ریکوڈک کے حوالے سے ان کیمرہ بریفنگ اجلاس سے مطمئن ہوں، نورمحمد دمڑ

کوئٹہ: بی اے پی کے رہنماء سنیئر صوبائی وزیر خزانہ حاجی نورمحمد خان دمڑ نے بعض سیاسی جماعتوں کی جانب سے ریکوڈک کے مسئلے کو متنازعہ بنانے پر ردعمل کااظہار کرتے ہوئے کہاکہ ریکوڈک کے حوالے سے گزشتہ روز جو ان کیمرہ بریفنگ ہوئی میں زاتی طورپر تویقینا میر ے ذہین میں جو سوالات تھے وہ سو فیصد کلیر ہوئے اور میں ان کیمرہ بریفنگ اجلاس سے مطمئن ہوا بلوچستان اسمبلی کاریکوڈیک کے حوالے سے جو ان کیمرہ بریفنگ تھا وہ بڑا معنی خیزبریفنگ تھا اور کوئی معمولی بریفنگ نہیں بلکہ مسلسل 8 گھنٹے بریفنگ چلا اور جب اس ٹیم کی جانب سے بریفنگ مکمل ہوئی تو اجلاس میں شریک تمام ممبران چاہے وہ اپوزیشن کے تھے یا حکومتی ممبران تھے اور تمام ممبران نے کھل کر سوالات کئے چاہے ان کی دلوں میں یا وہ اپنے پارٹی کے طرف سے جو سوالات لائے تھے کھل کر ہرممبرنے سوالات کئے اور تقریباََ ڈیڈھ گھنٹے سے زائد سوالات و جوابات کاسلسلہ جاری رہامیرے خیال میں کوئی ایسا ممبر نہیں ہوگا جو سوالات کے جوابات سے مطمین نہیں اور یہ 8 گھنٹے کی جو بریفنگ ہوئی اس کے بعد ممبران مطمین رہے بلوچستان اسمبلی میں صوبے کے تمام بڑی سیاسی جماعتوں کی نمائندگی موجود ہے اور یہ بریفنگ اچانک نہیں تھی یہ بلکہ اسمبلی اجلاس میں اپوزیشن کی جانب سے ایک قرار داد پیش کی یہی انکی ڈیمانڈ تھی کہ اس پر انہیں بریفنگ دی جائے وزیراعلیٰ بلوچستان میر عبدالقدوس بزنجونے اس قرارداد کے حوالے سے اسلام آباد میں وزیراعظم عمران خان سے ملاقات کی اور وزیراعظم نے اس حوالے سے ایک ٹیم تشکیل دی گئی جنہوں نے بلوچستان اسمبلی میں تمام ممبران کو تفصیلی بریفنگ دی انہوں نے کہاکہ گزشتہ روز کی بریفنگ کے بعد حق نہیں بنتا ہے کہ کوئی پھر بھی کوئی سوال اٹھائے کیونکہ یا تو اگر اپنے نمائندوں پر انکی اعتماد اور اپنے اراکین اسمبلی پر پارٹیوں کا اعتماد ہے تو پھر کیا جواز بنتا ہے کہ لوگ پھر عدالتوں کی بائیکاٹ کرے یا روڈوں پر نکل جائے یامنفی خبریں میڈیا پر چلائے انہوں نے کہاکہ میرے خیال میں ایوان کو جو بریفنگ دی تھی اور اس میں شریک کوئی بھی ایسا کوئی بھی ممبر نہیں تھا جو وہ کہے کہ وہ اس بریفنگ سے وہ مطمین نہیں تھا بلکہ سارے ممبرز مطمین ہوکر نکلے بلکہ جو ٹیم تھی وہ تو آخر تک موجود رہی بلکہ ہمارے بعض ممبران تک گئے اور جو سوالات تھے وہ ختم ہوگئے اور ایک مفصل بریفنگ اور ڈیسکس ہوئی انہوں نے کہاکہ ہمارے بلوچستان کی یہی تو بد بختی ہے کہ بلوچستان کی پسماندگی کی ذمہ داری یہی سیاسی جماعتوں پر عائد ہوتی ہے جنہوں نے ہمیشہ بلوچستان کی ترقی کی راہ میں روڑے اٹکائے ہے انہوں نے کہاکہ اگر یہ مسئلہ اگر پہلے حل کرلیتا تو شاہد بلوچستان آج اسی ریکوڈک کی وجہ سے بہت آگے چل جاتا توآج بھی بلوچستان کے وہ لوگ جو بلوچستان کی ترقی نہیں چاہتے بلوچستان کو آگے نہیں دیکھنا چاہتے اور بلوچستان کو اسی طرح پسماندہ دیکھناچاہتے وہ لوگ پھر نکلے ہوئے اور اس مسئلے کو متنازعہ بنارہے ہیں اگر یہ معاملہ اسی طرح متنازعہ رہا اور ریکوڈک کا مسئلہ ابھی اگر حل نہیں ہوا تو بلوچستان کے لئے آنے والے وقتوں میں یہ بہت بڑا نقصان کا سبب بن سکتا ہے انہوں نے کہاکہ ریکوڈک کو متنازعہ بنانے والوں کا یہ حق نہیں بنتا ہے اور نہ ہی اس مسئلے کو متنازعہ بنانا چاہے اسمبلی جو ہمارا ایوان ہے جس میں تمام اقوام اور پارٹیوں کی نمائندگی موجود ہے اگر اس کے باؤجود بھی اس پر عدم اعتماد کرنا جمہوریت کیلئے نیک شگون ثابت نہیں ہوگا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں