نواز شریف کی واپسی

02/03/2020

یوں لگتاہے ہمارے ملک کاصرف ایک ہی مسئلہ ہے جوسابق وزیراعظم اور مسلم لیگ نون کے تا حیات رہبر نواز شریف کی علالت کے گرد گھومتا ہے، آئی ایم ایف کی کڑی شرائط سے جان چھڑانا یا مہنگائی سے چھٹکارا حاصل کرنا ہو،یا ایف اے ٹی ایف کی جانب سے گرے لسٹ میں رکھا جانا ان سے ہماری اپوزیشن اور حکومتی بینچوں پر بیٹھے سیاستدانوں کو کچھ سروکارنہیں۔ نواز شریف جیل میں تھے تو شریف فیملی سمیت تمام لیگی رہنماؤں کی زبان پر ایک ہی مطالبہ تھا:نواز شریف کو رہا کیا جائے تاکہ وہ اپنی مرضی کے ڈاکٹر سے علاج کراسکیں ان دنوں یہ بھی کہاجا رہا تھا کہ انہیں بعض پیچیدہ اور خطرناک بیماریاں لاحق ہیں ان کا علاج غیر ملکی پرانے ڈاکٹر کے سوا کوئی دوسرا نہیں کر سکتا اس لئے کہ ایک بیماری کا علاج کرتے ہیں تو دوسری بے قابو ہو جاتی ہے سب سے جدید اور تشویشناک بیماری کا نام ”پلیٹ لیٹس میں کمی و بیشی“ بتایا گیا تھاجن کی تعداد اتنی کم ہو چکی تھی کہ کسی وقت بھی جان لیواثابت ہو سکتی تھی۔پھر یہ معاملہ عدالت جا پہنچا اور حکومت نے انسانی ہمدردی کی بنیاد پر ایک غیر معمولی سزا یافتہ قیدی(تین بار ملک کے سابقہ وزیر اعظم) کے لئے ایک غیر معمولی قانونی راستہ نکالا اور اس کے نتیجے میں نہ صرف وہ لندن چلے گئے بلکہ ان کے ضامن(نیب کو متعدد مقدمات میں مطلوب)شہباز شریف بھی ان کے ہمراہ لندن پہنچ گئے۔ بیرون ملک گئے ہوئے دونوں بھائیوں کو چار ماہ ہونے کو ہیں مگر حیرت کی بات ہے کہ اس دوران وہ ایک دن کے لئے بھی کسی اسپتال میں داخل نہیں ہوئے اس دوران اپنے گھر پر مقیم رہے۔اس کے علاوہ عدالتی حکم کے باوجود انہوں نے اپنی پندرہ روزہ تازہ ترین میڈیکل رپورٹ بھی باقاعدگی سے نہیں بھیجی،حکومت کی یاددہانی کے بعد جو رپورٹ بھیجی گئی حکومتی ذرائع کے مطابق وہ پرانی ہیں اور ان میں ایسی کوئی تشویشناک بات شامل نہیں جس سے یہ ثابت ہورہا ہو کہ نوازشریف کا بیرون ملک قیام ان کے علاج کے لئے انتہائی ضروری ہے۔چنانچہ وزیر اعظم کی معاونِ خصوصی برائے اطلاعات فردوس عاشق اعوان نے اگلے روز میڈیا کو بتایا کہ وفاق کی جانب سے برطانیہ کو خط لکھا جائے گا تاکہ انہیں ”ڈی پورٹ“کرایا جائے۔ اس کے جواب میں مسلم لیگ نون کے سیکرٹری جنر ل احسن اقبال نے جواب دیاہے کہ جیسے ہی نواز شریف نے واپسی کا اعلان کیا حکومت کے ہاتھ پاؤں پھول جائیں گے۔انہوں نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ نون لیگ کے دور میں پاکستان سرمایہ کاری کے لئے مقناطیس تھا مگر آج وزیر اعظم ہاتھ میں کشکول پکڑ کر بھکاری بنے بیٹھے ہیں اور عوام کو خود کشیوں پر مجبور کر رہے ہیں۔چنانچہ ایک بار پھر میڈیا کا زیادہ وقت اسی بحث کی نذر ہوجائے گا کہ سابق وزیر اعظم نواز شریف کو پاکستان لانا ملک کی سلامتی اور عوام کی ترقی و خوشحالی کے لئے اہم ہے یا ان کا لندن میں قیام مفید ہے۔اس دوران حکومت یہ دلیل پیش کرتی رہے گی کہ قانون کی حکمرانی کے لئے سابق وزیر اعظم کی واپسی بے حد ضروری ہے یہ بھی کہا جائے گا کہ ایسی سہولت ملک میں کسی دوسرے سزا یافتہ قیدی کو حاصل نہیں اس کے علاوہ حکومت یہ بھی کہے گی کہ ان کے باہر رہنے سے عام آدمی کو یہ پیغام ملتا ہے کہ ملک میں دو قانون رائج ہیں؛ ایک مراعات یافتہ طبقے کے لئے ہے دوسرا عام آدمی کے لئے۔اس میں شک نہیں کہ عملی طور پر یہی نظر آتا ہے۔بلکہ زیادہ سچ یہ ہے کہ مراعات یافتہ طبقے میں بھی حکومت کاساتھ دینے والوں کے لئے ایک قانون ہے اور اپوزیشن میں بیٹھنے والوں کے لئے دوسرا قانو ن ہے نیب کی کارکردگی کے حوالے سے کی جانے والی بحث میں پہلا سوال اسی دورنگی پر اٹھایا جاتا ہے۔اس کے معنے یہی ہوتے ہیں کہ پارلیمنٹ کو سب سے پہلے اس دورنگی کو ختم کرنے کے لئے بنیادی قانون سازی پر توجہ دینی چاہیے۔لیکن پارلیمنٹ میں قانون سازی غیر اہم معاملہ ہے۔سب سے کم قانون سازی گزشتہ ڈیڑھ سال میں ہوئی ہے۔جتنی پیشرفت دیکھی گئی ہے وہ اپنی جگہ تنقید کا نشانہ بنی ہے۔ لہٰذا اسے قابلِ رشک کہنا آسان نہیں۔ان حالات میں ہونا یہ چاہیئے کہ اپوزیشن اور حکومت ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی بجائے عوام کی مشکلات دور کرنے کے سرجوڑ کر بیٹھیں۔اپوزیشن اپنے تجربے کی روشنی میں ایسی سفارشات مرتب کریں جو ملک کو آئی ایم ایف، ایف اے ٹی ا یف اور مہنگائی سے بچا سکیں اور حکومت اپنی انا کے خول سے باہر نکلے،ملکی معیشت سنوارنے میں اپوزیشن کی جہاں تک ممکن ہو مدد لے اور ماضی میں گم رہنے کی بجائے مستقبل کی تعمیر اور ترقی کا راستہ نکالنے کی فکر کی جائے۔عوام ماضی کا ماتم اورنوحہ خوانی سننے میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتے۔انہیں روزانہ کی بنیادوں پر بڑھتی ہوئی مہنگائی سے چھٹکاراچاہیے۔بجلی اور گیس کے بلوں میں کمی درکار ہے۔ملک میں پیدا ہونے والی چینی، آٹا،سبزی اور دالیں سستے داموں فراہم کی جانی چاہئیں۔درآمدی بل کم کرنے اور برآمدات بڑھانے کے لئے ایسے حکومتی اقدامات نظرآنا چاہئیں جو ثابت کریں کہ ہر گزرتے دن انہیں منزل قریب دکھائی دے۔کون جیل میں ہے؟ اور کون بیرونِ ملک؟ یہ فروعی مسائل ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں