کیا اس سال چاند ایک ہی وقت نظر آئے گا

اداریہ
پاکستان نے دو دہائیاں پہلے بھارت کے ایٹمی دھماکوں جواب دے کر دنیا کو باور کرادیا تھا کہ کوئی بھی اس خوش فہمی نہ رہے پاکستان ایٹمی صلاحیتوں سے محروم ہے دنیا نے اس کے بعد یہ سوال کبھی نہیں اٹھایا البتہ فروری 2019میں انڈیا نے ایک بار پھر تسلی ضروری سمجھی اور اپنے دو جنگی جہاز گنوا بیٹھا۔اس کے بعد سب کو یقین ہو گیا کہ پاکستان ایٹمی قوت ہے مگر نہ جانے کیوں پشاور کی قاسم مسجدکے مفتی پوپلزئی اور ان کے دوربین سے بھی تیز نگاہیں رکھنے والے گواہان یہ ماننے کو آج تک تیار نہیں کہ پاکستان کی مرکزی رویت ہلال کمیٹی رمضان اور شوال کا چاند دیکھنے کی صلاحیت رکھتی ہے حالانکہ اس کمیٹی کے چیئرمین مفتی منیب الرحمٰن محکمہ موسمیات کے مرکزی دفتر میں ہی دیگر علماء کی معیّت میں سرکاری شان و شوکت کے ساتھ نہ صرف چاند دیکھتے ہیں بلکہ اس کا سرکاری اعلان بھی کرتے ہیں۔حتیٰ کہ میڈیا کو بھی یہ اجازت نہیں کہ مفتی منیب الرحمٰن چیئرمین مرکزی رویت ہلال کمیٹی کے اعلان سے پہلے چاند کے نظر آنے یا نظر نہ آنے کی اطلاع صحافتی آزادی کا حق استعمال کرتے ہوئے میڈیا بھی لیک کر سکے۔ایک بار پی ٹی آئی کی صوبائی حکومت بھی قاسم مسجدوالے مفتی پوپلزئی کے دیکھے ہوئے چاند کو شرعی لحاظ سے درست مان کر ایک دن پہلے عیدالفطر منا چکی ہے۔ کبھی کبھی پاکستان میں تین عیدیں منانے جیسے عقل اور دلیل سے میلوں دور مناظر بھی دیکھنے کو ملے۔یہ تنازعہ پرانا ہے جنرل محمد ایوب خان کے دور حکومت میں بھی دو عیدیں منائی گئی تھیں۔جس دن سرکار نے عید منائی اورصدرِ پاکستان سمیت ان کی کابینہ کے ارکان نئے لباس میں ملبوس ایک دوسرے سے گلے مل کر عیدکی مبارک باد دیتے رہے اسی روز عوام کی بھاری اکثریت نے اپنے علماء کے کہنے پر روزہ رکھا۔واضح رہے کہ پاکستان میں بھی چاند نظر آنے یا نہ آنے کا مسئلہ صرف رمضان اور شوال کے دو مہینوں میں پورے زوروشور سے اٹھا یاجاتا ہے باقی 10مہینے انتہائی خاموشی سے گزر جاتے ہیں جن میں محرم کا وہ مہینہ بھی شامل ہے جسے فوج کی مدد اور ملک بھر میں موبائل فون(نیٹ سروس)بندکئے بغیرمکمل کرنا ممکن نہیں۔پاکستان کے بڑے شہروں میں 8،9اور10محرم کو جلوس کے راستے کو سیل کر دیا جاتا ہے مارکیٹیں ایک دن پہلے ہی انتظامیہ بند کرا دیتی ہے کراچی میں لسبیلہ سے ٹاور تک سڑک پار کرنے کی اجازت نہیں ہوتی۔تمام گلیاں اور سڑکیں کنٹینر لگا کر بند کر دی جاتی ہیں،مریضوں کے لئے اسپتال پہنچنا ممکن نہیں ہوتا ہے۔لوگ گھروں میں قید ہو کر رہ جاتے ہیں۔اس تمام احتیاط اور خوف کے باوجود محرم کے چاند پر کبھی قاسم مسجد (پشاور)کے مفتی پوپلزئی یا کسی اور عالم نے کبھی اعتراض نہیں کیا۔اگر چاند کا اتنے اہتمام سے دیکھنا ایک اہم شرعی فریضہ ہے توباقی کے 10مہینے یہ پراسرار خاموشی کیوں اختیا رکی جاتی ہے؟ اگر علماء کی یہ دلیل ایک لمحے کے لئے مان لی جائے کہ اللہ نے رمضان کے مہینے میں گنتی کے روزے رکھنے کا حکم دیا ہے:سورۃ البقرۃ آیت 183 تا 185 اور 187 میں صیّام کے معاملات پر گفتگو کی گئی ہے چاند کے بارے میں سورۃ البقرۃ آیت189دیکھی جائے:(ترجمہ)
”(اے محمدؐ!) لوگ تجھ سے چاندوں (عَنِ الاَھِلَّۃِ)کے بارے میں پوچھتے ہیں؛(ان سے) کہو: یہ لوگوں اور حج کے لئے اوقات ہیں“
یہ وضاحت قرآن میں موجود ہے ہر مسلم (عالم ہو یا عام شخص) قرآن کھول کر دیکھ سکتا ہے۔چاند کے حوالے سے اہمیت (اَلحَجِّ)کو دی گئی ہے۔کہنے کا مقصد یہ ہے کہ علماء کی جانب سے رمضان کے مہینے میں ایسی جذباتی فضاء پیدا کرنے کی کوشش نہ کی جائے جو دینی یکجہتی کے لئے نقصان دہ ہو۔مفتی منیب الرحمٰن نے تراویح اور نماز گھر پر پڑھنے کا اعلان کر کے دوسروں کے لئے بھی اچھی مثال قائم کی ہے کہ آج کل کورونا وائرس کی وباء سے بچنے کا واحد طریقہ احتیاط ہے۔وائرس کے پھیلاؤمیں مددگار بننا دانشمندی کے منافی ہے۔مولانا فضل الرحمٰن بھی تراویح اور نماز گھر پر پڑھنے کا اعلان کر چکے ہیں۔ چاند دیکھنے پر پیدا ہونے والے تنازعہ کا راستہ ایک تو کورونا نے مسدود کر دیا ہے دوسرا اقدام اس نوٹیفکیشن کو سمجھا جا سکتا ہے جو ایک روز قبل وزیر اعظم کی جانب سے جاری کیا گیا ہے اوروزارت سائنس و ٹیکنالوجی کو بھی مرکزی رویت ہلال کمیٹی میں رکنیت مل گئی ہے۔توقع کی جانی چاہئے کہ آئندہ وزیر سائنس و ٹیکنالوجی فواد چوہدری بھی غیر ذمہ دارانہ بیان بازی سے اجتناب برتیں گے۔رمضان کو دوسرے مہینوں پر فضیلت دیئے جانے کی وجہ اس مہینے میں قرآن کا نزول ہے۔اس لئے مناسب یہی معلوم ہوتا ہے کہ رمضان کے مہینے میں علماء زیادہ سے زیادہ قرآنی تعلیمات پر توجہ دیں خود بھی عمل کے لحاظ سے قرآن کے قریب رہیں اور دوسروں کو بھی قرآن پر عمل کرنے کی تلقین کریں۔ قرآن مومنین کو ایک دوسرے کا بھائی قرار دیتا ہے علماء اس بنیادی اصول کی فصاحت اور بلاغت سے عامۃ النّاس کو آگاہ کریں سورۃ النساء آیت59میں اولی الامرکی اطاعت کا حکم دیا ہے،، اطاعت کی جائے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں