اٹھارویں ترمیم ، منتقل شدہ وزارتوں کے اثاثہ جات بھی صوبوں کومنتقل کیا جائے،بلوچستان کے سیاسی رہنماﺅں کا مطالبہ

کوئٹہ :بلوچستان کے سیاسی جماعتوں نے کہا ہے کہ 18ویں ترامیم انتہائی حساس معاملہ ہے یہ وقت ان ایشوز کو چھیڑنے کانہیں بلکہ ملک اور قوم کو موجودہ بحران سے نکالنے کیلئے مشترکہ جدوجہد اور کوشش تیز کی جائے حکومت اصل مسائل سے توجہ ہٹانا چاہتی ہے این ایف سی فارمولے کو تبدیل کرنے کا عندیہ بھی قابل مذمت ہے صوبوں کو منتقل شدہ وزارتوں کے اثاثہ جات بھی صوبوں کومنتقل کیا جائے 18ویں ترامیم کیخلاف روز اول سے سازشیں کی جارہی ہیں 10سال بعد بھی اس ترامیم پر 50فیصدبھی عملدرآمد یقینی نہیں بنا یا گیا پی ٹی آئی حکومت کی جانب سے 18ویں ترامیم اور قومی مالیاتی کمیشن میں تبدیلی کا عندیہ تشویشناک ہے سلیکٹڈ حکومت باز آجائیں اصلاحات لاکر کمزوریوں کو دور کیا جاسکتا ہے لیکن اس وقت ترامیم کو چھیڑنا بھیانک اقدام ہوگا اگر 18ویں ترامیم کیخلاف کوئی اقدام اٹھا یا گیا تو ہم دیگر جماعتوں کے ساتھ ملکر تحریک چلائیں گے کورونا وائرس نے پہلے سے موجودہ مسائل میں مزید اضافہ کردیا گیا ہے ترامیم کو ا گیا تو تمام صوبے اس کی مخالفت کرینگے ان خیالات کااظہار چیف آف ساراوان سابق وزیراعلیٰ بلوچستان رکن اسمبلی نواب اسلم خان رئیسانی،نیشنل پارٹی کے سابق صدر وسینیٹر میر حاصل خان بزنجو،پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے صوبائی صدر سینیٹر عثمان خان کاکڑ،پاکستان مسلم لیگ(ق) کے صوبائی صدر شیخ جعفر خان مندوخیل،جماعت اسلامی بلوچستان کے امیر مولانا عبدالحق ہاشمی،مسلم لیگ(ن) کے سینئرنائب صدر سینیٹر سردار یعقوب خان ناصر،بلوچستان نیشنل پارٹی کے سیکرٹری جنرل سینیٹر ڈاکٹر جہانزیب جمالدینی،جمعیت علماءاسلام نظریاتی کے مرکزی کنونیئر مولانا عبدالقادر لونی،پیپلزپارٹی کے مرکزی رہنماءسابق صوبائی وزیر میر صادق عمرانی نے کیا اور 18ویں ترامیم کی تبدیلی کے عندیہ پر رد عمل کااظہار کرتے ہوئے نواب اسلم خان رئیسانی نے سماجی رابطے ویب سائٹ ٹوئٹر پیغام میں کہا ہے کہ کیوں 18ویں ترامیم اور ساتویں این ایف سی ایوارڈ خطر ے میں ہے ؟حکومت عوامی مفادات کے حفظ کی چھاپ کے تحت قوانین بنانے کے اختیارات حاصل کرنے کیلئے ا ہم امور میں ترامیم اور رول بیک کرنا چاہتا ہے جو قابل قبول نہیں ہے۔ سینیٹر حاصل خان بزنجو نے کہا ہے کہ 18ویں ترامیم میں دو اہم چیزیں تھی یہ ملک کی تاریخ کااہم موڑ تھا جب ون یونٹ ٹوٹا اور 18ویں ترامیم منظور ہوئی بنیادی طور پرصوبوں کو اختیارات دیئے گئے صوبائی خود مختیاری کی شکل میں اختیارات صوبوں کے پاس گئے انہوں نے کہا کہ دنیا کے کسی بھی ترقیافتہ ملک یورپ امریکہ بھی تمام محکمے صوبوں کے پاس ہیں جس طرح ہمارے ملک میں 18ویں ترامیم کے بعد وفاق سے صوبوں کو محکمے منتقل ہوئیں یہ ایک طریقہ پاکستان اور فیڈریشن کو مضبوط کرتا ہے جمہوریت اور فیڈریشن کی مضبوطی کی ضامن ہیں 18ویں ترامیم بہت پہلے ہونی چاہیے تھے لیکن اس وقت اس کو جھگڑا بنا لیا گیا انہوں نے کہا کہ اگر 18ترامیم کو ختم یا رول بیک کیا گیا تو پھر یہ دوبارہ نہیں بن سکی اور پاکستان کا آئین ختم ہوجائے گا کوئی مائی کا لال پاکستان کی آئین کو نہیں بنا سکتا اور اس وقت حکمران بھی اس مسئلے کو سمجھنے سے قاصر ہیں اگر 18ویں ترامیم کو زک پہنچائی گئی تو یہ نیک شگون نہیں ہوگا جو لوگ صوبوں کی حق میں کی گئی قانون سازی کو ختم کرنے کی کوشش کررہے ہیں وہ ملک کے بد ترین دشمن کہلائیں گے انہوں نے کہا کہ 18ویں ترامیم کیخلاف پی ٹی آئی قیادت کے بیانات اور میڈیا کمپین سے یہ بات واضح ہوچکی ہے کہ سلیکٹڈ حکومت مرکز اور صوبوں کے درمیان ایک بڑا خلا اور تنازعہ پیدا کرنا چاہتی ہے۔پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے صوبائی صدر سینیٹر عثمان خان کاکڑ نے کہا ہے کہ وفاقی مسلط حکومت کی جانب سے 18ویں آئینی ترامیم کو رول بیک کرنے اوراین ایف سی ایوارڈ کے فارمولے کوتبدیل کرنے کاعندیہ دینے کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے اس سے فیڈریشن ،قوموں اور محکوم اقوام کیخلاف ناروا کوشش اور عزائم قرار دیا گیا جس کیخلاف سیاسی جماعتوں ،عوام کو متحد ہوکر کھڑا ہونا ہوگا تا کہ اس سازش کو ناکام بنا یا جاسکے انہوں نے کہا ہے کہ حقیقی فیڈریشن صوبائی وخود مختاری اور قومی برابری کیلئے خان شہید عبدالصمد خان اچکزئی ہمارے آکابرین ،جی ایم سید ،فخرافغان، باچا خان،میر غوث بخش بزنجو،سردار عطاءاللہ مینگل کی جدوجہد اور قربانیاں سب سے زیادہ ہیں جنہوں نے جیل،قید وبند کی صعوبتیں برداشت کیں این ایف سی ایوارڈ میں آبادی کی بنیاد پر کم جبکہ پسماندگی اور رقبے کی بنیاد پر زیادہ حصہ ہونا چاہیے کیونکہ اس وقت بلوچستان،خبیر پختونخوا،فاٹا،گلگت بلتستان اور دیگر علاقے پسماندہ ہیں 18ویں آئینی ترامیم کو جیسے تمام ملکی پارٹیوں نے متفقہ طور پر پاس کیا گیا ہے رول بیک کرنے اور این ایف سی ایوارڈ میں رد وبدل کرنے کی کوشش کی گئی تو ملک کے محکوم اقوام وعوام وتمام جمہوری وسیاسی پارٹیاں شدید مذمت کرے گی جس سے ایک بہت بڑا آئینی بحران پیدا ہوگا اور اس بحران کا موجودہ حالات میں پاکستان متحمل نہیںہوسکتا ہے ہم 18ویں ترامیم میں زرہ برابر ترامیم کے حق میں نہیں اس وقت حکومت کو پارلیمنٹ میں اکثریت حاصل نہیں ہے لیکن وہ پارٹیوں میں توڑ پھوڑ کر کے مصنوعی اکثریت کیلئے اس ترامیم کو ختم کرنا چاہتے ہیں اس حوالے سے مسلم لیگ(ن) سے مذاکرات کررہے ہیں اگر انہوں نے 18ویں ترامیم کو ختم کرنے میں ساتھ دیا تو یہ ان کا اس ملک محکموم عوام اور قومیتوں پرظلم ہوگا۔ پاکستان مسلم لیگ(ق)بلوچستان کے صدر سابق صوبائی وزیر شیخ جعفر خان مندوخیل نے کہا ہے کہ اگر 18ویں ترامیم کو چھیڑا گیا تو اس کے بھیانک نتائج برآمدہونگے اس کے پورے اسٹرکچر کو چھیڑنے کے بجائے ہائیر ایجو کیشن اور فوڈ پیور کیورمنٹ سمیت دیگر خامیوں میں اصلاحالات لاکر کمزوریوں کو دور کیا جاسکتا ہے 18ویں ترامیم کی منظوری میں تمام پارلیمانی جماعتوں نے متفقہ طور پر اس کی منظوری دی تھی اور 10سال کا عرصہ مکمل ہونے کے بعد اس میں پائی جانے والے خامیوں کو دور کرنے کیلئے تکنیکی طور پر اصلاحات لائی جاسکتی ہے اس میں صرف ہائیر ایجو کیشن اور فوڈ پیور کیورمنٹ کے شعبوں میں اصلاحات لانے کی ضرورت ہے کیونکہ ان دونوں شعبوں میں کمزوریاں اور خامیاں نظر آرہی ہے جس کی وجہ سے وفاق اور صوبے ان دونوں کو بہتر طور پر نہیں چلا سکے جس کی وجہ سے ہائیر ایجو کیشن اور یونیورسٹی سمیت اس وزارت سے وابستہ شعبوں میں مسائل ہیں انہوں نے کہا کہ اگر 18ویں ترامیم کے اسٹرکچر کو چھیڑا گیا تو اس کے نتائج اچھے نہیں ہونگے اس وقت 18ویں ترامیم کے مسئلے کو چھیڑ مرکز کو طاقتور بنانا چاہتے ہیں جو درست نہیں پہلے ہی بہت سے خامیاں اور مسائل ہیں ان کو دور کرنے کی ضرورت ہے نہ کہ نئے مسئلے پیدا کئے جائے جس کے ملک اور قوم کیلئے بھیانک نتائج ہو اس وقت ملک اور صوبے اس طرح کی کسی بھی صورتحال کا متحمل نہیں ہوسکتے ہیں۔جماعت اسلامی بلوچستان کے امیر مولانا عبدالحق ہاشمی نے کہا ہے کہ 18ویں ترامیم کے منظوری کے وقت جماعت اسلامی کی جانب سے دیئے جانے والے اختلافی نوٹ آج بھی موجود ہیں اگر اختلافی نوٹ اور اس ترامیم کی خامیوں یا کوتاہیوں کو دور کرنے کیلئے از سر نو جائزہ لیا جائے تو کوئی قباحت نہیں لیکن اگر 18ویں ترامیم کو ختم کرنے یا رول بیک کرنے کا معاملہ ہے تو یہ کوئی اچھی روایت نہیں ہوگی اس سے فیڈریشن مزید کمزور ہوگی جو محکمے وفاق سے صوبوں کو منتقل ہوئے ہیں ان محکموں کے اثاثہ جات اختیارت اور وسائل بھی منتقل ہونے چاہیے تاحال 18ویں ترامیم کے حوالے سے اس ایشو پرکوئی معاملہ،بحث نہیں لائیں جب جماعت اس پر کوئی فیصلہ کریگی تو پھروقت اور حالات کو دیکھتے ہوئے جماعت اسلامی اپنے اصولی موقف کو عوام کے سامنے لائیگی تاحال جماعت اسلامی نے18ویں ترامیم کے حوالے سے کوئی فیصلہ نہیں کیا ۔مسلم لیگ(ن) کے سینئرنائب صدر سینیٹر سردار یعقوب خان ناصر نے کہا ہے کہ یہ وقت 18ویں ترامیم سمیت غیر حقیقی ایشوز چھیڑنے کا نہیں بلکہ ملک اورقوم کو موجودہ بحران سے نکالنے کا ہے حکومت مسائل کے حل میں مکمل طور پر ناکام رہی ہے اس لئے مختلف موقوع پر جواب دینے کے بجائے غیر ضرور ی ایشوز چھیڑ دیتے ہیںاگر 18ویں ترامیم کو چھیڑا گیا تو اس میں تمام صوبے مخالفت کرینگے یہ معاملہ اتنا معمولی نہیں بڑی سنجیدگی کا معاملہ ہے اور تمام معاملات مشاورت سے ہی تبدیل ہونگے دنیا بھر کی طرح ہمارے ملک اور بلوچستان میں لاک ڈاﺅن ہے لو گ معاشی طور پر کمزور ہوچکے ہیں اور عوام شدید خوف میں مبتلا ہیں انہوں نے کہا ہے کہ18ویں ترامیم کو چھیڑ کر مسائل پیدا نہیں کئے جائیں اور 18ویں ترامیم کے دوران جو محکمے صوبوں کو منتقل ہوئے تھے انہیں حقیقی معنوں میں ان کے اثاثہ جات کے ساتھ صوبوں کو منتقل کئے جائیں تاکہ صوبے اور اپنے امور کو بہتر طور پر چلا سکیں اور فیڈریشن یونٹوں کے ساتھ مضبوط ہو ۔بلوچستان نیشنل پارٹی کے سیکرٹری جنرل سینیٹر ڈاکٹر جہانزیب جمالدینی نے کہا ہے کہ ہمارے آج اور کل کے حکمرانوں نے ہمیشہ جان بوجھ کر نان ایشوز کو چھیڑا ہے اور اس طرح کے مسائل کو آگے بڑھا دیتے ہیں جس طرح 18ویں ترامیم کو ختم کرنے کاایشو چھیڑا گیا ہے جس کا مقصد پارلیمانی سسٹم کو نقصان پہنچا یا جائے اس وقت کورونا کا مسئلہ دنیا بھر کی طرح پاکستان اور بلوچستان میں گھمبیر صورتحال اختیار کر چکا ہے اس مسئلے سے لڑنے کی بجائے حکومت نے 18ویں ترامیم کاایشو چھیڑ دیا ہے تاکہ صوبوں کے پاس اختیارات زیادہ ہیں وہ کم ہوجائیں نظر ثانی ہونی چاہیے یا اس سے رول بیک کیا جائے اگر ایسا ہوا تو یہ تاریخی غلطی ہوگی اور اس عمل کو کوئی جماعت قبول نہیں کریگی صوبائی خود مختیاری کے تحت صوبوں کو مزیداختیارات ملنے چاہیے لیکن پی ٹی آئی کے پاس کوئی ویژن اورنہ ہی کوئی فکر نظریہ ہے ہماری ہمیشہ کوشش رہی ہے کہ چھوٹے صوبوں کے ساتھ ماضی میں ہونے والی نا انصافیوں ،نا قومی برابری کی روش اپنائی گئی تھی اس کا خاتمہ ممکن ہوسکے ترقی پسند روشن خیال جمہوری قوتیں 18ویں ترامیم کے خاتمے کی شدید مذمت کرینگے انہوں نے کہا کہ بی این پی اصولی سیاسی جماعت ہے اصولوں کی سیاست کی ہے 18ویں ترامیم کے حوالے سے حکمران پر واضح کر چکے ہیں کہ صوبوں کے اختیارات میں کمی کے حوالے سے کسی بھی قانون سازی کو برداشت نہیں کرینگے۔جمعیت علماءاسلام نظریاتی کے مرکزی کنونیئر مولانا عبدالقادر لونی نے کہا ہے کہ اگر حکومت نے 18ویں ترامیم کو چھیڑا تو ہماری جماعت سمیت دیگر سیاسی جماعتوں کے ساتھ ملکر مزاحمت کرینگے اور تحریک چلائیں گے اس وقت پوری دنیا کورونا کی وجہ سے مشکلات سے دو چار ہے پاکستان اور بلوچستان میں لاک ڈاﺅن کی وجہ سے لوگوں کا روزگار ٹھپ ہوکر رہ گیا ہے غریب دیہاڑی دار مزدور بھی مشکلات سے دو چار ہے حکومت اس وقت اس صورتحال سے نمٹنے کی بجائے ملک اور قومی سمیت سیاسی جماعتوں کو ایک نئی بحث میں مبتلا کررہی ہے اور 18ویں ترامیم میں تبدیلی اور روک بیک کرنے کا عندیہ دے رہی ہے جس سے مزید مسائل پیدا ہونگے کیونکہ 18ویں ترامیم پاکستان کی تمام جماعتوں میں متفقہ طور پر منظور کی تھی لیکن وفاقی حکومت اس کے افادیت صوبوں اور لوگوں کی مشکلات کو مد نظر نہیں رکھ رہی ہے جس کی وجہ سے 18ویں ترامیم کے بعد جو اختیارات صوبوں کو ملنے تھے وہ بھی مکمل نہیں ملیں اس وقت ترامیم کو چھیڑنے کا مقصد اصل حقائق اور مسائل سے توجہ ہٹانا ہے جس کی ہم مذمت کرتے ہیں یہ مناسب وقت نہیں اگر حکومت نے عملی طور پر کوئی اقدام اٹھا یا تو ہم اس کی بھر پورمخالفت کرتے ہوئے دیگر سیاسی جماعتوں کے ہمراہ اس کیخلاف مزاحمت کرینگے ۔پیپلزپارٹی کے مرکزی رہنماءسابق صوبائی وزیر میر صادق عمرانی نے کہا ہے کہ 18ویں ترامیم چاروں صوبوں میں متفقہ طور پر 1973کے آئین کے مطابق اتفاق کرتے ہوئے منظور کی تھی جس کا سہرا پیپلز پارٹی کی حکومت کے سر ہے صوبوں کو صوبائی خود مختیاری دی انہوں نے کہا کہ چاروں صوبوں کے وزراءاعلیٰ اور سیاسی جماعتوں کی مشاورت سے آئینی ترامیم کی موجودہ حکومت جان بوجھ کر آئینی ایشوز کو چھیڑ کر ملک کی بقاءاور سلامتی کو چھیڑنا چاہتی ہے جس سے ملک میں بے روزگاری،غربت اور معاشی مشکلات بڑھیں گی ان مسائل کی تدارک کیلئے حکومت کو اپنا کر دارادا کرنا چاہیے حکومت گھمبیر حالات کا ادراک رکھتے ہوئے بھی وفاق کی جانب سے سیاسی اسکورننگ قوم کو ایسے دو رائے پر لے آئی ہے جہاں ایک طر ف موت کھڑی ہے دوسری جانب بڑھتی ہوئی معاشی بد حالی عوام کو معاشی خود کشی کی جانب دھکیل رہی ہے ۔

اپنا تبصرہ بھیجیں