سیاست موسم سرما کی تعطیلات پر چلی گئی؟

عام حالات میں اپوزیشن کی جانب سے دیا گیا احتجاج کا 23مارچ والااعلان ایک بڑا فیصلہ سمجھا جاتا لیکن اتنا طویل وقفہ روزانہ کی بنیادوں پر حکومت کو گھر بھیجنے کی تاریخیں دینے والی اپوزیشن(پی ڈی ایم)کے مزاج سے مطابقت نہیں رکھتا۔ویسے بھی سیاست میں ایک ایک لمحہ قیمتی تصور کیا جاتا ہے۔ البتہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ اتنی دور کی تاریخ کا اعلان سن کر حکومت نے سکھ کا سانس لیا ہوگا۔اس کے باوجود حکومت نے جواباً کہا: ”23مارچ کو یوم پاکستان منایا جاتا ہے اور مسلح افواج کی پریڈ بھی پہلے سے طے شدہ ہے، ایک بڑی تقریب منعقد ہوتی ہے جس میں غیر ملکی سفیر بھی شرکت کرتے ہیں۔ اس لئے اپوزیشن اس تاریخ کو اپریل تک بڑھا دے“۔ اپوزیشن کی جانب سے تاریخ آگے بڑھانے سے انکار کر دیاگیا ہے مگر اعلان شدہ تاریخقریب آنے پر دو چار روز اسے آگے بڑھانا دشوار نہیں ہوگا۔جب کہ اس دوران نہ وقت ٹھہرے گا اور نہ ہی پلوں کے نیچے سے پانی کا بہاؤ رکے گا۔مارچ کے فیصلوں پر ابھی سے کچھ کہنا ضروری نہیں۔فوری مسائل میں ہمسایہ ملک افغانستان میں غذائی اور اقتصادی قلت سے پیدا ہونے والا انسانی المیہ اہم قرار دیا جا رہا ہے۔دوسرا مسئلہ امریکی جمہوری کانفرنس میں نہ جانے کا مثبت یا منفی اثرات پر جاری بحث ہے۔یہ بحث فطری ہے، 74 سال امریکہ کی ڈانٹ ڈپٹ اور do moreکی ہدایت سن کر ”یس سر“ کہنے کی عادت جاتے جاتے جائے گی۔ ہماری بیوروکریسی اپنی ساخت اور پرداخت کے لحاظ سے مستقبل کی بجائے ماضی کی جانب دیکھنے کی عادی ہے۔وہ ماضی کا ماتم کرنے میں زیادہ سکون محسوس کرتی ہے۔حال کی طرف دیکھنا اسے کبھی پسند نہیں رہا، اس لئے کہ حال کا چہرہ ماضی کی غلطیوں سے مسخ ہو چکا ہوتا ہے۔اس چہرے پر افسر شاہی کو اپنا اعمال نامہ لکھا محسوس ہوتا ہے۔ماضی کو کوسنے کا دوسرا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ نئی حکومت بھی اس کی ہمنوا ہو جاتی ہے۔اور دونوں مل کر اپنے مشترکہ دشمن پر لفظی گولہ باری کا مشغلہ اپنی ترجیح بنا لیتے ہیں۔ انہیں تو کسی طرح پانچ سال گزارنے ہوتے ہیں۔انہوں نے عوام سے ووٹ نہیں لینے، قومی خزانے سے مراعات لینی ہیں،حکومت کسی پارٹی کی ہو، انہیں اس سے کوئی غرض نہیں۔علاوہ ازیں پی ٹی آئی کی حکومت ہر لحاظ سے ایک نیاتجربہ ہے۔چار پانچ دہائیوں سے جاری دو پارٹی سسٹم کو پچھاڑ کر اپنی جگہ بنانا آسان کام نہیں تھا۔جیسے بھی مانا جائے ماننا ہوگا،اس نے اپنی فہم و فراست کے بل پر ساڑھے تین سال گزار لئے ہیں۔ بعض مشکل فیصلے کرنا پڑے، تمام تر خطرات کے باوجودکئے۔ امریکہ کو”ایبسولیوٹلی ناٹ“کہنا ایسے ہی فیصلوں میں سے ایک تھا۔اب تو پرانے بیورو کریٹس میں سے بعض اس فیصلے کی خوبیاں بیان کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔کچھ مبصرین بھی کہنے لگے ہیں کہ ان سے سمجھنے میں دیر ہوگئی۔ایک حلقے کی نمائندگی کرتے ہوئے ایک سردو گرم چشیدہ مبصر نے ایران اور روس کی شمولیت سے اس خطے میں ایک بڑی تبدیلی کی پیشگوئی بھی کر دی ہے۔واضح رہے اس مباحثہ میں بنیادی نکتہ اس بحث کا آغاز ہے۔طویل عرصے سے اس پر بات کرنا بھی شجر ممنوع تھا۔یہی کہا جا سکتا ہے کہ زمینی حقائق خود کو منوالیتے ہیں۔ علامہ اقبال بہت پہلے کہہ گئے ہیں:۔۔۔آئینِ نوسے ڈرنا، طرزِ کہن پہ اڑنا؛؛ منز ل یہی کٹھن ہے، قوموں کی زندگی میں۔۔۔۔ لیکن جب پیچھے آگ اورآگے کھائی والی صورت حال پیدا ہو جائے تو کسی ایک کا انتخاب ضروری ہو جاتا ہے۔ امریکہ کو 74سال دیکھا، اپنی نئی نسل کے سامنے شرمندہ ہیں۔اب کیمپ تبدیل کرنے کا تجربہ کرنے میں خسارے والی کوئی بات نہیں۔ امریکہ کو”ایبسولیوٹلی ناٹ“کہنے کی ہمت بھی نئے کیمپ میں کچھ عرصہ رہنے اور ان کی خوداعتمادی دیکھنے کا ثمر ہے۔پہلے کیمپ نے ہمیں گیدڑ بننے کی تربیت دی،ہم انتہائی فرماں بردار قسم کے گیدڑ بن گئے۔ اتفاقاً یا حادثاتی طور پردوسرے کیمپ میں رہنے کا موقع ملا تو ہمیں علم ہوا کہ گیدڑ بن کر ہم کچھ حاصل نہیں کرسکتے۔ہمیں حاکمیت کے انداز اپنانا ہوں گے۔ ”ڈومور“ کے نتیجے میں ایک نیا ”ڈومور“ سنتے تھے۔جب”ایبسولیوٹلی ناٹ“کہا تو ”ڈومور“ کہنے والے ”ایبسولیوٹلی ناٹ“ سن کر”ڈومور“ کی گردان بھول گئے یا انہوں نے اس ضمن میں مناسب رد و بدل کرلی ہے، ممکن ہے کوئی متبادل اصطلاح استعمال کرنے لگے ہوں۔سیانے کہتے ہیں جب ایک ڈاکٹر 74سال میں ہماری معیشت کا علاج نہیں کر سکا تو اس ڈاکٹر سے مزید علاج کرانا دانشمندی کے برعکس ہے۔ڈاکٹر تبدیل کرنے میں کوئی حرج نہیں۔مولانا ہدایت الرحمٰن سے معاہدہ کرنے والوں نے نوید سنائی ہے کہ پسنی، اورماڑہ اور لسبیلہ کے علاقوں میں غیر قانونی ماہی گیری کی روک تھام سے متعلق نکات کے مطابق اسسٹنٹ ڈائریکٹر فشریز کا تبادلہ ہو چکا ہے،آئندہ کوئی اور ٹرالر پایا گیاتو متعلقہ اسسٹنٹ ڈائریکٹر فشریز کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔ وزیر اعلیٰ بلوچستان میر عبدالقدوس بزنجو نے دھرنے کے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ غیر قانونی فشنگ پر مکمل پابندی عائد کردی ہے۔کمشنر مکران کوہدایت کر دی گئی ہے یہاں کے لوگوں کی ترقی اور بنیادی سہولتوں کی فراہمی ہماری ترجیح ہے۔وفاقی وزیر اسد عمر نے کہا ہے:مئی جون تک بہتری آجائے گی،بجلی کے مسئلے کو حل کرنے کے لئے معاہدہ ہو چکا ہے۔چین کی مدد سے3200گھروں کے لئے سولرسسٹم جلد بلوچستان پہنچ جائیں گے۔ 2023 تک 100میگاواٹ بجلی نیشنل گرڈ سے فراہم کر دی جائے گی۔ گوادر میں دو ڈیم مکمل ہو چکے ہیں،پانی کی ترسیل کا نظام بہتر ہوگا۔عوام کو جلد ریلیف دیا جائے گا۔ شکر کا مقام ہے، بسم اللہ تو ہوئی!!!
جس طرح ڈگری ڈگری ہوتی ہے اسی طرح یاد رہے:”معاہدہ معاہدہ ہوتا ہے“۔
معاہدہ کے جن نکات پر فوری عملدرآمد ممکن تھا، عمل درآمد شروع ہوچکا ہے، باقی امور پر ہوتا ہوا سب کو نظر آئے گا۔ واضح رہے یہ معاہدہ بند کمرے میں نہیں، دھرنے کے شرکاء کی موجودگی میں ہوا ہے۔ یہ بھی یاد رہے،فریقین نے دھرنا شروع ہوتے ہی دستخط نہیں کئے گئے،دھرنے کے 32ویں روز یہ کام ہو سکا ہے۔32روز تک ملک کے کونے کونے میں ”گوادر کو حق دو“ کے نعرے گونجے ہیں۔اس دوران بڑے نشیب و فراز آئے۔یقین دلایا گیا ہے کہ معاہدے پر الف سے یاء تک عمل درآمد ہوگا۔ یقین کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ عہد شکنی کے امکانات بہت کم ہیں۔معروضی حالات عہد شکی کی اجازت نہیں دیتے۔کوئی رسک نہیں لے گا۔ماضی میں جو غلطیاں کی جا چکی ہیں، کافی ہیں،کسی نئی غلطی کی قطعاً گنجائش نہیں۔ عوام کو سہولتوں کی فراہمی کے سوا دوسرا کوئی آپشن نہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں