مٹھی بھراشرافیہ یا کروڑوں عوام؟

پاکستان میں یہ سوال پہلی بار زیر بحث نہیں آ رہا کہ ریاست کو ان دونوں میں سے کس کے ساتھ کھڑے ہونا ہے؟تاریخ کے مختلف ادوار میں یہ سوال دنیا کے تمام ممالک میں بڑے زور سے اٹھایا جاتا رہا ہے۔انقلابِ روس، انقلاب فرانس اور دیگر ملکوں میں اشرافیہ کی پسپائی اسی معاشرتی سوال پر کی جانے والی سنجیدہ بحث کا منطقی نتیجہ تھے۔بیشتر معاملہ فہم مبصرین کا خیال ہے کہ پاکستان میں مختصر وقفوں کے بعد یہ سوال اٹھایا جاتا رہا ہے مگر بعض عوامل اوران دیکھی رکاوٹوں کے یہ بحث نقطہئ عروج تک نہیں پہنچ سکی۔البتہ ادھوری بحث کے نتیجے میں جزوی کامیابیاں ملیں۔لیکن یہ جزوی کامیابیاں بحث کو اگلے مرحلے تک لے جانے کے لئے مضبوط بنیاد نہ دے سکیں اور افسر شاہی ریاستی وسائل کی مدد سے بار بار اس تاریخی بحث کا رخ اپنی پسند کی ضمنی بحث کی جانب موڑنے میں کامیاب ہوتی رہی۔ پسے ہوئے طبقات نے بشری استطاعت کے دائرے میں رہتے ہوئے مظالم کا مقابلہ کیا،ننگی پیٹھ پرسرکاری جلادوں سے کوڑے کھائے، جیلوں میں قیدوبند کی صعوبتیں برداشت کیں،ڈنڈا بیڑی لگاکر انہیں خطرناک مجرموں کے طور پر عدالتوں میں پیش کیا گیا، افسر شاہی کے تما تر ہتھکنڈوں کے باوجود سر نہیں جھکایا، ہار نہیں مانی اور تاریخ کے صفحات میں نیک نامی کمائی۔جبکہ مدِ مقابل استحصالی قوتوں نے وقتی کامیابی کے ساتھ رسوائی سمیٹی۔استحصالی قوتوں کے تنخواہ داراپنے کردار پر نادم ہوئے۔مظلوم طبقات کے بہادر نمائندوں اور بیباک ترجمانوں کے خلاف اور استحصالی قوتوں کے حق میں دیئے گئے ججز کے فیصلوں کو عدلیہ نے بطور نظیر قبول نہیں کیا۔ پاکستان کی تاریخ بھی ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے۔پاکستان کے مظلوم عوام اپنے حقوق کے لئے ایک سے زائد بار اٹھے،مگر ان کے پاس ٹھوس، واضح اور جامع مینی فیسٹو کی جگہ مبہم نعرے رہے۔دانشور ادھوری بحثوں کو سمیٹ کر اختصار اور جامعیت نہ دے سکے۔اس کا نتیجہ یہی ہوسکتا تھا جوآج ہم سب دیکھ رہے ہیں۔دیرپاانقلاب در آمد شدہ نعروں اوراجنبی نظریات کے بل پر کہیں نہیں برپا ہوئے۔کامیابی وہاں ملی جہاں عوام کو ان کی قدیم تہذیب اور ثقافت سے کشید کردہ نعرے اور سمت فراہم کی گئی۔آج اگر کوئی دانشور چاہے اس کا تعلق کسی بھی مکتبہئ فکرسے ہو، یہ سمجھتا ہے کہ صنعتی انقلاب کی پے درپے فتوحات اور مسلسل پیش قدمی کو نظر انداز کرکے محض لفاظی اورجذباتی نعروں کے بل پر معاشرے کی استحصالی قوتوں کو زیر کر لے گا تو یقینا اسے اپنی فکری اصلاح کر لینی چاہیئے۔اس سچائی کوتسلیم کرنے میں کوئی حرج نہیں کہ دنیا کے نقشے پر صرف دو ملک موجود ہیں کو مذہب کی بنیاد پر معرض وجود میں آئے۔ایک کا نام پاکستان ہے جو 14اگست1947کو آزاد ہوااوردوسرا اسرائیل ہے:(14مئی1948)کواعلان آزادی کیا۔اس یاددہانی کی ضرورت اس لئے پڑی کہ دانشور تجزیہ کرتے وقت یہ پہلو بھی سامنے رکھیں۔اور سمجھ وسکیں کہ پاکستان میں چلنے والی تحریکیں طبقاتی سے زیادہ مذہبی رنگ کیوں لئے رہیں؟ اور بالآخر مذہبی نعرے غالب رہے۔اس کے ساتھ ہی یہ سوال بھی توجہ طلب ہے کہ اسرائیل کی قومی پیداوار بمطابق عالمی بینک402ارب امریکی ڈالر اور پاکستان (مذہبی جمہوری شناخت کے باوجود)اس سے کوسوں پیچھے ہے، عشرِ عشیر بھی نہیں۔دانشوروں کو یہ حقیقت تسلیم کرنی ہوگی کہ پاکستان میں مجرد قوم پرستی پر مبنی اور طبقاتی نعرے آسانی کے ساتھ عوامی پذیرائی حاصل نہیں کر سکیں گے۔مذہبی نعروں کے سائے میں ہی کچھ دیر (یا دیر تک) مناسب حکمت عملی طے کرناہوگی۔کوئی مانے یا نہ مانے عوام کی والہانہ شرکت کے بغیر کوئی سیاسی، معاشی اور معاشرتی اصلاحی تحریک کامیابی حاصل نہیں کرتی۔ معاشرتی انقلاب صرف خواہشات کی مددسے نہیں برپا ہوتے۔یہ صلاحیت صنعتی انقلاب کے پاس ہے،جو اپنا راستہ اپنی حیران کن پیداواری سہولتوں کی مدد سے بناتاہے۔کمپیوٹر سے پہلے ٹیکنالوجی کی جدت اتنی سرعت سے اپنی جگہ نہیں بناسکی جتنی تیزی سے کمپیوٹر نے گھر، دفتر، کارخانوں کے علاوہ اسکولوں،کالجوں اور یونیورسٹیوں کے علاوہ کھیل کے میدانوں اور کھیتوں کھلیانوں میں اپنی جگہ بنائی ہے۔دو سال کی عمر کا بچہ بھی واٹس ایپ کی طرف لپکتا ہے، سادہ موبائل پھینک دیتاہے۔اور واٹس ایپ میں پوری دنیا سمٹ چکی ہے۔دانشور اس جدیددریافت کی ہمہ صفت خوبیوں اور خامیوں کی اثر انگیزی کو سمجھیں۔ خوبیوں کی مدد سے معاشرے میں ترقی، خوشحالی اور علم کی جگمگاہٹ پیدا کریں جبکہ خامیوں سے معاشرے کو بچانے میں اپناکردار ادا کریں۔خیبرپختونخوا کے 17اضلاع کے بلدیاتی انتخابی نتائج اسی تناظر میں دیکھے جائیں۔جو اسے صرف پی ٹی آئی کی سیاسی شکست سمجھ کر خوش ہو رہے ہیں،انہیں چاہیئے کہ صورت حال کا ہمہ پہلو جائزہ لیں۔اگر خیبر پختونخوا میں جے یو آئی کونمایاں کامیابی ملی ہے،تو بلوچستان میں ”حق دو تحریک“ کے روح رواں جماعتِ اسلامی کے مولانا ہدایت الرحمٰن کہلاتے ہیں۔سیاسی دھارا گھوم پھر کر نوستاروں ں جیسی شکل اختیار کرتا نظر آتا ہے۔ اور یہی نو ستارے بعدمیں ایسی غیر قانونی فنڈنگ لے کر کرآئی جے آئی بن گئے تھے جس کااقرار کرتیہوئیآج انہیں خود شرم آتی ہے۔۔زیادہ پرانی تاریخ نہیں۔ابھی تو اس کی مشتبہ تشکیل کا(ایئر مارشل) محمد اصغر خان کیس عدالت میں زیر سماعت ہے۔۔۔۔”راشہ راشہ‘۔ اصغر راشہ“۔۔۔۔ جیسے مرکزی نعرے والے اصغرخان ہی مذکورہ مقدمے کے مدعی تھے اور کوہالہ کے پل پر بھٹو (پی پی پی کے بانی چیئرمین اور اس وقت پاکستان کے وزیر اعظم ذوالفقارعلی بھٹو)کوپھانسی دینے کا اعلان بھی ایک جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے ہی کیا تھا۔ یہ الگ بات ہے کہ وہ کوہالہ پل پربھٹو کو پھانسی نہ دے سکے، یہ فرض اس نے ادا کیا جس کے نمائندہ کی حیثیت سے اصغر خان نے چین کا دورہ کیاتھا اور پاکستان پہنچتے ہی اعلان کیا تھا:۔۔۔”اسلام آبادپاکستان میں مگر اسلام چین میں ہے“۔۔۔تجزیہ کاروں کو عوام تک معلومات پہنچانے میں عجلت سے کام لینے کی بجائے صبر و تحمل سے کام لینا چاہیئے۔نوجوان نسل کوچاردہائیاں قبل رونما ہونے والے واقعات کی آگہی نہیں۔ منظر کشی کرتے وقت تمام پہلو اجاگر کریں۔علاوہ ازیں ابھی تک آبادی کے لحاظ سے
تیسرے نمبر والے صوبے کے آدھے سے بھی کم (17) اضلاع کے نتائج سامنے آئے ہیں۔وہاں بھی ملک کی دونوں بڑی سیاسی(اپوزیشن) پارٹیوں کوبری طرح ناکامی ہوئی ہے۔ خوشی کے شادیانے بجانے کا یہ مناسب وقت نہیں۔پورے ملک میں بلدیاتی انتخابات ہو جائیں، ان کے نتائج کا اعلان اورپارٹی پوزیشن واضح ہو جائے تب عوام کی رہنمائی کے لئے متوقع مستقبل بارے پیشگوئی کی جائے۔ابھی توبلحاظ آبادی تیسرے نمبر والے صوبے کے بھی نامکمل بلکہ آدھے سے کم نتائج ہیں، اتنی قلیل معلومات کی مدد سے ملکی سطح پر درست تجزیہ ممکن نہیں۔ اپنے مقام اور ذمہ داری کا خیال رکھا جائے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں