پاکستان تیل دیکھے،تیل کی دھار دیکھے!

2 مارچ 2020 ء
ہمسایہ ملک اور امریکاکے درمیان ایک تین نکاتی معاہدے پر دستخط ہو گئے ہیں مگر ان پر عمل درآمد اور نتائج سامنے آنے میں کم از کم14مہینے انتظار کرنا ہوگا۔اس دوران کسی بیرونی ملک سے مذاکرات کی بجائے افغان قائدین کوآپس میں طے کرنا ہے مستقبل میں ملک کو کیسے چلانا ہے عالمی طاقتوں سے کیسے روابط رکھنے ہیں؟ کون سا اسلام نافذ کرنا ہے؟ افغان طالبان کے مختلف مسلح گروپ اپنا جنگجویانہ مزاج تبدیل کریں، خواتین کے حوالے سے درست پالیسی اپنائیں۔انہیں تعلیم حاصل کرنے کی اجازت دیں تاکہ ملازمت یا کاروبار کر سکیں اب تو سعودی عرب نے بھی خواتین کو ماضی کے مقابلے میں بہت رعایتیں دی ہیں، افغان طالبان کو سعودی حکمرانوں جیسی فراخدلی کا ثبوت دینا چاہیے پاکستان میں افغان مہاجرین کی بڑی تعداد تاحال مقیم ہے اس کی واپسی کی پہلی شرط یہی ہے کہ افغانستان میں نہ صرف امن ہو بلکہ کاروبار کے لئے سازگار ماحول بھی ہواس کے بغیر کوئی افغان واپس نہیں جائے گاطالبان قیادت کے کندھوں پر بہت بڑی ذمہ داری آگئی ہے حکومت سے طالبان کی ذہنی ہم آہنگی نہیں اختلافات کا اندازہ لگانے کے لئے یہی کافی ہے کہ عبداللہ عبداللہ نے انتخابی نتائج کو مسترد کر دیا ہے وہ اشرف غنی کو صدرنہیں تسلیم کرتے، اپنی کابینہ تیار کرنے کا اعلان کر چکے ہیں۔صدر اشرف غنی امریکا کے قریب ہیں، امریکا نہیں چاہے گا کہ ان کا حامی بے دست و پا ہو کر رہ جائے۔9 مارچ کو انہوں حلف برداری کا اعلان کر رکھا ہے۔موجودہ حکومت سے اتنے اختلافات کو دور کرنا آسان نہیں بیرونی قوتیں اپنے مفادات کے لئے میدان میں اتریں گی افغان قیادت کوانہیں بھی مطمئن کرنا ہوگا، دنیا طالبان کو اس آزمائش سے کامیابی سے نکلتے دیکھنا چاہے گی اگر یہ مسائل حل کر لئے گئے تب اگلے مرحلے کی نوبت آئے گی؟ صرف تین نکاتی معاہدے پر دو نمائندوں کے دستخط ثبت ہوجاناکافی نہیں اس حقیقت سے طالبان قیادت بھی واقف ہے۔امریکا کا حد درجہ محتاط رویہ بھی قابلِ توجہ ہے۔خوشی کا اظہار واہ وا ہ اور مباکباد کا سلسلہ ایک دو روز میں تھم جائے گا۔اس کے بعد مسائل سراٹھائیں گے انہیں احسن انداز سے سلجھانا ہوگا۔ دشمن سے جنگ اگرچہ مشکل کام ہے لیکن روٹھے ہوئے دوستوں کو گلے لگانا اس سے زیادہ مشکل کام ہے۔افغان قیادت نے مذاکرات کا ایک طویل اور تھکا دینے والا دور دیکھا ہے انہیں ابھی ایسے مشکل اور سخت امتحانوں سے گزرنا ہے۔ ملا عبدالغنی برادر اور شیر محمد جیسے مذاکرات کے رموز سے آشنا لوگ ان کے پاس موجود ہیں صبر و تحمل سے کام لیا جائے تو یہ کام ناممکن نہیں افغان طالبان کی بڑی کامیابی یہ ہے کہ انہوں نے معاہدہ پر امارت اسلامی افغانستان کے نمائندہ کی حیثیت سے دستخط کئے ہیں اس تناظر میں کسی دوسری افغان حکومت کی موجودگی ایک سوالیہ نشان بن گئی ہے۔10مارچ کو امریکا 5 ہزار طالبان اور دوسری جانب سے ایک ہزار ا مریکی قیدیوں کو رہا کیا جائے گا اور اسی روز افغانوں کے درمیان مذاکرات شروع ہوں گے۔اس معاہدے کے بعد اشرف غنی کو مان لینا چاہیے کہ اقتدار ان کے ہاتھ سے نکل گیا ہے اس لئے کہ افغان طالبان امریکی قیدی رہا کریں گے اور اپنے 5ہزار ساتھی امریکی قید سے رہا کرائیں گے البتہ بین الافغان مذاکرات کے ذریعے مستقبل کے لائحہ عمل طے کیا جا سکتا ہے۔انہیں تسلیم کر لینا چاہیے کہ امریکا اپنے نیٹو اتحادیوں کے ساتھ مل کر بھی افغان طالبان کو زیر نہیں کر سکا27 اگست تک امریکا افغان طالبان کے خلاف عائد کردہ تمام پابندیاں ختم کر دے گا اس کے معنی یہی ہوتے ہیں کہ جن طالبان کو نیست و نابود کرنے کے لئے امریکا نے افغانستان پر کارپٹ بمباری کی تھی وہ اسی پوزیشن پرآج بھی موجود ہیں۔ اگلے روز امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے کہا کہ امن کی فتح ہوئی ہے لیکن افغانوں کی اصل فتح تب ہوگی جب افغانستان میں امن و سلامتی ہوگی۔امریکا معاہدے پر سنجیدہ ہے انہوں نے کہا کہ وہ 11ستمبر 2001 کے واقعہ پر اب بھی غصہ ہے جس کی منصوبہ بندی طالبان کے دور میں افغانستان میں ہوئی تھی افغان صدر اشرف غنی نے کہا کہ افغانستان کے لئے یہ تاریخی دن ہے پاکستان اور دیگر ممالک کے تعاون کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے امن معاہدہ بہت اہم ہے عنقریب طالبان رہنماؤں سے ملیں گے اگر طالبان اور افغان حکومت اپنے وعدوں پر قائم رہے تو ہمیں افغانستان کی جنگ ختم کرنے اوراپنے فوجیوں کو گھر بھیجنے کا ایک مضبوط راستہ مل جائے گاامریکی صدر نے گڑبڑ کی صورت میں معاہدہ ختم کرنے کا عندیہ بھی دیا ہے لیکن امریکی وزیر خارجہ نے اسے اپنے فوجیوں کے خون پسینے اور آنسوؤں کی قربانی قرار دیاہے چنانچہ امریکا کسی صورت بھی معاہدہ کو ناکام نہیں ہونے دے گاپاکستان کو صبروتحمل سے تیل دیکھو تیل کی دھار دیکھو والی پالیسی اپنانا ہوگی۔پاکستان پرائی جنگ سے دور رہے اسی میں فائدہ ہے۔ماضی کی غلطیاں دہرانا مہنگا پڑے گا طالبان کے ساتھ امریکی امن معاہدہ اس حقیقت کا اعتراف ہے؛ گولی کے زورپر دل نہیں فتح کئے جاسکتے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں