سرکاری اداروں کے نام پر نجی ہاؤسنگ سوسائٹیز کے نام رکھنے پر پابندی عائد

اسلام آباد:سرکاری اداروں کے نام پر نجی ہاسنگ سوسائٹیوں کے نام رکھنے پر پابندی عائد کر دی گئی ہے۔ تفصیلات کے مطابق وفاقی دارالحکومت میں اداروں کے نام پر ہاسنگ سوسائٹیاں بنانے کی اجازت نہیں ہوگی۔ سرکاری اداروں کا نام استعمال کرکے پہلے سے بنی ہوئی ہاسنگ سوسائٹیوں کو نام تبدیل کرنا ہوں گے۔اس حوالے سے کیپٹل ڈیولپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے)کے چیئرمین عامر علی احمد نے سوسائٹیوں کا نام تبدیل کروانے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ یہ تاثر قائم ہونے کا اندیشہ ہوتا ہے کہ سوسائٹی شاید سرکاری ادارے کی ہے، رجسٹرار 3 ہفتے میں سوسائٹیوں کو نام تبدیل کرنے کا نوٹس دیں۔ چیئرمین سی ڈی اے کا کہنا تھا کہ ایسی تمام سوسائٹیاں جو سرکاری اداروں کے نام پر ہیں اپنا نام تبدیل کروائیں۔اسلام آباد ہائیکورٹ نے بھی اس سلسلے میں ہدایات جاری کررکھی ہیں۔ یاد رہے کہ گذشتہ برس دسمبر میں اسلام آباد ہائیکورٹ میں وفاقی دارالحکومت میں پولیس آرڈر پر عمل درآمد سے متعلق کیس پر سماعت ہوئی۔ دوران سماعت عدالت میں اٹارنی جنرل خالد جاوید خان، آئی جی اسلام آباد، سیکریٹری داخلہ، ڈپٹی کمشنر اسلام آباد پیش ہوئے۔ میڈیا رپورٹ کے مطابق دوران سماعت اسلام آباد ہائیکورٹ کا کہنا تھا کہ پورا سسٹم عام آدمی کے لیے بیٹھا ہے کہ لیکن سب کام اس کے خلاف ہو رہا ہے، ہمیشہ کہا جاتا ہے کہ عدلیہ کا دنیا میں کون سا ریٹ ہو گیا ہے، کیسے قبضے ہوتے ہیں ان سب آفیشلز کو پتہ ہے ایس ایچ او پٹواری ملوث نا ہو تو قبضہ ہو ہی نہیں ہو سکتا، اداروں نے اپنے نام سے سوسائٹیز بنائی ہیں ان کے پرائیویٹ بزنس ہیں اس سے بڑا مفاد کا ٹکرا کیا ہے؟ وفاقی حکومت پراسیکوشن برانچ بنانے میں دلچسپی نہیں رکھتی۔چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ بڑے آدمی کو کچھ ہو جائے تو پوری مشنری ادھر پہنچ جاتی ہے لیکن عام آدمی کے لیے کچھ نہیں کیا جاتا۔ ڈپٹی کمشنر بے بس ہیں کیونکہ وہ خود کوآپریٹو سوسائٹی کے ہیڈ ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کیا وزارت داخلہ کی سوسائٹی کے خلاف ڈپٹی کمشنر فیصلہ کر سکتا ہے؟ جو بھی ججمنٹ دی اس کو لیکر دراز میں رکھ دیا جاتا ہے کیونکہ وہ غریب سے متعلق ہوتی ہے، یہاں اسلام آباد میں تمام اداروں نے اپنے اپنے رئیل اسٹیٹ کے بزنس کھولے ہوئے ہیں، ریاست جس نے عوام کا تحفظ کرنا ہے اس کے آرگنائزر خود کرائم میں ملوث ہیں، ایلیٹس کی اجارہ داری ہے کوئی رول آف لا نہیں، ایف آئی اے، داخلہ، آئی بی سب نے اپنی اپنی ہاسنگ سوسائٹیز بنائی ہوئی ہیں، قبضہ گروپس کو ریاستی اداروں کی جانب سے پروٹیکشن حاصل ہے۔چیف جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ ساٹھ سال پہلے جن کی زمینیں لیں ان کو معاوضے نہیں دئے گئے، کون آئے گا ان کمزور لوگوں کے تحفظ کرنے، کیا آپ آئی بی وزارت داخلہ کے رئیل اسٹیٹ بزنس کو کیسے Justify کر سکتے ہیں؟ جس پر اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے جواب دیا کہ میں نہیں کر سکتا۔ چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ جیسے ہی موٹروے سے اتریں تو بڑا سا بورڈ لگا ہے سپریم کورٹ ہاسنگ سوسائٹی، رجسٹرار کوآپریٹو ہاسنگ سوسائٹی اس سے متعلق لاچار ہے، گذشتہ سماعت پر بتایا گیا تھا کہ اداروں کے نام پر ہاسنگ سوسائٹی رکھنا غیر قانونی ہے، اب یہ ختم ہونا چاہئیے، مفادات کا ٹکرا ختم ہونا چاہئیے، انہوں نے کہا کہ آپ مجھے بتائیں آئی بی سوسائٹی کی کیا ہسٹری ہے کیا وہ قبضہ گروپس میں ملوث نہیں تھی؟ جس پر ڈپٹی کمشنر حمزہ شفقات نے کہا کہ وزارت داخلہ کا ہاسنگ سوسائٹی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ چیف جسٹس نے ہدایت کی کہ یہ بہت سنگین معاملہ وفاقی کابینہ اور وزیراعظم کے نوٹس میں لائیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں