چوہدری شجاعت حسین کا مشورہ

سابق وزیراعظم چوہدری شجاعت نے وزیراعظم عمران خان کو مشورہ دیا ہے کہ مشیروں کے غلط مشوروں پرنہ صرف محتاط بلکہ خبردار رہیں۔یہ دیکھیں کہ مشیر کس کی گیم کھیل رہے ہیں، کیسے کھیل رہے ہیں اور کیوں کھیل رہے ہیں؟ وزیر اعظم دیکھیں کہ ان کودیئے گئے مشوروں میں کوئی نہ کوئی اینگل ہوتا ہے،جس کا نقصان وزیراعظم کو پہنچتا ہے۔عمران خان کو یقین ہونا چاہیے جو مشیر ان کے ساتھ مخلص ہیں، چہوہدری شجاعت نے ایک بیان کی خصوصی نشاندہی کرتے ہوئے کہا کہیہ بیان کسی دشمن نما دوست کا مشورہ قرار دیا ہے جس میں عمران خان نے کہا ہے:”مجھے اسمبلی میں بولنے نہیں دیتے، میڈیا میں آکر بولتا ہوں“۔چوہدری شجاعت پاکستان کے سینئر ترین سیاست دانوں میں سے ایک ہیں۔جنرل پرویز مشرف بھی ان کے مشوروں کو اہمیت دیتے تھے بلکہ ان پرعمل بھی کرتے تھے۔ غالباً وزیر اعظم عمران خان چوہدری شجاعت کی اس خوبی سے پہلے ہی آشنا ہیں، اور اپوزیشن سے مشاورت سے انکاری ہیں۔اپنے ارد گرد بیٹھے ہوئے مشیروں کو انہوں نے خود منتخب کیا ہے لہٰذا ان کے بارے میں وزیر اعظم حسنِ ظن میں مبتلاء ہیں۔یاد رہے کہ اگلے روز مستعفی ہونے والے مشیر داخلہ اور احتساب کے بارے میں ان کے دیرینہ رفیق جہانگیر ترین نے بھی خبردار کیا تھا بلکہ اس ضمن میں انہوں نے ایک زوردار مہم بھی چلائی تھی لیکن کامیاب نہیں ہوئے تھے۔اب جو کچھ ہوا اچانک ہوا اور یقینا انہیں کسی خاص ذریعے سے ٹھوس شواہد ملے ہوں گے۔سیانے کہہ گئے ہیں جتنا بڑا عہدہ ہوتا ہے اسے چلانے کے لئے اتنی بڑی ذہانت اور دانش درکار ہوتی ہے۔لیکن تمام تر احتیاط کے باوجود کوئی شخص عقل کل نہیں ہو سکتا۔مشیروں کا انتخاب کرتے وقت بھی کسی قابل اعتماد مشیر کی بات ماننی پڑتی ہے۔اور معمولی سی چوک ٹیم میں جھول کے لئے کافی ہوتی ہے۔بہرحال چوہدری شجاعت نے ایک سینئر اتحادی کی حیثیت سے اپنا فرض ادا کر دیا ہے۔ویسے بھی عمران خان ان سے جب چاہتے ہیں ملاقات کے لئے وقت نکال لیتے ہیں۔توقع کی جانی چاہیئے اپنے اقتدار کے آخری اٹھارہ انیس مہینے کوئی بڑی غلطی نہیں کریں گے جو انہیں کسی بڑی مشکل میں ڈال دے۔مستعفی مشیر کے حوالے سے اب بہت کچھ میڈیا پر آچکا ہے۔ایسا اتفاق بہت کم دیکھنے کو ملتا ہے۔ابھی تک کابینہ سے علیحدہ ہونے والے مشیرکی حمایت میں کوئی بیان نہیں آیا،گویاان کی علیحدگی پر سب ہی مطمئن ہیں، کوئی ایک بھی رنجیدہ نہیں۔ان کے پاس اہم ذمہ داری تھی، وزیر اعظم کی خواہش ہوگی کارکردگی بھی اتنی ہی نمایاں ہونی چاہیئے۔ چوہدری شجاعت کے مشورے سے یہی سمجھا جا سکتا ہے کہ جانے والے مشیر سے ان کی جماعت کو بھی بعض شکایات تھیں۔پارلیمانی نظام حکومت میں حکومت اوراپوزیشن کے بارے میں عام تأثر یہی ہے کہ دونوں فکری اعتبار سے خارجی اور داخلی مسائل پر کبھی ہم خیال نہیں ہوا کرتیں۔ مزاجاً اتنا فاصلہ ہوتا ہے کہ ہم خیال ہونے کی نوبت ہی نہیں آتی۔ ماضی میں ایک دوسرے کو اتنا برا بھلا کہہ چکے ہوتے ہیں کہ معامالات اتفاق کی طرف جانے سے پہلے ہی بگاڑ کی طرف چلے جاتے ہیں۔دلائل کا آغاز ہونے سے قبل ہی آستینیں چڑھا لی جاتی ہیں، منہ سے جھاگ نکلنا شروع ہو جاتی ہے۔ ایسی کوششیں شاذ و نادر ہی کامیاب ہوئی ہیں۔حکومت بنا لینا اس کی آخری منزل نہیں، حکومت کی تشکیل کے بعد عوام کو غربت،بیروزگاری سے نجات دلانا انہیں ترقی اور خوشحالی کے راستے پر ڈالنا اصل کام ہے۔ماضی میں نظام مصطفےٰ قائم کرنے کا نعرہ لگا کر پاکستان نیشنل الائنس نے ملکی سیاست میں بڑی ہلچل مچائی،پی پی پی کے متعدد کارکنوں کو گنجا کرکے ان گنجے کے سر پرپی این اے کا انتخابی نشان ”ہل“ بھی بنایا گیا۔درجنوں پاکستانی اس مخالفانہ نعرے بازی کا شکار ہوکر سری لنکن منیجر کی طرح اپنی جان سے گئے۔ان میں سندھ لیبر ڈائریکٹریٹ کا افسر(حبیب خٹک) اور اس کے بیگناہ ماں بھی شامل ہیں۔لیکن تمام نعرے وقت گزرنے کے ساتھ فضاء میں تحلیل ہو گئے۔غربت دور نہ ہوئی۔پرویز مشرف ماڈریٹ اسلام کے ساتھ منظر عام پر ابھرے، اپنی آب و تاب کے جلوے بکھیرے اور ملکی سیاسی حالات کی تندی سے گھبرا کر خلیجی ریاست میں غروب ہوگئے۔ان کے جانے کے دس سال بعد پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان ریاستِ مدینہ کی سیاسی اصطلاح کو نیالبادہ پہنائے سیاسی افق پر آگئے۔ہر چند کہ اپوزیشن یہ سمجھتی ہے کہ مذہبی نعروں پر صرف اسی کی اجارہ داری ہے،مگر عمران خان نے اس خیال کو کافی حد تک غلط ثابت کر دکھایا ہے کہ مذہبی نعرے صرف مذہبی جماعتیں اور مسلم لیگ لگا سکتی ہے۔ انہوں نے وفاق اور پنجاب کی حکومت ملتے ہی اس شعبے میں نمایاں پیش رفت دکھائی۔روس کے صدر پیوٹن نے محمد (ﷺ) کی شان میں گستاخی کو آزادیئ اظہار سے الگ کرکے یورپ میں اٹھائے جانے والے ایک خطرناک طوفان کا باب بند کر دیا ہے۔ملک کے اندر سری لنکن منیجر کے قاتلوں سے ہنرمندی سے نمٹ کر ثابت کیا ہے کہ ”ریاست مدینہ“کے وسیع تر کینوس کے نیچے جدید دور کے مسایل حل کئے جا سکتے ہیں۔یورپ کو یورپ کی استدلالی زبان میں سمجھانا بہتر حکمت عملی
ہے۔پاکستانی عوام کومحمد (ﷺ) کی محبت اور عشق کے نعروں کی گونج میں سڑکوں پر لانا بہت آسان ہے مگر اس جذباتی ہجوم کو سڑکو ں پردوسروں کی املاک کو تباہ کرنے سے روکنا بہت مشکل مسئلہ رہا ہے۔ایک سے زائد بار تباہ کن مناظر پاکستانی عوام اور دنیادیکھ چکی ہے۔تا حال پی ٹی آئی کی”ریاست مدینہ“ کامیابی سے اسے روکے ہوئے ہے۔پاکستان کے عوام امن اور قانون کی حکمرانی دیکھنے کے متمنی ہیں۔اس کے ساتھ ہی ان کی ضرورت ہے ان کے بچے بھوکے نہ سوئیں، بھوکے اسکول نہ جائیں۔یہ خواہش کوئی انوکھی نہیں، دنیا کے متعدد منلک اپنے عوام کو بھوک، افلاس، بیروزگاری، اور بیماری سے نجات دلا چکے ہیں۔پاکستان بھی یہ کام کر سکتا ہے۔اچھا ہے کہ مسلم لیگ نون بھی یہی کہہ رہی ہے کہ وزیر اعظم کو گھر بھیجنے کے لئے ہر آئینی طریقہ استعمال کریں گے۔پی پی پی تو کئی سال پہلے سے ہی آئینی راستے پر چلنے کی حامی ہے۔پی ڈی ایم سے علیحدگی کا بنیادی سبب یہی اصولی اختلاف تھا۔ مارچ کے بعد اس حوالے سے اگر کوئی ابہام ہے تو وہ جاتا رہے گا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں