معدنی وسائل میں بلوچستان کا حصہ 40فیصد ہے

وزیر اعظم عمران خان نے اپنے ایک ٹوئٹ پیغام میں اعلان کیاہے کہ عالمی عدالت کی جانب سے ریکوڈک کاپر اینڈ گولڈ پراجیکٹ مقدمے کا فیصلہ کمپنی کے حق میں دیا ہے۔اس فیصلے کی رو سے وفاق کو 6ارب ڈالر اور صوبہ بلوچستان کو 4ارب ڈالر جرمانہ ادا کرنا ہے۔اس حوالے سے ان کیمرہ اراکین صوبائی اسمبلی کو ذمہ داران نے بریفنگ دی۔اس کے معنے یہ ہوئے کہ اراکین اسمبلی کو دی گئی بریفنگ عام آدمی تک نہیں پہنچے گی۔پہلے جو بات چند افراد کے دلوں میں محفوط تھی بریفنگ کے بعد حاضر اراکین بلوچستان سمبلی میں سے جو پہلے بے خبر تھے، اب ان کے سیینوں تک پہنچ گئی ہے۔عام آدمی اس بریفنگ کے بعد بھی اتنا ہی بے خبر ہے جتنا مذکورہ بریفنگ سے پہلے بے خبر تھا۔عجیب بات ہے ایک جانب کہا جاتا ہے طاقت کاسرچشمہ عوام ہیں دوسری جانب عوام کو ملکی معاملات سے بے خبر رکھا جاتا ہے۔عام آدمی کو اس وقت میڈیا کے ذریعے خبر ملتی ہے جب وفاق عالمی عدالت میں مقدمہ ہار جاتا ہے۔یہاں بھی تمام تفصیلات نہیں بتائی جاتیں،صرف یہ بتایا جاتا ہے کہ بلوچستان 4 ارب، وفاق6ارب ڈالر جرمانہ اداکرے گا۔وجوہات راز میں رہتی ہیں۔رینٹل بجلی گھر کے مقدمے میں بھی یہی رویہ اختیار کیا گیا۔صرف مقدمہ ہارنے کی مختصر خبرمیڈیا کے ذریعے عوام تک پہنچی، اس کے بعد کیا ہوا، عوام تاحال بے خبر ہیں۔قصور وار کون ہے؟ کس نے جان بوجھ کر یا نادانستہ غلطی کی؟ کون اس غلطی کا کتنا بینیفشری تھا؟یہ نہیں بتایا گیا۔یہ نہیں سوچتے کہ جن لوگوں سے چھپایا جا رہا ہے ان ہی بد نصیبوں نے عالمی عدالت کے حکم میں لکھا ہوا بھاری جرمانہ اپنی جیب سے ادا کرنا ہے۔چلیں ریکوڈک کاپر اینڈ گولڈ پراجیکٹ میں یہ معلوم ہو گیا کہ بلوچستان کا حصہ 40فیصد ہے۔2فیصد نہیں، جو بلوچستان کے عوامی نمائندے آج تک عوامی اجتماعات میں کہتے رہے ہیں۔ واضح رہے کسی بھی کاروباری معاہدے میں تمام فریقین کا نفع و نقصان میں حصہ درج ہوتا ہے۔ریکو ڈک کاپراینڈ گولڈ پراجیکٹ میں تین فریق ہیں۔اول پاکستان، دوم بلوچستان اور سوم وہ کمپنی جس نے عالمی عدالت میں مقدمہ جیتا ہے۔ چونکہ معاہدے کی تفصیلات عوام کے سامنے نہیں اس لئے یہ علم نہیں ہواکہ کمپنی کا نفع و نقصان میں کتناحصہ تھا؟البتہ جرمانے کی ادائیگی کا تناسب ہے وفاق60فیصد اور بلوچستان 40 فیصد۔بلوچ عوام کے لئے یہ بھی بڑی خبر ہے۔2فیصد والی خبر کی تردید ہے۔1993میں ریکوڈک کاپر اینڈ گولڈ پراجیکٹ معاہدہ ہوا۔اس لئے بلوچستان کا حصہ 40فیصد کے حساب سے ادا کرنے کا وفاق پابند ہے۔ اب یہ معلوم کرنے کے لئے کہ مقدمہ جیتنے والی کمپنی ریکوڈک سے کتناسونا اور چاندی غیر قانونی طور پر ہڑپ کر چکی ہے؟ ایک کام لازماً کرنا ہوگا۔نئے معاہدے میں یہ شق شامل کرائی جائے گی کہ کنسورشیم پراجیکٹ کی چاردیواری سے باہر صرف کاپر لے جانے کا مجاز ہوگا۔اس امر کو یقینی بنانے کے لئے ایسی ریفائنری بھی پراجیکٹ کی چاردیواری میں نصب کی جائے گی جوتانبے سے سونے اور چاندی کے امکان بھر زیادہ سے زیادہ ذرات الگ کرنے کی صلاحیت رکھتی ہو۔یاد رہے کہ معاہدے کی رو سے کمپنی کوصرف تانبا بیچاجاتا ہے، باقی تما م دھاتیں پاکستان اور بلوچستان کی ملکیت ہیں۔مطلوب ریفائنری سونا اور چاندی کی جتنی مقدار زیاد ہ علیحدہ کرے اسی تناسب سے کمپنی (یا معاہدے پر بلوچستان اور وفاق کے دستخط کرنے والوں)سے رقم بطور ہرجانہ وصول کی جائے۔ عوامی نمائندے صرف بریفنگ سن کر مطمئن نہ ہوں ہو، انہیں مستقبل کے معاہدے کی شرائط کا باریک بینی سے جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔انہیں اس حساس ریفائنری کی تنصیب والی شرط کو معاہدے کا حصہ بنانے میں اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔یہ ذمہ داری بلوچستان کے وزیر اعلیٰ،وزیر خزانہ اور وزیر قدرتی وسائل کے کندھوں پر ہے۔بلوچستان کے قدرتی وسائل بلوچ عوام کی ملکیت ہیں۔ماضی میں ان قیمتی وسائل کی حفاظت میں غفلت برتی گئی ہے۔اس غفلت کی سزا بلوچ عوام غربت،بیماری اور بے روزگاریکی شکل میں بھگت رہے ہیں۔اگر ماضی میں معاہدے کرتے وقت عوامی نمائندوں نے اپنی ذمہ داری اوراپنا فرض کما حقہ‘ پورا کیا ہوتا تو مقدمہ عالمی عدالت میں ہار پر نہ منتج ہوتا۔وفاق اور بلوچستان کو اربوں ڈالر کمپنی ادا کرتی۔حاکمان وقت غافل ہو جائیں تو عوام رل جاتے ہیں،جیسا کہ آج بلوچستان اور پاکستان کے عوام معاشی مشکلات سے دو چار ہیں۔اپنے قیمتی معدنی وسائل(تانبا،سونا اور چاندی) سے منافع کمانے کی بجائے 10ارب ڈالر جرمانہ ادا کررہے ہیں۔یہ جرمانہ 1993میں معاہدے پر دستخط کرنے والوں کی عاقبت نااندیشی، کم علمی یا مفاد پرستی کی بناء پر بلوچستان اور وفاق کو اداکرنا ہے۔اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ یہ 10ارب ڈالرعملاً عوام کو ادا کرنے ہیں۔دستخط کرنے والوں نے دستخط کرنے کی قیمت وصول کی۔اعور اپنی ناجائز کمائی سے بنائے ہوئے گھروں میں رہ رہے ہیں۔جو مر گئے ہیں وہ اپنے اعمال کی سزا آخرت میں بھگتیں گے۔آج کی وفاقی اور صوبائی حکومت چیف جسٹس پاکستان جسٹس گلزار احمد کے نسلہ ٹاور (کراچی)کے دیئے گئے حکم کی روشنی میں تحقیقات کرائی جائیں اور دستخط کرنیوال وں کے خلاف کارروائی کریں تاکہ آئندہ اس قسم کی لوٹ مار روکی جاسکے۔عوام کی امانت میں خیانت کرنے والوں سے کوئی نرمی نہ برتی جائے۔قانون حرکت میں آئے اور عوام کے مجرموں کو قرار واقعی سزا دی جائے۔عوامی نمائندے اپنے ووٹرز کے حقوق کا ہر قیمت پر دفاع کریں۔قدرت عوام کو بیش قیمتوسائل اس لئے نہیں عطا کئے کہ وہ ایک طرف دستخط کرنے والوں کی چوری اور لوٹ مار کا شکار ہوں اور دوسری جانب اربوں ڈالر جرمانہ بھی ادا کریں۔74برسوں میں جو ہوا، بہت براہوا، نہیں ہوناچاہیے تھا۔سوال یہ ہے کہ آج کیا کیا جائے؟ اس سوال کا سادہ سا جواب یہ ہوگا کہ جن لوگوں کی وجہ سے عوام پر اتنا بھاری مالی بوجھ پڑا، ان کا کھوج لگایاجائے۔انہیں اس شرمناک جرم کی قانون کے مطابق سزادی جائے۔چوروں سے ہڑپ کی جانے والی دولت واپس لی جائے۔چوری پکڑی گئی ہے۔چور دستخط کرنے والوں کے سوا اور کوئی نہیں۔دستخط معاہدوں پر موجودہیں۔چوروں تک رسائی ممکن ہے۔عوام انصاف چاہتے ہیں، انصاف کی فراہمی عوامی نمائندوں کی ذمہ داری ہے۔ عوام کوانصاف فراہم کیا جائے۔کنسورشیم سے کیاجانے والا معاہدہ عوام سے نہ چھپایا جائے۔جانچ پڑتال کا ٹھوس نظام وضع کیا جائے۔تمام قدرتی وسائل میں بلوچ عوام کاحصہ 40فیصد ہے، وفاق ادا کرے۔ 2فیصد والا پرچہ نہ تھمایا جائے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں