی معیشت میں بہتری نہیں لائی جاسکتی تھی۔داسو ڈیم کی تعمیر رکوانے کے دہشت گردی کی آخری واردات ہوئی،اس نیٹ ورک کے ذمہ داروں تک پہنچنے کے بعد سے آج تک کوئی واردات نہیں ہو سکی۔اس سے یہی سمجھا جانا چاہیئے کہ دہشت گردی اب مسئلہ نمر دو ہے، نمبرون نہیں۔ لگتا ہے کہ حکومت تمام مشکلات سے واقف ہی نہیں بلکہ ان کا قلع قمع کرنے کی صلاحیت بھی رکھتی ہے۔وزیر اعظم عمران خان نے اسکردو کے جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے ایک بار پھربلوچستان کوملک کے دیگر علاقوں کے برابرلا نے کے عزم کا اعادہ کیا ہے۔تاریخ میں نشیب و فراز لہروں کی طرح ساتھ ساتھ چلتے ہیں،اور دونوں اپنی جگہ بدلتے رہتے ہیں۔حرکت ہی زندگی کا ثبوت ہے، سکوت حیات کی نفی ہے۔گوادردھرنے کامعاہدے کے اہم نکات پر دستخطوں کے ساتھ خاتمہ اچھی خبر ہے۔گوادر دھرنے سے مثبت انداز میں نمٹنا بھی ایک بڑی کامیابی ہے۔جلد ہی وزیر اعظم کی بلوچستان آمد متوقع ہے۔ بلوچ عوام کی دیرینہ شکایات دور کئے جانے سمیت مزید اچھی خبروں کی امید رکھنی چاہیے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں