عام آدمی سے ناممکن العمل احتیاط کی توقع؟

ملک بھر کے تقریباً تمام اخبارات کی شہ سرخی تھی:”عوام نے پہلے روزے ذمہ داری کا مظاہرہ نہیں کیا“۔شکایت کنندہ وفاقی حکومت ہے۔بازاروں میں عوام کا رش تھا۔کورونا وائرس سے بچاؤ کی اہم ترین احتیاط۔۔۔ 6فٹ کاسماجی فاصلہ۔۔۔ کہیں دیکھنے میں نہیں آیا۔لوگ ٹھیلوں پر ایک دوسرے سے کندھا ملا کھڑے خریداری کرتے دیکھے گئے۔جب لاک ڈاؤن پر سختی سے عمل کرتے ہوئے 5بجے شام مارکیٹیں بند کرانے کے پولیس کی گاڑیاں سائرن بجاتی ہو ئی گشت کرنے لگیں تو اعتراض کرنے والے خود سوچیں عوام خریداری کے لئے عالمی ادارہئ صحت کی جاری کردہ احتیاطی تدابیر پر کیسے عمل کر سکتے ہیں؟روزہ دارتراویح اور سحری کی وجہ سے رات کو کم سوتا ہے لہٰذا مارکیٹ کھلتے ہی خریداری کے لئے نہیں پہنچے گابہت جلدی کرے تب بھی 3بجے کے بعد ہی گھر سے نکلے گا۔اب گنتی کے چند ٹھیلے والوں سے پھل خریدنے کا کام ہجوم کی شکل میں جمگھٹا لگا کر ہی کیا جا سکتا ہے۔اسے آپ غیر ذمہ دارانہ رویہ کہیں یا کوئی اور نام دیں سرکاری منصب پر بیٹھیں،آپ کے کہے کو میڈیا نے من و عن چھاپنا ہے۔یادرہے یہ رمضان کا مہینہ ہے اس مہینے میں روزہ داروں کو خریداری کے دو گھنٹے دے کر کسی احتیاطی تدبیر پر عمل کی توقع نہیں کر سکتے۔ وزیر اعظم کے معاونِ خصوصی ڈاکٹر ظفر مرزا ہوں یا ڈاکٹروں کی تنظیمیں اپنا شوق پورا کرکے دیکھ لیں صرف بیان بازی کافی نہیں زمینی حقائق سے آنکھیں بند نہیں کی جا سکتیں رمضان کے دوران مارکیٹ کے اوقات شام3بجے سے رات10بجے کر دیئے جائیں، افطاری کے بعد خریداری کے لئے لوگوں کو وقت مل جائے گا،سارا رش پھل کے ٹھیلوں پر نہیں ہوگا۔سہولت سے ہر شخص اپنی ضرورت کی اشیاء خرید سکے گا۔مساجد میں اب تراویح کی سہولت گنتی کے چند نمازیوں کو حاصل ہے وہ گہما گہمی اس سال ممکن نہیں اگر کورونا سے ہونے والی ہلاکتوں میں مطلوبہ کمی نہ آئی تو یہ پابندی آئندہ برس بھی لگ سکتی ہے۔اس لئے طویل المدت منصوبہ بندی کی جائے۔امریکامیں اب بھی روزانہ2ہزار سے زائد ہلاکتیں کورونا کی وجہ سے ہو رہی ہیں (مجموعی تعداد 53ہزار سے تجاوز کر چکی ہے)امریکی حکومت نے 50ریاستوں میں سے صرف 3ریاستوں میں جزوی طور پر کاروبار کی اجازت دی ہے۔بھارت میں چھوٹی دکانیں کھولنے کی اجازت ہے، ممبئی میں دنیا کی بڑی کچی آبادی وائرس کا گڑھ بننے لگی ہے۔البتہ چین میں 10ویں روز بھی کورونا سے کوئی موت نہیں ہوئی۔مگر یہ بھی سچ ہے کہ چین جیسا نظم و ضبط قائم کرنا دنیا کے کسی دوسرے ملک میں ممکن نہیں۔ اگر پی ٹی آئی کی حکومت صدق دل سے چاہتی ہے کہ عوام اس کی خواہش اور میڈیکل ضرورتوں کے مطابق احتیاطی تدابیر اختیار کریں تو اسلام آباد کے علاوہ چاروں صوبائی حکومتوں کو یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ پاکستان میں بسنے والے عوام انسان ہیں موسمیاتی شدت سے متأثر ہوتے ہیں،شدید سردی میں اور شدید گرمی میں گھروں سے نکلنا ان کے لئے بیماری کا باعث بنتا ہے، سردیوں میں نزلہ، زکام اور نمونیہ کا شکار ہو جاتے ہیں اور شدید گرمی میں ہیٹ اسٹروک(لُو) کا خطرہ رہتا ہے۔ مئی کی گرمی ناقابل برداشت ہوتی ہے اس کو نظر انداز نہ کیا جائے۔حکومت کچھ بھی کر لے اس گرمی میں روزہ دار گھر سے نہیں نکلے گا۔اس صورت حال سے نمٹنے کا ایک ہی راستہ ہے: مارکیٹ کھلنے اور بند ہونے کے اوقات کو حقیقت پسندانہ بنایا جائے۔شہروں میں زندگی راتوں کو جاگتی ہے،کراچی روشنیوں کا شہر کہلاتا تھاکورونا وائرس سے لوگوں کا مزاج نہیں بدلا۔مرزا غالب حقیقت پسند اور فطرت شناس شاعر تھے،عمر کی پرواہ کئے بغیر کہا:
جی چاہتا ہے پھر وہی فرصت کے رات دن
بیٹھے رہیں۔۔۔۔تصورِ جاناں کئے ہوئے
حکومت تسلیم کر لے کہ رمضان کے تقاضے کچھ اور ہوتے ہیں،سحری اور افطاری ہی سب کچھ نہیں ہوتے،رات کی چہل پہل بھی اس کا حصہ ہے۔انسان اور جانورمیں تمیز کی جائے انسان کھانے پینے کے علاوہ بھی کھیل کود گپ شپ اپنے ہم عمروں سے میل ملاپ،جی بھر کے نہ سہی، مقدور بھر ہنسی مذاق کے بغیر بیمار ہو جاتا ہے۔ڈاکٹر اب بھی مریضوں کو مشورہ دیتے ہیں کہ چہل قدمی (مناسب رفتار سے واک)ضرور کی جائے، اسے بہترین ورزش کہا جاتا ہے۔اس کرفیو زدہ ماحول نے انسان سے یہ مفت کی مگر انمول تفریح چھین لی ہے۔حکومت کورونا سے بچنے کے لئے احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کا مشورہ دیتے وقت یہ کہنا نہ بھولے کہ احتیاطی تدابیر کے ساتھ اپنی جسمانی اور ذہنی صحت کے لئے پارکوں میں واک کے لئے ضرور جائیں۔پارک کھولے جائیں لوگوں میں جینے کی امنگ برقرار رکھی جائے جینے کی امنگ نہ رہی تو لوگ کرونا کے بغیر بھی مرتے رہیں گے۔ڈاکٹر ظفر مرزا اور دیگر ڈاکٹر صاحبان پاکستانی عوام سے جینے کا حق نہ چھینیں۔رمضان اور مئی کی گرمی بھی سامنے رکھیں مارکیٹیں کھلنے اور بند کرنے کے اوقات ان دو حقائق کو دیکھ کر طے کریں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں