شاہ رخ جتوئی کیس،میڈیاعدالت پراثرانداز نہیں ہوسکتا،سپریم کورٹ

کراچی:سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ شاہ رخ جتوئی کیس میں میڈیا عدالت پراثرانداز نہیں ہوسکتا اورایسی کوئی بھی بات حقیقت کے منافی ہے۔سپریم کورٹ میں شاہ رخ جتوئی کی عمر قید کےخلاف اپیل پر سماعت ہوئی۔جسٹس جمال خان مندوخیل نے استفسار کیا کہ شاہ رخ جتوئی کی صحت کیسی ہے اورملزم جیل میں ہی ہے یا کہیں اور رکھا گیا ہے۔

شاہ رخ جتوئی کے وکیل لطیف کھوسہ نے عدالت کو بتایا کہ شاہ رخ جتوئی جیل میں ہی ہے۔شریک مجرم کے وکیل اعظم نذیر تارڑ نے عدالت کو بتایا کہ شاہ رخ کے علاج کی خبریں ہی توآڑے آگئی ہیں۔وکیل لطیف کھوسہ نے بتایا کہ اس کیس میں 7 سال پہلے صلح ہوچکی ہے لیکن کیس کا تعین اب میڈیا کرتا ہے۔اس پر جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ میڈیا آپ پراثرانداز ہوسکتا ہے لیکن عدالت پر نہیں۔جسٹس مقبول باقر نے ریمارکس دئیے کہ آپ کو لگتا ہے کہ سپریم کورٹ میں کیس میڈیا چلاتا ہے؟،ایسی بات نہ کریں جوحقیقت کے منافی ہوں۔

جسٹس امین الدین خان نے ریمارکس دئیے کہ مقدمات ری شیڈول ہونے کی وجہ سے فائل نہیں پڑھ سکا۔مجرم کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ دہشت گردی کی دفعات عائد ہونے کا حکم سپریم کورٹ کے3 رکنی بنچ نے دیا، عدالت کے 7 رکنی بنچ کا فیصلہ بعد میں آیا جس کی روح سے یہ کیس دہشت گردی کا نہیں بنتا۔جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ اس کیس میں تمام نکات کا آئندہ سماعت پر جائزہ لینگے۔ سپریم کورٹ نے کیس کی سماعت 3 ہفتے کیلئے ملتوی کردی۔

واضح رہے کہ مرکزی مجرم نے سپریم کورٹ سے عمرقید اورجرمانہ کالعدم قراردینے کی استدعا کی ہوئی ہے۔ اپيل ميں موقف اپنايا گیا ہے کہ 2 افراد کے ذاتی جھگڑے پر دہشت گردی کی دفعات عائد نہیں ہوسکتیں، سندھ ہائی کورٹ قتل اور دہشت گردی کے درمیان فرق کرنے میں ناکام رہی، عدالت عظمیٰ قرار دے چکی ہے کہ ہر قتل دہشت گردی نہیں ہوتا۔

قتل کيس ميں ٹرائل کورٹ نے شاہ رخ جتوئی کوسزائے موت سنائی تھی جبکہ ہائیکورٹ نے سزا کوعمر قید میں تبدیل کردیا تھا۔ واضح رہے کہ قتل کی یہ واردات دسمبر 2012 میں کراچی کے علاقے ڈیفنس میں ہوئی تھی۔اس کے علاوہ شاہ زیب قتل کا مجرم شاہ رخ جتوئی عمر قید کاٹنے کے بجائے 11 ماہ تک جیل سے باہر اسپتالوں میں شاہانہ زندگی گزارتا رہا، سماء ٹی وی کی تحقیق کے مطابق شاہ رخ جتوئی نے 8 ماہ قمرالسلام جبکہ 3 ماہ بے ویو اسپتال میں گزارے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں