کوئٹہ شہر کو یومیہ 30ملین گیلن پانی کی کمی کا سامنا

کوئٹہ:بلوچستان کے سب سے زیادہ گنجان آباد شہر کوئٹہ کو یومیہ 30ملین گیلن پانی کی کمی کا سامنا ہے۔کوئٹہ کے علاقے پشتون آباد کے رہائشی محمد یونس گذشتہ کئی برسوں سے پانی کی قلت کا سامنا کر رہے ہیں۔وہ ٹینکر کے ذریعے پانی خریدتے ہیں جو بمشکل ایک ہفتہ چل پاتا ہے۔ ان کے گھر میں پانی کا سرکاری نلکا تو موجود ہے لیکن اس میں کئی سالوں سے پانی نہیں آیا۔ بعض اوقات وہ پڑوسیوں سے پانی مانگ کر لاتے ہیں۔محمد یونس بتاتے ہیں کہ پانی نہ ہونے کی وجہ سے گھریلو کاموں میں شدید مشکلات کا سامنا رہتا ہے۔وہ بتاتے ہیں کہ ماہانہ چار سے پانچ ٹینکرز پانی کے لیے وہ فی ٹینکر 1500سے 2000ہزار روپے دیتے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ محکمہ واسا کے سرکاری نلکے سے کئی سالوں سے ایک بوند پانی نہیں پیا۔ واسا حکام کہتے ہیں کہ آپ لوگوں کا گھر اوپر ہے، اس وجہ سے پانی نہیں آرہا۔محمد یونس کہتے ہیں کہ اس سلسلے میں نہ صرف محکمہ واسا کے حکام کو بارہا آگاہ کیا بلکہ وزیراعظم کے سیٹزن پورٹل پر بھی شکایت کی۔ پورٹل پر شکایت کے بعد واسا حکام حرکت میں ضرور آئے لیکن جلد ہی پورٹل پر جواب جمع کروا کے خاموشی اختیار کرگئے۔کوئٹہ کی 22لاکھ آبادی کو یومیہ 54ملین گیلن پانی کی ضرورت ہے جبکہ محکمہ واٹر اینڈ سینیٹیشن اتھارٹی(واسا)اور کنٹونمنٹ کے علاقے میں ملٹری انجینئرنگ سروسز کی جانب سے 24.6ملین گیلن پانی فراہم کیا جا رہا ہے۔واسا کے اعداد وشمار کے مطابق شہر کو اس وقت 29.5ملین گیلن پانی کی کمی کا سامنا ہے۔ شہریوں کو پینے کا پانی فراہم کرنے کے لیے محکمہ واسا کے کوئٹہ میں کل 405ٹیوب ویل ہیں، جن میں سے 51غیر فعال ہیں۔کوئٹہ الیکٹرک سپلائی کمپنی(کیسکو)نے محکمہ واسا کے متعدد ٹیوب ویلز کے بجلی کنکشنز بلوں کی عدم ادائیگی کے باعث منقطع کر دیے ہیں۔ محکمہ واسا کے ذمے اس وقت ایک ارب 10کروڑ روپے واجب الادا ہیں۔اس تمام صورت حال میں شہریوں کو پینے کے پانی کی شدید قلت کا سامنا ہے اور اکثریت آبادی نجی ٹینکرز کے ذریعے پانی خریدنے پر مجبور ہے۔صوبائی سیکریٹری برائے پبلک ہیلتھ انجینیئرنگ صالح ناصر پانی کے مسئلے کو سنگین قرار دیتے ہوئے بتاتے ہیں کہ پانی کی فراہمی کے لیے بہتر مشینری اور پائپ لائن ضروری ہیں لیکن شہر میں ٹیوب ویلز کی مشینری اور پائپ لائن انتہائی ناقص ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ محکمہ واسا کے اوسطا 50سے 60ٹیوب ویل ماہانہ خراب ہوتے ہیں، جس کی مرمت کے لیے کم از کم چار کروڑ روپے کی رقم درکار ہوتی ہے۔محکمہ واسا کو ٹیوب ویلز کی مرمت کی مد میں ہر تین ماہ بعد صرف تین کروڑ روپے ملتے ہیں جس کے باعث ٹیوب ویلز کی مرمت کا کام سست روی کا شکار ہوتا ہے۔بلوچستان کا دارالحکومت چاروں اطراف سے پہاڑوں میں گری ہوئی وادی ہے۔ یہ صوبے کا سب سے زیادہ آبادی والا شہر ہے جو کوئٹہ ذیلی طاس (سب باسین)کا حصہ ہے۔ہائیڈرولوجیکل طور پر کوئٹہ ذیلی طاس پشین لورا دریائے طاس کے نو سب طاس میں سے ایک ہے۔ یہ وادی جنوب مشرق میں میاں غنڈی سے شمال مغرب میں بلیلی گیپ تک پھیلی ہوئی ہے۔ وادی چِلتن، مہردار تکتو اور زرغون کے پہاڑی سلسلوں سے ملتی ہے۔ چلتن سطح سمندر سے 3,194 میٹر بلند ترین چوٹی ہے جبکہ وادی کی اوسط بلندی 1,680میٹر ہے۔ دریائے بلیلی وادی کے بیچ میں بہہ رہا ہے۔ عام طور پر جنوب سے شمال کی سمت اور بلیلی گاں کے نزدیک ذیلی بیسن سے نکل کر دریائے پشین (پشین ذیلی طاس)میں جا ملتا ہے۔آس پاس کے پہاڑوں سے چھوٹی چھوٹی نہریں دریائے بلیلی میں مل جاتی ہیں۔محکمہ واسا کے ہائیڈرولوجسٹ حمید اللہ کہتے ہیں کہ کوئٹہ میں پانی کی ڈسچارج شرح 97ملین کیوبک میٹر، ریچارج کی شرح 67ملین کیوبک میٹر ہے جو اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ شہر کو30ملین کیوبک میٹر پانی کی کمی کا سامنا ہے۔شہر میں جگہ جگہ کنکریٹ اور پختگی کی وجہ سے پانی کا ری چارجنگ ایریا کم ہو رہا ہے۔ وہ علاقے جو شہر کو ری چارج کر رہے ہیں، ان میں آباد کاری اور غیر قانونی ٹیوب ویلز کی تنصیب کی حوصلہ شکنی ضروری ہے۔حمید اللہ کی گذشتہ سال کوئٹہ ذیلی طاس میں پانی کی سطح میں کمی پر کی گئی تحقیق سے یہ نتیجہ اخذ کیا گیا کہ 20-2019کے دوران چونا پتھر اور آلیوئل ایکویفر میں پانی کی سطح میں کمی واقع ہوئی ہے۔تحقیق میں انہوں نے پانی کی سطح میں کمی پرتشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ شہر میں زیر زمین پانی کے ریچارج کو مستحکم کرنے اور پانی کی قلت سے بچنے کے لیے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کی ضرورت ہے۔محکمہ ایری گیشن کے اعداد وشمار کے مطابق شہر میں 1998میں زیر زمین پانی کی سطح 80سے 120فٹ جبکہ اب یہ سطح 450سے 580فٹ تک ہے۔محکمہ واسا کی ایک رپورٹ کے مطابق کوئٹہ میں زیر زمین پانی کا گراف ایک ہزار سے 1200فٹ تک گر چکا ہے جبکہ محکمہ آب پاشی کی رپورٹ کے مطابق شہر میں سالانہ بنیادوں پر پانی کی زیر زمین سطح تین سے چار میٹر تک گری ہے۔تاہم محکمہ واسا کے اعداد وشمار اس سے بالکل مختلف ہیں۔ محکمہ واسا کے ڈائریکٹر ٹیکنیکل کی رپورٹ کے مطابق کوئٹہ میں سالانہ بنیادوں پر پانی کا گراف 10سے 12میٹر تک گر رہا ہے جو تشویش ناک ہے۔محکمہ ایری گیشن کی رپورٹ کوئٹہ کے آبی وسائل کے ذخائر کا جائزہ 2020کے مطابق شہر میں ایک ٹیوب ویل سے فی سیکنڈ 8.5لیٹر پانی نکالا جاتا ہے جبکہ کل 2000ٹیوب ویلز میں 1850جو آلیوئل ایکویفر میں واقع ہے، سے 106کیوسک،150جو چٹانی علاقوں میں لگائے گئے ہیں سے 15کیوسک اور دیگر سے چھ کیوسک پانی نکالاجا رہا ہے۔محکمہ آب پاشی کے ڈائریکٹر برائے پلاننگ ومانیٹرنگ عبدالرزاق خلجی دعوی کرتے ہیں کہ شہر میں پانی کی صورتحال خطرناک نہیں، تاہم پانی کی زیر زمین سطح کو اوپر لانے کے لیے ری چارج کا طریقہ کارتبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ شہر میں غیر قانونی ٹیوب ویلز، ٹینکر مافیا کی ملی بھگت سے پانی کی قلت بڑھتی جا رہی ہے۔عبدالرزاق خلجی کہتے ہیں کہ زیر زمین پانی کے گراف میں بہتری کے لیے ہمیں اپنی ٹیکنالوجی کو جدید خطوط پر استوار کرنے کی ضرورت ہے۔اگر اس سلسلے میں فوری اقدامات اٹھائے جائیں تو کوئی وجہ نہیں کہ کوئٹہ میں پانی کے سلگتے مسئلے کو کم کیا جا سکے۔سیکریٹری پی ایچ ای صالح ناصر کہتے ہیں کہ کوئٹہ شہر کنکریٹ میں تبدیل ہو گیا ہے۔ سب باسین کوئٹہ میں سات ایری گیشن نالیاں تھیں، جو زیر زمین ری چارج دے رہی تھیں، یہ سب قبضے میں چلی گئی ہیں یا پھر کنکریٹ میں تبدیل کردی گئی ہیں۔ان سات ریزوائر نالوں میں سے صرف اب تین نالے رہ گئے ہیں۔ چار نالوں پر مکان بنے ہوئے ہیں جبکہ رہ جانے والے مری آباد نالہ، جتک موڑ نالہ اور پشتون آباد نالہ کنکریٹ یا پھر سرے پر گھروں کی تعمیر کی وجہ سے زیر زمین ری چارج نہیں دے پا رہے۔شہر میں سڑکوں کے کنارے درختوں کے ساتھ یا عام زمین پر ٹف ٹائل لگا دیے گئے ہیں، جس کی وجہ سے بارش سے ملنے والا ری چارج اب نہ ہونے کے برابر ہے۔وہ مزید بتاتے ہیں کہ شہر میں استعمال شدہ پانی کو قابل استعمال بنانے کے لیے سبزل روڈ پلانٹ کی فعالیت کے لیے 11کروڑ روپے کی رقم جاری کردی گئی ہے۔ری سائیکل شدہ پانی پینے کے قابل تونہیں البتہ زراعت و دیگر ضروریات کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ محکمہ واسا اب بھی کیسکو کے ایک ارب 10کروڑ روپے کا مقروض ہے جبکہ پی ایچ ای کے چھ ارب روپے ہیں۔ بجلی کے وولٹیج میں کمی بھی ٹیوب ویلز کی خرابی کا باعث بنتے ہیں۔کوئٹہ کی ایک نشست پر منتخب ہونے والے صوبائی وزیر مبین خان خلجی اس مسئلے کو انتہائی اہم قرار دیتے ہوئے بتاتے ہیں کہ انہوں نے ذاتی حیثیت میں پی ایس ڈی پی میں اس مسئلے کے حل کے لیے اقدامات اٹھانے کی درخواست کی تھی۔ہم شہر میں پانی کی زیر زمین سطح کے لیے مختلف ڈیموں کی منظوری دے چکے ہیں۔ منصوبہ بندی نہ ہونے کی وجہ سے بارش کا پانی ضائع ہو جاتا ہے، تاہم سرپل پر17کروڑ روپے کی لاگت سے ایک بند تعمیر کرنے جا رہے ہیں۔ منگی ڈیم پر تیزی سے کام جاری ہے، ہلک ڈیم 22ارب روپے کی لاگت سے تعمیر ہو رہا ہے جس کے بعد پانی کے مسئلے میں ایک حد تک کمی آسکے گی۔ماہرین کا ماننا ہے کہ اگر پانی کے حوالے سے اچھی پالیسی مرتب کرتے ہوئے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات نہ اٹھائے گئے تو آنے والے دنوں میں کوئٹہ کے شہریوں کو پینے کے پانی کے حصول میں بہت زیادہ مشکلات ہوں گی۔محمد یونس جیسے سینکڑوں لوگ کوئٹہ میں نجی ٹینکرز کے ذریعے پانی منگوا کر اپنی ضروریات پورا کرنے پر مجبور ہیں۔ شہری پانی کو بہت ہی زیادہ احتیاط کے ساتھ استعمال کرتے ہیں۔خصوصا رات کے اوقات میں شہر میں سڑکوں پر سب سے زیادہ پانی کے ٹینکرز ہی دوڑتے نظر آتے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں