شہباز شریف کا متنازعہ انٹرویو

مسلم لیگ ن کے صدر سابق وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف کی بات چیت پر مبنی ایک کالم کے مندر جات سیاسی حلقوں میں زور وشور سے زیر بحث ہیں۔کالم نگار کے مطابق شہباز شریف کا کہنا ہے کہ عام انتخابات سے چند دن قبل تک طاقتور حلقوں سے ان کی بات چیت جاری تھی یہاں تک کی کابینہ کے لئے نام بھی طے کر لیئے گئے تھے۔دوصحافیوں نے انہیں آکر پیغام بھی دیا کہ اگلے وزیراعظم وہی ہوں گے شہباز شریف کا کہنا ہے کہ چونکہ ان کے بھائی نواز شریف کابیانیہ اسٹیبلشمنٹ سے مختلف تھا اور وہ خود بھائی سے الگ ہونے کو تیار نہ تھے اس لئے حکومت ان کی بجائے عمران خان کو دے دی گئی۔اس مقابلے پر مختلف ٹی وی چینلوں میں بحث جاری ہے لیکن شہباز شریف یا مسلم لیگ ن کی طرف سے ان باتوں کی کوئی خاطر خواہ وضاحت نہیں کی گئی ہے شہازشریف کا بیان ایک جانب اسٹیبلشمنٹ پر براہ راست الزام تراشی ہے جو اس سے پہلے بھی ہوتی رہی ہے اور اس بات کی ضرورت ہے کہ آئی ایس پی آر کی طرف سے شہباز شریف کے الزامات کا نوٹس لیا جائے اور اس بارے میں وضاحت جاری کی جائے پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک میں سیاسی معاملات میں اسٹیلشمنٹ کی دلچسپی کوئی انہونی بات نہیں لیکن ایک بڑا مسئلہ یہ ہے کہ شہباز شریف اور ان کی پارٹی کس حیثیت میں طاقتور حلقوں سے مذاکرات کررہی تھی۔ اور پھر یہ ووٹ کو عزت دو کا بیانیہ کس کے لئے تھا۔ عمران خان کو سلیکٹڈ قرار دینے والے بھی اگر اقتدار میں آنے کے لئے طاقتور حلقوں سے بات چیت کررہے تھے تو سوئلین بالادستی کا نعرہ صرف عوام کو بیوقوف بنانے کے لئے لگایا جارہا تھا شہباز شریف کے بیان سے پہلے بھی شریف خاندان کی جمہوریت نوازی کی حقیقت واضح تھی۔پاکستان کے عوام اچھی طرح جانتے ہیں کہ جنرل ضیاء الحق کے پالے ہوئے سیاستدان سویلین بالادستی اورجمہوریت صرف اپنی حکمرانی کو ہی قرار دیتے ہیں لیکن شہباز شریف نے تازہ ترین بیان دے کر اس بات پر مہر تصدیق ثبت کردی ہے کہ شریف خاندان کو جمہوریت یا عوام کی حکمرانی سے قطعی کوئی دلچسپی نہیں ووٹ کو عزت دو کا نعرہ لگانے والے ووٹ اور ووٹر کو خود ہی بے توقیر کرتے ہیں ان لبرلز کی بھی اب عقل ٹھکانے آجانی چاہیے جو نواز شریف اور ان کی پارٹی کو پاکستانی عوام کے حقوق اور جمہوریت کیلئے نجات دہندہ کا درجہ دینے پرمصر ہیں۔حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کی کوئی بھی روایتی سیاسی جماعت جبر واستحصال کے موجودہ نظام کو ختم کرنا نہ چاہتی ہے نہ ہی اس کی اہلیت رکھتی ہے پاکستان کے عوام صرف محنت کشوں کی قیادت میں جدوجہد کے ذریعہ ہی جمہوری حقوق حاصل کرسکتے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں