کورونا اور کرپشن:پاکستان کے دو مسئلے

میڈیا کے ذریعے عوام کو بتایا جارہا ہے کہ پاکستان کے بنیادی مسائل دوہیں:اول‘کرپشن اور دوم‘ کورونا۔کرپشن بھی وہ بتائی جا رہی ہے جس کا ذکر ایک عالمی تنظیم شائع کرتی ہے اور اس کے پاکستان چیپٹر کے انچارج اکتوبر2016میں سربیا کے سفیر تعینات کئے گئے تھے۔میڈیا اینکر کی تحقیق کے مطابق اس ”مؤقر“ میگزین نے پورے پاکستان کے چاروں صوبوں کے 4،4سو افراد سے پوچھ گچھ کی اور اس نتیجے پر پہنچ گئے کہ پاکستان گزشتہ برسوں کرپشن کی عالمی فہرست میں تنزلی کرکے 124سے 140نمبر پر آگیا ہے۔جبکہ اسی روز کے اخبارات میں کورنگی ڈسٹرکٹ کونسل جیسے چھوٹے سے ادارے کے سابق افسر(میونسپل کمشنر)مسرورمیمن کے کے بنگلے سے نیب نے چھاپہ مار کر سونے کی اینٹیں، اور متعدد بینکوں کی لاکھوں روپے کی ٹی ٹی رسیدیں اور بڑی مقدار میں نوٹوں کی گڈیاں برآمد کر لی ہیں جنہیں گننے کے لئے نوٹ گننے کی مشینیں منگوانا پڑیں۔ یاد رہے کورنگی ڈسٹرکٹ کراچی کے پسماندہ مضافاتی علاقوں میں سے ایک ہے۔اس کا بڑا علاقہ صنعتی ہے مگر اس کے باوجود اس کی سڑکیں ٹوٹی پھوٹی ہیں،ٹرانسپورٹرز اور صنعت کار ہمیشہ شکایت کرتے ہیں کہ سڑکوں کی مرمت کی جائے،تاکہ انہیں آمد و رفت میں آسانی ہو۔مگر سڑکوں کی تعمیر اور مرمت پر خرچ ہونے کے لئے مختص کی گئی رقوم، سونے کی اینٹوں، نوٹوں کی گڈیوں، ٹی ٹی کی رسیدوں اور دیگر شکلوں میں جمع ہوتی رہیں۔کسی طرح نیب کے ہاتھ ان کا سرا لگ گیا اور اکاؤنٹس افسر،اور آڈٹ افسر بھی گرفتار ہو گئے۔ایسا ہی کرپشن کا ایک مقدمہ بلوچستان کی دو یونین کونسلوں کے حوالے سے نیب کے ذریعے عدالت تل پہنچا تھا جس میں محکمے کے وزیر خزانہ اور سیکرٹری خزانہ مجرم ثابت ہوئے تھے۔دونوں سے اتنی بڑی رقم بھی برآمد ہوئی تھی اور کراچی کے پوش علاقے میں قیمتی جائیداد اور مہنگی گاڑیا ں بھی تحویل میں لی گئی تھیں۔پاکستان کے عوام اپنے کرپٹ افسران کے کالے کرتوں سے واقف ہیں۔انہیں کسی ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل جیسے میگزین کی حاجت نہیں۔ حکومت نے وضاحت کی ہے کہ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشل میں ملک میں پائی جانے والی کرپشن کی نشاندہی یا تنزلی کی بات نہیں کی ہے بلکہ عدالتی نظام کی ابتری کا ذکر کیا ہے۔پاکستان کا درجہ کچھ عرصہ پہلے بھی 131ظاہر کیا گیاتھا، اسی جانب وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے اشارہ کیا ہے انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ ملک میں امیروں کے لئے ایک قانون اور غریبوں کے لئے دوسرا قانون ہے۔وزیر اعظم عمران خان کی زبان پر اسے دو رنگے عدالتی نظام کے بارے میں شکایت موجود رہی ہے۔در اصل ابھی تک حکومت اور اپوزیشن کرپشن کی کسی متفقہ اور مشترکہ تعریف پر راضی نہیں ہوسکیں۔اس لئے جسے حکومت کرپشن کہتی ہے اسے اپوزیشن ”ظلم“سمجھتی ہے اور جسے حکومت کرپشن نہیں کہتی وہی اپوزیشن کی آنکھوں میں کھٹکتی ہے۔مثلاً مالم جبہ،پشاور کی تیزرفتار ٹرانسپورٹ سروس کا معاملہ، اور 10ہزار درختوں کی شجر کاری وغیرہ میں کی جانے والی کرپشن کے بارے میں حکومت اور اپوزیشن کے درمیان اتفاق رائے نہیں پیدا ہو سکا۔اسی طرح پی پی پی کے چیئرمین کو بنی گالہ کی ریگولرائزیشن اور گجرنالے کی مسماری اور مکینوں کی بیدخلی پر بھی شدید اختلاف ہے۔انہوں نے ٹریکٹر ٹرالی ریلی سے خطاب کرتے ہوئے بھی بار بار اس ناانصافی کی جانب اشارہ کیا ہے۔بس سوچ کا یہی فرق وزیر اعظم اور اپوزیشن کو ایک میز پر بیٹھنے نہیں دیتا۔ورنہ خواہش دونوں کی ایک ہی ہے کہ ملک سے کرپشن کا مکمل خاتمہ ہو۔تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ عوام کے سامنے ہردوچار مہینے بعد ڈسٹرکٹ کونسل کے میونسپل کمشنر اپنی دولت سمیت نیب کے ہاتھوں بے نقاب ہوتے رہیں۔اس طرح ایک جانب کرپٹ افسران بے نقاب ہوں گے اور دوسری جانب یہ رقوم قومی خزانہ میں واپس آنے کی رفتار بھی تیز ہوجائے گی۔اگرچہ یہ کام آسان نہیں، سب جانتے ہیں اس کی راہ میں بڑی رکاوٹیں حائل ہیں۔کرپٹ لوگوں کااثر ورسوخ عام آدمی کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ ہوتا ہے۔بعض ججز ماورائے قانون فیصلے بھی تحریر کرتے رہے ہیں۔ابھی یہ جنگ شروع ہوئی ہے۔اسے منزل تک پہنچایا جانا ابھی باقی ہے۔سفر یقینانازک اور کٹھن ہے۔ لیکن جس طرح یورپی اقوام نے یہ مشکل سر کیا ہے، پاکستانی عوام بھی پر امید ہیں کہ پاکستان میں بھی ایک ہی قانون نافذ ہوگا۔امیر اور غریب دونوں کو ایک جیساانصاف ملے گا۔کوئی وجہ نہیں کہ جوکام یورپی اقوام نے کامیابی سے انجام دے دیا ہے وہی کام پاکستان میں نہ کیا جا سکے۔اب بسم اَللہ ہو گئی ہے۔اگر یہ سلسلہ جاری رہا،بیچ میں کسی وجہ سے رک نہ گیا،اور حکومت نے فوجداری قوانین میں ترامیم کی جو نوید سنائی ہے، وہ پارلیمنٹ سے منظور ہوگئیں تب بھی وکلاء برادری کا خیال ہے کہ عدالتی نظام میں بڑی تبدیلی رونما ہونے کا دروازہ کھل جائے گا۔قانون سازی کا دروازہ طویل عرصے سے بند ہے، اس لئے عام آدمی کے ساتھ مبصرین اور دانشور بھی ایک حد تک مایوسی کا اظہار کرنے لگے ہیں۔کسی قوم پر اس سے بڑا ظلم اور کیا ہوگا کہ ملک میں 50سال تک ایک ڈیم بھی تعمیر نہ کیا جا ئے۔لوڈ شیڈنگ سے نجات کے لئے کوئلے، اور گیس سے چلنے والے تھکے ہوئے پلانٹس عوام پر مسلط کر دیئے جائیں۔جو بجلی خریدی نہ جائے اس کی قیمت ادا کرنے شرط بھی مان لی جائے۔دنیاپن بجلی، دھوپ اورہوا سے بجلی پیدا کرنے جا رہی ہو، ایسے میں پاکستان کو گیس اور کوئلہ کی جانب دھکیلا جائے تو معیشت زوال پذیر نہیں ہوگی تو کیا دن دونی اور رات کو چوگنی ترقی کرے گی؟اچھا ہوا کہ کورونا نے بھی ملکی معیشت
کے زوال کا ایک اضافی جواز پیش کر دیااور حکومت کو بھی فضول بحث میں وقت ضائع نہیں کرنا پڑا۔اپوزیشن بھی اس دوران اپنے گونا گوں مسائل میں الجھی رہی۔حکومت کبڈی کے کھلاڑی کی طرح اپنے مخالفین کو وسطی لائن تک لانے میں کامیاب ہو گئی۔آج پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن اور حکومت پاکستان کے درمیان23مارچ کو اسلام آباد پہنچے اور نہ پہنچنے کی بحث جاری ہے،جنوری ختم ہونے کو ہے۔زیر بحث تاریخ میں فروری ہی تو حائل ہے۔28دن کا مہینہ ہے، 28دن میں گزر جائے گا۔جس پارٹی میں جان ہوگی وہ 23مارچ اپنی مرضی سے منائے گی،اور جو کمزور ہوگی عوام کے سامنے اعتراف کر رہی ہوگی ہمارا جثہ جتنا تھا اسی کے مطابق کیا۔اورمیڈیا کو یاد ہوگا، یہ بات وہ پہلے بھی کہتے رہے ہیں۔سب فریق یہ حقیقت سامنے رکھیں کہ 90کی دہائی بہت پیچھے رہ گئی ہے، 2022 کے تقاضے مختلف ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں