ملک دیوالیہ ہونے والاہے

پاکستان کی تمام اپوزیشن پارٹیوں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ موجودہ حکومت کی (غلط)پالیسیوں کے باعث ملک دیوالیہ ہونے کے قریب ہے۔اور سب اس نتیجے پر پہنچی ہیں کہ اس کا واحد حل یہ ہے کہ حکومت کا خاتمہ کیا جائے۔مسلم لیگ نون کے صدر اور قائد حزب اختلاف شہباز شرہف نے نئے سال کے آغاز پر پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہاہے کہ وزیر اعظم عمران کو چاہیئے تھا قیمتوں میں اضافے کی بجائے استعفیٰ دے دیتے۔انہوں مزید کہا ہے کہ پی ٹیآئی کی حکومت عوام کی سال نو کی خوشی بھی برداشت نہیں،پیٹرول بم گرادیا۔پی پی پی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے نئے پاکستان میں ہر سال گزشتہ برس کی نسبت زیادہ مہنگا ثابت ہوا ہے۔وزیراعظم کے دعوے کہاں گئے کہ 2021کا سال ہوگا۔اب 2022آگیا ہے خوش حالی نیں آئی۔اپنی کارکردگی نہیں دیکھتے کہتے ہیں پچھلی حکومتیں نااہل تھیں۔جے یو آئی اور پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن کا کہنا ہے ہماری مسلسل جدوجہد کی وجہ سے اداروں کو ذراسا ہاتھ کھینچنا پڑا‘ ہم نے تین سال قوم کو موجودہ سلیکٹڈحکومت کے عزائم سے اورملک کے خلاف ہونے والی سازشوں سے آگا ہ کیا، بلدیاتی انتخابات میں تاریخی کامیابی نے بین الاقوامی ایجنڈے پر عمل پیرا حکمرانوں کے عزائم خاک میں ملا دیئے، اگر مستقبل میں مداخلت نہ ہوئی تو عوامی قوت کے ساتھ چاروں صوبوں میں مثالی کامیابی حاصل کریں گے۔انہوں نے مزید کہا ملک دیوالیہ ہونے کے قریب ہے ادارے بھی اعتراف کر چکے ہیں۔ انہوں نے اَللہ سے بھی دعا کی ہے:”نیاسال قوم کو مہنگائی،بد انتظامی،معاشی بربادی،بھوک، بیماری، ظلم و ناانصافی کے عذابوں سے نجات کی شروعات کا سال بن جائے“۔عوامی نیشنل پارٹی کے مرکزی صدراسفند یار ولی خان نے پیٹرولیم مصنوعات میں اضافے کو منی بجٹ کے آفٹر شاکس میں سے پہلا قرار دیتے ہوئے کہا : آفٹر شاکس کا سلسلہ پورا سال جاری رہے گا۔ اپوزیشن پارٹیاں اچھی طرح جانتی ہیں کہ جمہوری طرز سیاست میں عوام دشمن حکومت کی تبدیلی کا طریقہ آئین میں درج ہوتا ہے، پاکستان کے آئین میں بھی درج ہے۔اول یہ کہ وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد لائی جائے۔تحریک کی ایوان میں کامیابی کے ساتھ ہی حکومت گھر چلی جائے گی۔دوسرا طریقہ یہ ہے کہ عوام سے رجوع کیا جائے،عوام کے سامنے حکومتی نااہلی کا مقدمہ پیش کیا جائے، عوام کی حمایت سے ایسے حالات پیدا کر دیئے جائیں کہ حکومت کے پاس مستعفی ہونے کے سوا دوسرا کوئی آپشن نہ بچے۔چند ہفتے پہلے بلوچستان میں اسی طریقے سے حکومت تبدیل ہو چکی ہے۔مولانا فضل الرحمٰن مذہبی سیاسی پارٹی کے سربراہ ہیں، وہ سیاست کے ساتھ دعا سے بھی کام لے سکتے ہیں، اور لے رہے ہیں۔جہاں دیدہ شخصیت ہیں۔سوچیں،انہیں ساڑھے تین سال کی جدوجہد کے بعد کامیابی ملی تو بلدیاتی انتخابات میں ملی۔اس میں شاید یہ غیبی اشارہ موجود ہو کہ چاروں صوبوں میں ملنے والی جس کامیابی کی امید لگائے بیٹھے ہیں وہ بھی شیڈول کے عام انتخابات میں ملے گی۔اس اشارے سے پہلے دنیاوی اشارہ یہ ہے کہ عوام ابھی تک مہنگائی کے عذاب سے نجات کے لئے سڑکوں پر نہیں آئے۔یاد رہے اجتماعی گناہوں کی سزا اجتماعی معافی مانگے بغیر نہیں مل سکتی۔یونس علیہ السلام کی قوم کاواقعہ اسی اصول کی یاد دلاتا ہے۔عین ممکن ہے کہ قوم کی اجتماعی سیاسی اور غیر سیاسی غلطیوں کے نتیجے میں پی ٹی آئی کی حکومت مسلط کی گئی ہو۔مولانا قوم کو ترغیب دلائے کہ اجتماعی معافی مانگیں۔انہیں جمیعت علمائے اسلام کے سربراہ کی حیثیت سے یہ استحقاق حاصل ہے۔
پی ڈی ایم کے سربراہ کے طور پر یہ بڑا پلیٹ فارم بھی استعمال کیا جا سکتاہے۔مہنگائیکا عذاب ناقابل برداشت ہوتا جا رہا ہے۔اس سے نجات کے لئے دعا کے ساتھ دوا والا راستہ بھی اپنائیں۔کورونا جیسی بیماری بھی پی ٹی آئی کے دور میں آئی ہے۔اس سے جڑی پریشانیوں سے نجات کی دعا بھی مانگی جائے۔ عام آدمی کی زندگی واقعی اجیرن ہو گئی ہے۔متوسط طبقہ زیادہ پریشان ہے۔احساس پروگرام کے دائرے سے بھی باہر ہے۔سفید پوش ہونے کے سبب دوسروں کے سامنے ہاتھ پھیلانے سے بھی شرماتا ہے۔اَللہ اس کا حامی و ناصر ہے کیوں کہ بظاہر اس کمر توڑمہنگائی کا مقابلہ کرنے کی سکت نہیں رہی۔ قوم کو دعا کرتے وقت سورۃ الر عد کی آیت فراموش نہیں کرنی چاہیئے جس میں اَللہ نے فرمایا ہے کہ اس قوم کی حالت نہیں بدلتی جسے اپنی حالت بدلنے کا خودخیال نہ ہو۔خود احتسابی ہمارا قومی مزاج نہیں۔دوسروں پر تنقید ہمیں زیادہ مرغوب ہے۔خود ستائش ہماری دیرینہ کمزوری ہے۔ایسے ماحول میں مشورہ دینا مشکل ہوتا ہے۔حکومت ہو یااپوزیشن دونوں زود رنج ہیں،ان میں کوئی بھی زود پشیماں نہیں۔ خود احتسابی کے بغیر ملک کودیوالیہ ہونے سے نہیں بچایا جا سکتا۔جماعت اسلامی کے سوا باقی سیاسی پارٹیوں نے اپنے کارکنوں کی تربیت کا کام عرصہ ہوا چھوڑ دیا ہے۔جذباتی نعروں کی مدد سے اہم دنوں پر جلسہ جلوس کا اہتمام کر لیا جاتا ہے۔پی ٹی آئی نے بڑی پارٹیوں کے اسی غیر سیاسی رویہ کا فائدہ اٹھایا اور ان کے چار دہائیوں میں مسلسل اقتدارمیں رہنے کے باوجود اپنی جگہ بنائی۔اب سلیکٹڈ والے طعنے میں وزن نہیں رہا۔مبصرین 23مارچ کی احتجاجی تاریخ کے بارے میں بھی ایک سے زائد عذر پیش کرتے سنائی دیتے ہیں۔اس میں شک نہیں کہ رمضان اور بلدیاتی انتخابات بھی اسی مدت میں متوقع ہیں۔اس تناظر میں حکومت مطمئن ہے،جانتی ہے بلدیاتی انتخابات کے بعد سیاست کا موڈ تبدیل ہو جائے گا۔ سیاسی پارٹیوں کو اپنیکارکنوں سے مسلسل رابطے بحال کرنا ہوں گے۔سیاسی تربیت کا پرانا نظام منظم کرنے پر توجہ دینی ہوگی۔پی ٹی آئی بلدیاتی انتخابی نتائج کی ہلکی سی ضرب لگتے ہی بے دم ہو کر ریزہ ریزہ ہوگئی۔ابھی تک اعتماد بحال نہیں ہوا۔ٹی وی ٹاک شوز میں وزیر اور مشیر جلد طیش میں آنے لگے ہیں۔یہ اسی ضرب کے اثرات اورآفٹر شاکس ہیں۔اسفند یار ولی خان نے بجا طور پر درست نشاندہی کی ہے۔لیکن اپوزیشن کو اپنا ہوم ورک دھیان سے کرنے کی ضرورت ہے۔غفلت یا کوتاہی کی اس کے پاس بھی گنجائش نہیں۔اس کی منزل بلدیاتی انتخابات میں کامیابی نہیں، آگے بھی کامیابیاں سمیٹنی ہیں۔وقت کم ہے۔قبل از وقت انتخابات کے امکانات ہر گزرتے دن مزید کم ہوتے جا رہے ہیں۔دعاؤں کے ساتھ دنیاوی اسباب درکار ہوں گے۔عوام کی ہمدردی کے لوازمات سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں