فروری میں دورہئ چین

پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان فروری کے پہلے ہفتے میں چین کے دورے پر جائیں گے۔چین میں اولمپک کھیلوں کا نعقاد ہوگا۔امریکہ نے اس تقریب کا بائیکاٹ کررکھاہے۔پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان نے اس میں شرکت کا پروگرام طے کر رکھا ہے۔یہ شرکت ایک سے زائد حوالوں سے امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے دو ٹوک اور واضح پیغام ہوگا۔مبصرین میں سے جو یہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان کسی بلاک میں شامل نہیں ہوگا کے یہ معنے ہوں گے کہ وہ چین کے ساتھ بھی کوئی ایسامعاہدہ نہیں کرے گا جو کسی دوسرے ملک کے خلاف ہوگا۔یا کوئی دوسرا ملک پاکستان کو ایسا معاہدہ کرنے سے روکے گا۔ہر معاہدہ ایک یادوسری شکل میں ں ایک ملک کے حق میں اور دوسرے کے خلاف ہوتا ہے۔دنیاایک منڈی ہے جہاں تمام مصنوعات فروخت ہوتی ہیں،اگر ایک ملک کی مصنوعات خریدنے کو ایک ملک ہاں کرتا ہے تو اس کے سیدھے معنے یہ ہوتے ہیں کہ اسی قسم کی اشیاء وہ دوسرے ملک سے نہیں خریدے گا۔اسلحے کے بڑے بیوپاری دو چار ملک ہیں۔ان میں سے ہر ایک کی کوشش ہے کہ اس کا گاہک ہاتھ سے نہ نکلے۔فرانس کچھ عرصہ پہلے امریکہ سے ناراضگی کا اظہار کرتا دیکھا گیا کہ اسے برطانیہ اور امریکہ نے آسٹریلیا کو ایٹمی آبدوز کے سودے میں الگ کر دیا تھا۔اسی طرح جب ترکی نے امریکہ کی بجائے روس سے میزائل شکن سسٹم خریداتو گویا امریکی سسٹم نہیں بکا،اور اس نے شدید غم و غصہ دکھایا۔یہ چھوٹی چھوٹی رنجشیں بڑھ کر ملکوں کے لئے بڑے مسائل بن جاتی ہیں۔ پاکستان کس کیمپ میں ہے؟ یا کس کیمپ میں رہے گا؟والی فضول بحث سے بہت پہلے چھٹکارہ حاصل کر چکا ہے۔ایٹمی دھماکہ اس سلسلے میں آخری فیصلہ کن لمحہ مانا جاسکتاہے۔ اب تو پاکستان دفاعی اسلحہ سازی کے شعبے میں بہت آگے نکل چکا ہے۔امریکہ کو ”نو مور“اور”ایبسولیوٹلی ناٹ“جیسے جوابوں کے پس پردہ یہی قوت کار فرما تھی۔اس تناظر میں یہ سمجھنا کہ پاکستان اپنے مفادات سے آنکھیں بند کر کے امریکی کیمپ یا بلاک کا حصہ بنا رہے گا تو یہ خیال غیر حقیقت پسندانہ ہوگا۔ اب سی پیک پاکستان کا اوڑھنا بچھونا ہے، فروری کے پہلے ہفتے میں وزیراعظم عمران خان کے دورہئ چین سے واضح ہوجائے گا کہ پاکستان نے مستقبل کے حوالے سے کیا فیصلہ کیا ہے؟ویسے بھی یہ کوئی دانشمندی نہیں کہ کسی ملک کے تھنک ٹینک ہمسایہ ملکوں سے بگاڑ اور دشمنی کی قیمت پر ہزاروں میل دور واقع ملک سے دوستی کے دعوے کرتے پھریں۔پشاور کے قریب بڈہ بیر کا ہوائی اڈہ امریکہ کو دے دیں کہ وہ روس کی جا سوسی کر سکے اور روس کی ناراضگی پاکستان کے حصے میں آئے۔پاکستان نے اس غلط حکمت عملی کی بھاری قیمت چکائی ہے اپنا مشرقی بازو گنوا دیاہے۔اس غلطی کا اعادہ ممکن نہیں۔ویسے بھی اس خطے کا منظر اس حد تک تبدیل ہوگیاہے کہ پیچھے پلٹ کر دیکھنے والے کو ماضی کا کوئی نشان، ماضی کی کوئی علامت نظر نہیں آئے گی۔ ایران میں امریکی مفادات کے نگراں شہنشاہ ایران عرصہ ہوا اس جہانِ فانی سے جا چکے۔ ان کے صاحبزادے کے بارے میں کوئی ایرانی نوجوان نہیں جانتا کہ کہاں رہائش پذیر ہے۔انقلاب ایران آج ایک تاریخ حقیقت ہے، امریکہ اپنیتمام تر سیاسی بصیرت، معاشی قوت اور اسلحہ کے جاہ و جلال سمیت ایران کی سرزمین پر قدم نہیں رکھ سکا۔عراق نے 8سال تک امریکی فرنٹ میں کا کردار ادا کیا، انجام کار پرائی جنگ میں جل کر خاک ہو گیا۔پاکستان نے سقوطِ ڈھاکہ سے سبق سیکھا، اپنا سیاسی قبلہ درست کیا اور خاموشی سے اپنی بقاء کے لئے یکسو ہو گیا۔اس د وران پہلے روس افغانستان میں داخل ہوا لیکن دس سال میں جان لیاکہ افغان عوام کے عزم کو شکست دینا اس کے بس کی بات نہیں۔اور اس کے کچھ عرصہ بعد امریکہ افغانستان کو پتھر کے زمانے میں پہنچانے کانعرہ لگاتا ہوا کود پڑا۔20سالہ تباہ کن جنگ کے بعد 31اگست2021کو کابل ایئرپورٹ خالی کی۔اپنے پیچھے افغانستان کو پتھر کے زمانے میں پہنچانے کی ذمہ داری داعش اور القاعدہ کو سونپ آیا۔ خود قرب و جوار میں اپنے لئے ایک ایئر بیس کی تلاش میں ہے جہاں سے اس خطے کی فضائی نگرانی کر سکے۔اس کے سر سے عالمی حکمرانی کا سودا نہیں اترا۔جو بائیڈن جسے امریکی صدر بھی اپنے پیش رو جیسے بیان دینے لگے ہیں۔ابھی تو امریکی نوجوانوں کے نگاہوں سے وہ مناظر بھی غائب نہیں ہوئے، جس میں امریکیوں کے جہازوں کے فضاء میں بلند ہوتے ہی افغانیوں کی لاشیں گرتی دیکھی گئی تھی۔ دل دہلا دینے والے مناظر تھے، حساس دل انسان برسوں نہیں بھولتے۔امریکہ نے شاید اس خیال سے افغانستان کے اربوں ڈالر کے اثاثے منجمد کر رکھے ہیں کہ افغانی امریکہ کی جانب سے اثاثے روکے جانے سے امریکہ کی ہاں میں ہاں ملانے لگیں گے تو یہ ان کی بھول ہے۔ امریکیوں کو ذرا سا بھی احساس ہوتا تو وہ یہ تکلیف دہ فیصلہ نہ کرتے، جبکہ افغان عوام شدید سرد موسم میں غذا اور ادویات کو ترس رہے ہیں۔ کابل میں افغان خواتین امریکہ مخالف ریلیاں نکانے پر مجبور ہیں۔ امریکی تھنک ٹینک اگر یہ سمجھتے ہیں یہ سخت جاں لوگ موسمی شدائد سے گھبرا کر امریکی شرائط تسلیم کر لیں گے۔ تو وہ غلط سوچ رہے ہیں،امریکہ یہ نہ بھولے کہ دوحہ مذاکرات کی درخواست کے لئے امریکی افسران بیتاب تھے،افغان طالبان کو اس ضمن میں کوئی جلدی نہیں تھی۔واضح رہے افغانیوں نے امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے خلاف 20 سال میدان جنگ میں لڑ کر یہ جنگ جیتی ہے،ممکن نہیں کہ چند ارب اثاثوں کے لئے امریکی شرائط مان لیں گے۔انہیں مکھن لگے سلائس کی ضرورت نہیں ہوتی،روکھی سوکھی کھا کر جی لیتے ہیں۔افغان عوام کے اثاثے روک کر امریکہ افغان عوام کی نفرت کو مزید گہرا کر رہا ہے، اور نفرت اس فصل کوامریکہ خود ہی مستقبل میں کاٹے گا۔افغان عوام اس مشکل وقت سے دیگر اقوام کی مد دسے با آسانی نہ سہی کچھ دشواری کے بعد ہی سہی گزر تو جائیں گے۔لیکن اس قسم کا متعصبانہ امریکی رویہ ان کے دل پر نقش ہو کر رہ جائے گا۔امریکہ بعد میں اس غلطی کی اصلاح کرنا چاہے گا، تب بھی اس کے لئے ممکن نہیں ہو سکے گا۔دل کے گھاؤکرنسی نوٹوں اور ڈالروں سے نہیں بھرا کرتے۔ امریکہ سے اقوام متحدہ بھی اپیل کر رہی ہے، کل یہ اپیل اپنے معانی اور مفہوم سے بے نیاز ہو جائے گی۔افغان عواماپنے ہمسایہ ممالک کے تعاون، اپنی تجارت اور معدنی وسائل کی مدد سے اپنے مسائل حل کرنے کے قابل ہوجائیں گے۔یاد رہے کسی قوم پر مشکل وقت ہمیشہ نہیں رہتا، آسان وقت بھی آتاہے، امریکہ اتنا ظلم نہ کرے کہ کل افغانیوں سے آنکھ نہ ملا سکے!

اپنا تبصرہ بھیجیں