حکومت معاشی اشاریوں سے مطمئن مگر

مروجہ معاشی اشاریوں کے بارے میں عوام اورحکومت کی رائے کبھی یکساں نہیں رہی اس لئے کہ دونوں کی مشکلات الگ ہیں۔عوام کی آمدنی محدوداور ماہانہ اخراجات اسی سے پورے کرنا ہوتے ہیں۔مہنگائی بڑھ جائے تو عام آدمی کا بجٹ بری طرح اپ سیٹ ہوجاتا ہے۔اور ذخیرہ اندوزوں کی ہوس زر کے باعث مختصر وقفوں بعد بنیادی اشیائے خورد و نوش کی بلیک میلنگ نے عام آدمی کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔گزشتہ ڈیڑھ سال میں متعدد بار آٹا، چینی اورٹماٹروں جیسی روزمرہ استعمال ہونے والی سبزی کی قلت اورقیمتوں میں بے تحاشہ اضافے سے حکومت کے خلاف غم و غصہ بڑھا ہے حکومت کو بھی اندازہ ہے اب اس کے آثار کابینہ کے اجلاس تک پہنچ گئے ہیں۔بجلی کے ٹیرف میں حالیہ اضافے پر وفاقی وزیر عمرایوب سے ایک وزیر الجھ پڑے وزیر اعظم کو مداخلت کرنا پڑی انہوں نے عمر ایوب کو بہتر اقدامات کی تاکید کی۔اپوزیشن مہنگائی کے ایشو پر عام آدمی کی ہمدردی حاصل کرنے کے لئے احتجاج کی منصوبہ بندی میں مصروف ہے۔بلکہ اس کی ابتداء کردی گئی ہے۔پی پی پی جمعیت علماء اسلام اور جماعت اسلامی نے عوامی رابطہ مہم کے ذریعے حکومت پر دباؤ بڑھانا شروع کر دیا ہے۔بلدیاتی انتخابات بھی قریب آگئے ہیں، حکومت ٹال مٹول سے کام لے گی تو عدالت حکم آجائے گا۔پنجاب میں تاحال پی ٹی آئی عام آدمی کی توقعات پوری نہیں کر سکی مسلم لیگ ن کی مقبولیت ابھی تک برقرار ہے یا اس میں اتنی کمی نہیں آئی جسے پی ٹی آئی آئندہ بلدیاتی انتخابات میں اپنے لئے بڑا خطرہ سمجھتی ہے۔چنانچہ اس نے 60 لاکھ صحت کارڈ پنجاب میں تقسیم کرنے کے علاوہ احساس پروگرام کے تحت دیہی خواتین میں بھینسوں، اور مرغیوں ترسیل کا آغاز کر دیا ہے اپوزیشن اس اقدام کا مذاق اڑا رہی ہے بعض معاشی ماہرین بھی اسے ناکافی اقدام قرار دیتے ہوئے بہتر معاشی پالیسی پر زور دے رہے ہیں وہ سمجھتے ہیں بینکوں کی شرح سود میں کمی لائے بغیر سرمایہ کاری ممکن نہیں اس کا اعتراف گورنر اسٹیٹ بینک نے بھی کیا ہے اور شرح سود میں کمی کا عندیہ دیا ہے۔معاشی ماہرین روزِ اول سے حکومت کو سمجھاتے چلے آئے ہیں کہ اتنی بھاری شرح سود پر نہ صنعت لگ سکتی ہے اور نہ ہی کوئی کاروبا رممکن ہے۔یہ فارمولہ ماضی میں بھی آزمایاگیا تھا اور ایک غیر جمہوری حکومت نے آئی ایم ایف سے قرض کی آخری قسط لینے سے بھی منع کر دیا تھااب دیکھنا ہے کہ پی ٹی آئی کی حکومت اس امتحان سے کیسے گزرتی ہے؟کرونا وائرس کی شکل میں ایک نئی مشکل حائل ہو گئی ہے۔اس کے اثرات عالمی منڈی پر بھی مرتب ہوئے ہیں۔تیل کی قیمتوں میں کمی مثبت اثرات کی حامل ہے۔پاکستان میں چار پانچ کیسز رپورٹ ہوئے ہیں لیکن خوف زیادہ ہے۔ سندھ اور بلوچستان میں تعلیمی ادارے بند ہیں۔اسلام آباد بھی چوکنّا ہے۔کہا جا رہا ہے کہ گرمی کاموسم اس آفت کے خاتمے میں مددگار ثابت ہوگا۔گرمی دور نہیں۔حکومت کی توجہ طلباء کو وظائف کی فراہمی اور پناہ گاہوں کی تعمیر جیسے فلاحی منصوبوں پر مرکوز ہے اب 25ہزار روپے تک ماہانہ آمدنی والے خاندانوں کے لئے راشن کی خریداری میں خصوصی معاونت کا پروگرام زیر غور ہے یا اس پر کام شروع ہوگیا ہے۔ان اقدامات سے غریب خاندان کی غذائی ضروریات پوری کرنے میں ایک حد تک مدد ملے گی لیکن یاد رہے اصل کام ملکی معیشت کو اپنے پیروں پر کھڑا کرنا ہے۔بنگلہ دیش کی مثال سامنے رکھی جائے۔دیکھا جائے کہ پاکستانی صنعت کار بنگلہ دیش منتقل ہونے کے اسباب کیا تھے؟صرف دہشت گردی اور بھتہ خوری کو اس کا ذمہ دار ٹھہرانا درست نہیں۔ بجلی، گیس اور پیٹرول کی قیمتوں کافرق بھی ایک اہم فیکٹر ہے۔اسے صنعت کاروں کی دسترس میں رکھناحکومت کی ذمہ داری ہے۔ پیداواری لاگت بڑھنے سے عالمی منڈی میں مقابلہ مشکل ہو جاتا ہے۔اس سمت میں کچھ پیشرفت ہوئی ہے مگر ناکافی ہے۔ون ونڈو آپریشن کو عملی شکل دی جائے۔ہاؤسنگ پروجیکٹ تاحال زمینی حقیقت نہیں بن سکا۔معیشت کا پہیہ چلانے میں ہاؤسنگ پروجیکٹ مددگار ثابت ہوسکتا ہے مگریہ مسلسل تاخیر کا شکار ہے۔اس کے راستے میں حائل رکاوٹیں دور کی جائیں۔ پی ٹی آئی نے اقتدار تبدیلی کے نعرے کی مدد سے حاصل کیا ہے۔عام آدمی تبدیلی کا منتظر ہے۔مان لیا یہ تبدیلی راتوں رات نہیں آسکتی،لیکن ڈیڑھ سال کی مدت کم نہیں دو مہینے بعد نیا بجٹ منظور کیا جائے گاتنخواہوں میں اضافہ انتہائی ضروری ہے، عام آدمی بے چینی سے انتظار کر رہا ہے اسے مایوس نہ کیا جائے۔کراچی والوں سے ٹرانسپورٹ کے زیر تکمیل منصوبوں اور K۔فورکے حوالے سے کئے گئے وعدے پورے کئے جائیں دیگر علاقوں کی شکایات دور کی جائیں۔بلوچستان بھی حکومتی دعووں کے برعکس عدم توجہی کا شکار ہے۔ترقیاتی کاموں کی رفتار سست ہے۔ اب تو پنجاب میں بھی کچرے کے انبار دیکھے جا رہے ہیں صاف پانی کی فراہمی کا وعدہ وفا نہیں ہوا خیبر پختونخوا اسمبلی میں مسلسل احتجاج توجہ طلب ہے۔ معاشی اشاروں میں بہتری کے ثمرات عام آدمی تک پہنچائے جائیں فیصلہ اسی کو کرنا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں