2014کی پانامہ لیکس کے بعد سوئس لیکس

آج سے آٹھ سال قبل 2014 میں پانامہ لیکس کے نام پر دنیا بھر کے ایسے افراد کی فہرست منظر عام پر آئی تھی جو آف شور کمپنیوں کے ذریعے اپنے ملکی کی ناجائز اور غیرقانونی دولت سے کاروبار کر رہے تھے یامہنگی جائیدادیں خرید رکھی تھیں۔اس فہرست میں پاکستان کے اس وقت کے وزیراعظم نواز شریف اور ان کے خاندان کا نام بھی دیگر پاکستانیوں کے ساتھ شامل تھے۔وزیر اعظم (آج کے سابق، عدالتوں سے سزا یافتہ، اورقانونی زبان میں ”مفرور“،مقیم لندن)نوازشریف پانامہ لیکس میں ظاہر کی گئی لندن والی جائیداد کی ملکیت تسلیم کرنے کے باوجودخریداری میں استعمال شدہ دولت کے ذرائع کسی عدالتی فورم پرپیش نہیں کرسکے۔سوئس بینکوں میں پاکستان کے حکمرانوں، جرنیلوں اور بیوروکریٹس کے حوالے سے نہ صرف اطلاعات پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر دہائیوں پہلے آچکی ہیں۔پی پی پی کے ایک وزیر اعظم (یوسف رضاگیلانی) کو عدالتی حکم کے باوجود سوئس عدالت کو خط نہ لکھنے پر ”توہین عدالت“کی چند منٹوں کی ”سزا“ سناکر وزارت عظمیٰ سے معزول کر دیا گیا تھا۔ان کے جانشین راجہ پرویز اشرف بنے۔ خط نہ لکھنے کی وجہ یہ تھی کہ مقدمے کے ملزمان میں اس وقت کے صدر پاکستان (آصف علی زرداری) شامل تھے۔علاوہ ازیں اس ضمن میں مبہم قانون بھی مددگار ثابت ہوا۔ سوئس لیکس میں لیفٹننٹ جنرل(ر)عبدالرحمٰن اختر کے تین صاحبزادوں اور واپڈا کے سابق چیئرمین زاہدعلی اکبر کانام بھی موجود ہے۔واضح رہے پانامہ لیکس کی طرح سوئس لیکس کے منظرِ عام پر آنے میں پاکستان کے کسی ادارے کا کسی قسم کاکوئی کردارنہیں۔یورپی اور امریکی معاشرہ ان ”دونمبری“سرمایہ کاروں کے منفی اثرات سے جان چھڑانے کے لئے تمام فہرستیں خود ہی ”لیک“ کی ہیں۔جن ملکوں میں قانون کی بالادستی قائم ہے،وہاں حکمرانوں اپنی غلطی تسلیم کی،دونمبر کمائی سے بنائے گئے اثاثے قومی خزانے میں جمع کرائے اورخاموشی سے اپنے گھر چلے گئے۔کسی نے سڑکوں پر آکر ”مجھے کیوں نکالا؟“جیسی دردناک فریاد نہیں کی۔عدالتوں (اور معززججز) کے اختیارات اور بینچ ممبران کے اختیارات کو چیلنج نہیں کیا،ان کی بیہودہ ویڈیوز(غیر مصدقہ)کی مددسے کسی جج کی کردار کشی نہیں کی۔یادرہے، یہ اعزاز صرف پاکستانی حکمرانوں کو حاصل ہے۔سوئس لیکس کا ایک اضافی فائدہ پاکستان کو یہ بھی ملے گاکہ بعض پرانی فائلیں ایک بارپھر کھل جائیں گی۔سرد خانے میں ڈالے گئے مقدمات کو نئی زندگی ملے گی،بدلے ہوئے حکومتی رویئے اور عدالتی موڈ کے باعث امید کی جا سکتی ہے کہ اس بار مقدمات کا فیصلہ ماضی سے مختلف ہو۔سوئس لیکس کے منظر عام پر آنے کے بعد اپوزیشن میں شامل دونوں بڑی جماعتوں کی مشکلات بڑھ جائیں گی۔یہ بھی ممکن ہے کہ سوئس لیکس کی وجہ سے ان کی عدالتی مصروفیات میں اس قدر اضافہ ہوجائے کہ وہ عدم اعتماد کی تحریک پارلیمنٹ میں جمع کرانے سے خود ہی دست بردار ہوجائیں یا انہیں حالات کا جبرملاقاتوں سے بھی روک دے۔آثار سے یہی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ آنے والے دنوں میں حالات بہت بلکہ ناقابلِ تصور تیزی سے تبدیل ہوں گے۔جاری کردہ آرڈیننس کو اس سمت میں پہلا قدم سمجھا جائے۔سوشل میڈیا پر کوئی من گھڑت اوربے بنیاد ایسی اطلاع جس سے کسی کی کردار کشی نظر آئے، وائرل کرنے سے پہلے متعدد بار سوچنا پڑے گا،ہر شخص جس کے خلاف جو چاہے پوسٹ کرنے کا سلسلہ دھیما پڑ جائے گا۔یہ ایک آرڈیننس کا اجراء نہیں، اس پر عملدرآمد کا عزم بھی جھلک رہا ہے۔حکومتی لب و لہجہ تماش بین سمجھیں یا نہ سمجھیں، اصل کردار حد درجہ چوکنا ہو جائیں گے۔اس لئے کہ آرڈیننس کی زبان مبہم اور ذو معنی نہیں۔اسے سمجھنے کیلئے کسی ماہر قانون کی ضرورت نہیں۔اس آرڈیننس کے خلاف سیاسی، صحافی اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے کوئی احتجاج کی کال نہیں دی، عدالت جانے کا اعلان کیا ہے۔ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان، اے پی این سی، سی پی این ای،پی ایف یو جے اور دیگر صحافتی تنظیموں نے صرف مذمت کی ہے۔گویا اس ضمن میں جو کرنا ہے، عدالت کرے گی۔یہ رویہ ماضی سے خاصا مختلف ہے۔ ماضی میں فوراًاحتجاج کی کال دی جاتی تھی۔رویئے کی اس تبدیلی کی وجوہات سے ہر شخص با خبر ہے۔اول یہ کہ حکومت نے حلف برادری کے فوراً بعد یہ آرڈیننس جاری نہیں کیا۔ یہ قدم اقتدار میں ساڑھے تین سال رہنے کے بعد اٹھایا ہے۔عجلت پسندی سے کام نہیں لیا،سوچ سمجھ کر فیصلہ کیا گیا ہے۔دوم یہ کہ قانون کی زبان بڑی سادہ ہے۔چنانچہ آرڈیننس پڑھ کرسب جان گئے ہیں کہ احتجاج کا راستہ درست نہیں۔ تمام حلقوں کا خیال ہے کہ عدالت جانا بہتر ہے۔اب عدالت اس آرڈیننس کا آئینی اورقانونی لحاظ سے جائزہ لے گی۔سیاسی حوالے سے دیکھنا اور جائزہ لینا پارلیمنٹ (مقننہ)کا کام ہے۔پارلیمنٹ میں اپوزیشن قانون سازی میں سنجیدہ نظر نہیں آتی۔شور شرابا،ہلڑ بازی اور بائیکاٹ اپوزیشن کے مرکزی عناصر ہیں۔پارلیمنٹ کو تسلیم کرنا چاہیئے کہ قانون سازی کا کام اس کی بنیادی ذمہ داری ہے،اسے خود ہی یہ کام کرنا چاہیئے،ہر معاملے میں عدلیہ سے مدد طلب کرنا عدالت پراضافی بوجھ ڈالنے کے مترادف ہے۔عدلیہ کو اپنا کام کرنے دیا جائے، پارلیمنٹ اپنے بنیادی کام سے فرار کی راہ اختیار نہ کرے۔ملک کے داخلی اورخارجی مسائل اور معاملات سے آنکھیں بند نہ کی جائیں۔جنگ کے بادل خطے پر منڈلا رہے ہیں۔معیشت کی حالت ناگفتہ بہ ہے۔اپوزیشن تذبذب کا شکار ہے۔کوئی واضح حکمت عملی دینے کی پوزیشن میں نہیں۔لانگ مارچ کا فیصلہ واپس لینا معنی خیز ہے۔عدم اعتماد کے لئے اراکین کی مطلوب تعداد حامی بھر لے تب بھی یقین نہیں کہ فون کال
کے بعد کیا ہوگا؟ان ہاؤس تبدیلی بھی بچوں کا کھیل نہیں، جانشین وزیر اعظم کون ہوگا؟ اس سوال کا جواب اپوزیشن کے پاس موجود نہیں۔اگر وزارت عظمیٰ پر پی پی پی یا نون لیگ میں سے کوئی امیدوار ہے تو حکومتی اتحادیوں اورپی ٹی آئی کے ارکان کو ان ہاؤس تبدیلی سے کیا ملے گا؟اس بارے پی ڈی ایم کچھ کہنے کو تیار نہیں۔بلوچستان میں ان ہاؤس تبدیلی آئی، ماضی قریب کا واقعہ ہے،اس تبدیلی کے رموز و اسرارسے سب واقف ہیں۔ناراض اراکین اسمبلی ناراضگی کا کھل کر اظہارکر رہے تھے۔ جبکہ سٹنگ گورنمنٹ اپنی کوششوں کے باوجود اکثریت سے محروم ہوگئی۔پی ڈی ایم ابھی تک حکومت سے ناراض اراکین کوحکومت مخالف گفتگو کرتے ہوئے نہیں دکھا سکی۔بقول اسپیکر پنجاب اسمبلی چوہدری ظہور الٰہی:”ابھی سامان اکٹھا کیا جارہا ہے، پکنا شروع ہوگا تو چاروں طرف خوشبو پھیل جائے گی“۔

اپنا تبصرہ بھیجیں