آئین اور قانون کی حکمرانی قائم کرنے میں مداخلت نہیں کریں گے، سپریم کورٹ

اسلام آباد (انتخاب نیوز) سپریم کورٹ آف پاکستان نے کہاہے کہ عدالت قانون سازی میں مداخلت نہیں کرنا چاہتی، آئین اور قانون کی حکمرانی قائم کرنی ہے، عدالت نیب ترامیم کے خلاف درخواست کے کیس میں بہت احتیاط سے کام لے گی ،صرف بنیادی حقوق کے خلاف ترامیم ہونے کے نکتے کا جائزہ لیں گے، ترامیم احتساب کے عمل سے مذاق ہوئیں تو بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہوگی، اکثر ترامیم میں ملزمان کو رعایتیں بھی دی گئی ہیں،سابق حکومتی جماعت کے 150 ارکان اسمبلی بائیکاٹ کر کے بیٹھے ہیں، پی ٹی آئی کو کہا تھا اسمبلی جا کر اپنا کردار ادا کریں، اسمبلی میں موجود ارکان کو اپنے فائدے کی قانون سازی نہیںکرنا چاہیے،آئین کے تحت چلنے والے تمام اداروں کو مکمل سپورٹ کریں گے، عدالت غیر معمولی حالات میں کیس سن کر مزے نہیں لے رہی جبکہ پاکستان تحریک انصاف کے چیئر مین عمران خان کے وکیل نے عدالت سے تحریری دلائل جمع کرانے کےلئے وقت مانگ لیا ۔چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس اعجازالاحسن اور جسٹس منصور علی شاہ پر مشتمل سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے نیب قانون میں تبدیلی کے خلاف درخواست پر سماعت کی۔دوران سماعت عمران خان کے وکیل نے عدالت سے تحریری دلائل جمع کرانے کےلئے وقت مانگ لیا۔چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ اعلی عدلیہ اپنے فیصلوں میں نیب قانون پر تنقید کرتی رہی ہے، 90 روز کا ریمانڈ کہیں نہیں ہوتا، فوجداری کیسز میں 14 روز سے زیادہ کا ریمانڈ نہیں ہوتا۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ عدالت سیاسی معاملات میں مداخلت سے گریز کرے گی، صرف بنیادی حقوق کے خلاف ترامیم ہونے کے نکتے کا جائزہ لیں گے، ترامیم احتساب کے عمل سے مذاق ہوئیں تو بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہوگی، اکثر ترامیم میں ملزمان کو رعایتیں بھی دی گئی ہیں۔چیف جسٹس نے کہا کہ پلی بارگین کرنے والے کے شواہد کو ہی ناقابل قبول قرار دیا گیا ہے، فوجداری نظام میں گرفتاری کی ممانعت نہیں ہے، گرفتاری جرم کی نوعیت کے حساب سے ہوتی ہے۔اس موقع پر وفاقی حکومت کے وکیل مخدوم علی خان نے کہاکہ ملزمان بری ہوجاتے ہیں لیکن پھر بھی ان پر سے الزامات کے داغ نہیں دھلتے، اعلیٰ عدلیہ نیب عدالت کی سزائیں برقرار نہیں رکھتی۔چیف جسٹس نے کہاکہ ملک غیر معمولی حالات سے گزر رہا ہے، سابق حکومتی جماعت کے 150 ارکان اسمبلی بائیکاٹ کر کے بیٹھے ہیں، پی ٹی آئی کو کہا تھا اسمبلی جا کر اپنا کردار ادا کریں، اسمبلی میں موجود ارکان کو اپنے فائدے کی قانون سازی نہیںکرنا چاہیے۔چیف جسٹس نے کہا کہ آئین کے تحت چلنے والے تمام اداروں کو مکمل سپورٹ کریں گے، عدالت غیر معمولی حالات میں کیس سن کر مزے نہیں لے رہی۔جسٹس منصور علی شاہ نے کہاکہ عدالت کے باہر سیاسی موسم تبدیل ہوتا رہتا ہے، کیا سیاسی موسم کا عدالت کے اندر اثر ہونا چاہیے؟ کیا عدالت میں صرف آئین اور قانون کا موسم نہیں رہنا چاہیے؟۔بعد ازاں کیس کی مزید سماعت یکم ستمبر تک ملتوی کر دی گئی۔خیال رہے کہ مسلم لیگ (ن) کی قیادت میں اتحادی حکومت نے احتساب آرڈیننس میں 27 اہم ترامیم متعارف کروائی تھیں جنہیں صدر مملکت عارف علوی کی منظوری نہ ملنے پر پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں منظور کرنے کے بعد نوٹیفائیڈ کیا گیا تھا۔مذکورہ ترامیم کے خلاف چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان نے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی تھی۔درخواست میں قومی احتساب (دوسری ترمیم) ایکٹ 2022ءکے ذریعے کی گئی ترامیم کو آئین کے خلاف ہونے کی بنا پر ختم کرنے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔عمران خان نے اپنی درخواست میں دعویٰ کیا تھا کہ نیب قانون میں ترامیم بااثر ملزمان کو فائدہ پہنچانے اور بدعنوانی کو قانونی حیثیت دینے کے لیے کی گئیں۔درخواست میں مو¿قف اختیار کیا گیا تھا کہ حالیہ ترامیم صدر، وزیراعظم، وزرائے اعلیٰ اور وزرا کے خلاف بدعنوانی کے مقدمات ختم کرنے اور سزا یافتہ سرکاری عہدیداران کو اپنی سزا واپس لینے کا موقع فراہم کرتی ہیں۔درخواست میں استدلال کیا گیا کہ ‘این اے او میں ترامیم پاکستان کے شہریوں کو قانون تک رسائی سے محروم کرنے کے مترادف ہے کہ وہ پاکستان کے عوام کے تئیں اپنے فرائض کی خلاف ورزی کی صورت میں اپنے منتخب نمائندوں سے مو¿ثر طریقے سے پوچھ گچھ کر سکیں۔’مزید برآں درخواست میں دلیل دی گئی کہ لفظ ‘بے نامدار’ کی دوبارہ تعریف کی گئی ہے، جس سے استغاثہ کے لیے کسی کو جائیداد کا فرضی مالک ثابت کرنا مشکل ہو گیا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں