اشرف غنی طالبان کی قوت کا غلط اندازہ لگابیٹھے

افغانستان کے صدر اشرف غنی شائد طالبان کی عسکری صلاحیتوں کا درست اندازہ لگانے میں ناکام رہے وہ سمجھے کہ امن معاہدے پر دستخط کرنے کے بعد طالبان حکومت پر حملہ نہیں کریں گے وہ یہ بھی سمجھ بیٹھے کہ چونکہ معاہدہ امریکا اور افغان طالبان کے درمیان ہوا ہے ان کی حکومت اس میں براہ راست فریق نہیں تھی اس لئے وہ یہ کہہ کر قیدیوں کی رہائی سے انکار کر سکتے ہیں کہ حکومت قیدیوں کی رہائی کی پابند نہیں لیکن وہ یہ بھول گئے کہ جس کرسی پر بیٹھ کر وہ خود کو بااختیار سمجھ رہے ہیں وہ امریکا کی عطا کردہ ہے امریکا نے جس کام کی حامی بھر لی ہے،صدر اشرف غنی اس پر عمل کرنے کے اتنے ہی پابند ہیں جتنے وہ دستخط کرنے کے بعد سمجھے جاتے ایک بیوروکریٹ کی حیثیت سے انہیں یاد ہونا چاہیے عوام کی مدد سے صدارتی عہدہ بامعنی اور پٹھو صدر کایہ عہدہ بے وقعت ہوتا ہے۔دو کھرب ڈالر امریکا نے اس بے مقصد جنگ میں کھوئے ہیں جبکہ اشرف غنی صاحب نے کمایا ہے کھویا نہیں۔اصل فریق امریکا ہے جس کے ہٹتے ہی ان کی حکومت ہوامیں تحلیل ہو جائے گی۔انہیں سوچنا ہوگا کہ امریکی افواج اور ڈالروں کے بغیر افغان طالبان کی پیش قدمی کیسے روکیں گے۔امریکاجنگی وسائل کی بھرمار نیٹو افواج کی مدد اور بھاری سرمائے سمیت افغان طالبان قیادت سے طویل مذاکرات اور معاہدہ کرنے پر مجبور ہواہے تو وہ اب 14 ماہ سے زیادہ افغانستان میں نہیں ٹھہرے گا۔تاہم اشرف غنی نے پنجہ آزمائی کا فیصلہ کیا ہے تو اس کے نتائج کے لئے انہیں تیار رہنا ہوگا۔افغان طالبان کی جانب سے حکومت کے خلاف کارروائی شروع کرنے میں ایک لمحے کی تاخیر نہیں کی۔ چیک پوسٹوں اور چھاؤنی کو نشانہ بنایاامریکا نے جوابی فضائی حملے کے ذریعے طالبان جنگجوؤں کی پیش قدمی روکنے میں حکومت کی مدد توکر دی ہے لیکن اپنی 19سالہ جنگ کوغیر معینہ طول دینے کی غلطی نہیں کرے گا۔بنیادی سوال یہ کہ اشرف غنی کی حکومت امریکی مفادات کے تحفظ میں کیا کردار ادا کر سکتی ہے؟بظاہر اس کا کوئی کردار نظر نہیں آتا۔ زمینی حقائق سے یہی پیغام مل رہا ہے کہ انہیں افغانستان سے بیرون ملک ٹھکانہ تلاش کرنا ہوگا۔تعجب ہے کہ ایک بیوروکریٹ ہونے کے باوجود دشوار گزار راستے پر چلنے کی ضد کر رہے ہیں۔انٹرا افغان ڈائیلاگ معاہدے کا حصہ ہیں اور یہ عمل دیگر شرائط سے نتھی ہے۔علاوہ ازیں کوئی دانشمند شخص افغانستان میں قیام امن کی مخالفت نہیں کر رہا۔روس، چین اور پاکستان زبانی طور پر کتنا بھی کہتے رہیں کہ وہ نہ ضامن ہیں نہ ہی معاہدے کا حصہ ہیں بلکہ وہ صرف سہولت کار ہیں تب بھی صدر اشرف غنی کو سمجھ جانا چاہیے کہ نئے تناظر میں ”سہولت کاری“ سے کیا مراد ہے؟یہ خطہ امریکی مفاد کے لئے زیادہ دیر تک جنگ کا میدان نہیں رہے گا۔بھارت کی خواہش وقت کے ساتھ دم توڑ دے گی۔عبداللہ عبداللہ شائداس بار اپنا مستقبل بھارت میں گزارنا پسند نہ کریں۔اس لئے کہ طالبان کی جانب سے دی گئی معافی محدود مدت کے لئے ہے انٹرا افغان ڈائیلاگ کے بعد نہیں دی جائے گی۔ عبداللہ عبداللہ اور ان کے رفقاء عمر کے اس حصے میں افغانستان میں رہنا مناسب سمجھیں گے۔ایسے حالات میں صدر غنی اشرف بھارتی (اور ایک حد تک امریکی)درپردہ مدد کے بل پر افغان طالبان کا مقابلہ کتنا عرصہ کر سکیں گے؟ امریکا اگر کامیابی کے لئے پر امید ہوتا تو اسے طالبان کے ساتھ معاہدہ کرنے کی ضرورت نہیں تھی۔اس معاہدے کو زیادہ تر مبصرین نے امریکی ”سرنڈر“ قرار دیا ہے۔علاوہ ازیں انٹرا افغان طالبان کے دو ادوار اس سے پہلے ہو چکے ہیں لہٰذا تیسرا دور ہونے میں اشرف غنی کی حکومت رکاوٹ نہیں بن سکے گی۔امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ بھی طالبان قیادت سے ملاقات کر چکے ہیں یہ سلسلہ بھی آگے بڑھے گا۔تیسرا فیکٹر امریکا میں صدارتی انتخابات ہیں، امریکی افواج کی واپسی انتخابات سے پہلے نہ ہوئی تو صدر ٹرمپ کی ساکھ کو نقصان پہنچے گاوہ اسے ہرگزپسند نہیں کریں گے۔ اسے تاریخ کا جبر کہیں یا کوئی اور نام دیا جائے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا امریکا کی واپسی اٹل ہے اب امریکا کو فیصلہ کرنا ہے صدراشرف غنی کوکیسے سمجھائے؟ صرف آنکھیں دکھانا کافی ہوگااشرف غنی صورت حال کی نزاکت سے بے خبر نہیں انہیں معلوم ہے کہ ان کا آشیانہ شاخِ نازک پر بنا تھاتندیئ بادِ مخالف کا مقابلہ نہیں کر سکیں گے لیکن اپنے زندہ ہونے کا ثبوت دینا بھی ضروری تھادے دیا نتیجہ دیکھ لیا کہ امریکا کے فضائی حملے نہ ہوئے تو افغان طالبان کی پیش قدمی نہیں روک سکیں گے۔عین ممکن ہے کہ انٹرا افغان طالبان ڈائیلاگ میں ان کا کوئی بڑا کردار نہ ہو۔امریکا دوستیاں پالنے میں دلچسپی نہیں رکھتاشہنشاہ رضا شاہ پہلوی پر برا وقت آتے ہی اس کے لئے اجنبی بن گیا تھا،مصر میں پناہ ملی۔سعودی حکمرانوں کو ایک ہفتے میں اقتدار سے ہٹانے کی دھمکی دینے میں کسی تکلف سے کام نہیں لیا،صدر اشرف غنی،بیوروکریٹ ہونے کے ناتے ان مثالوں سے بخوبی واقف ہیں۔بقول نظیر اکبر آبادی:
سب ٹھاٹھ پڑا پڑا رہ جاوے گا جب لاد چلے گا بنجارہ

اپنا تبصرہ بھیجیں