آواران شورش کا گڑھ تھا، پہاڑوں پر جانیوالوں نے بلوچ قوم اور بلوچستان کا فائدہ کرنے کے بجائے نقصان کیا، قدوس بزنجو

کوئٹہ(این این آئی)وزیراعلیٰ بلوچستان عبدالقدوس بزنجو نے کہا کہ بلوچستان عوامی پارٹی کا انگریزی میں مطلب پاکستان پیپلز پارٹی ہی بنتا ہے، 2018 اور 2021 میں حکومتی تبدیلیاں خالصتا ارکان اسمبلی کے ذریعے آئیں ، پہاڑوں پر جانے والے لوگوں نے بلوچ قوم اور صوبے کا فائدہ کرنے کے بجائے ان کا نقصان کیا ہے، پہاڑوں پر جانے والے پڑھے لکھے اور سمجھدار ہیں انہیں عوام کی حمایت حاصل نہیں لہذا وہ اپنا فیصلہ واپس لیکر ملک کے فریم ورک کے اندر جد و جہد کریں، اسمبلیاں عوام کی امانت ہیں انہیں پانچ سالہ مدت مکمل کرنی چاہیے، گوادر کی بہتری کی ذمہ داری وفاقی حکومت کو لینی چاہیے، بلوچستان کو این ایف سی کا حصہ نہ دینا عجیب فیصلہ ہے ،احسن اقبال سمجھدار ہیں لیکن بلوچستان کے معاملے پر انہیں سنجیدگی سے اقدامات کرنے چاہیے۔ یہ بات انہوں نے نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے کہی، وزیراعلیٰ میر عبدالقدوس بزنجو نے کہا کہ سیاست میں اتار چڑھاﺅ آتا رہتا ہے اسمبلیاں ہمارا ذاتی اثاثہ نہیں ہمیں عوام نے پانچ سال کے لئے اسمبلی میں منتخب کر کے بھیجا ہے۔ میں عوام کی آخری منٹ تک ترقی کے لئے کام کرونگا اسمبلی پر اختیار عوام کا ہے اسمبلی کی مدت پانچ سال ہے ہمیں اسے مکمل مدت تک چلانا چاہیے بلوچستان میں اسمبلی اپنی مدت مکمل کر یگی۔ انہوں نے کہا کہ بلوچستان کے معاملات میں چیزیں سب کے سامنے ہیں ادارے ہمارے ہیں وہ ہم سے باہر نہیں ہیں ملکی اور بلوچستان کے مفاد میں ادارے اپنا کام کرتے ہیں بلوچستان میں ہمیشہ ارکان اسمبلی نے سامنے آکر حکومتیں تبدیل کی ہیں 2018 میں بھی ارکان اسمبلی ہی سامنے آئے تھے اس بار بھی حکومت کی تبدیلی میں اپنی ہی جماعت کے دوست کافی عرصے سے نالاں تھے جام کمال اپنے طریقے سے معاملات چلارہے تھے لیکن ہم ان کے ساتھ نہیں چل پائے میں کسی پر الزام نہیں لگاتا ہر ایک اپنے عمل کا خود ذمہ دار ہے مجھے جو وقت ملا ہے اس میں میں لوگوں کی خدمت کرونگا۔ انہوں نے کہا کہ مجھے نہیں لگتا بلوچستان کی سیاست میں کوئی تبدیلی آرہی ہے لوگ اردو میڈیم سے انگلش میڈیم میں جارہے ہیں اردو میں بلوچستان عوامی پارٹی اور انگریزی میں پاکستان پیپلز پارٹی بنتا ہے ان میں کوئی فرق نہیں ہے، بلوچستان عوامی پارٹی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ راتوں رات بنی ہے 2016ءمیں جان محمد جمالی نے کہا کہ بلوچستان مسلم لیگ کے نام سے جماعت بنائی جائے بی اے پی الیکٹ ایبلز کی پارٹی ہے بلوچستان عوامی پارٹی ایک جماعت نہیں بلکہ پارٹی کے 24 ارکان اسمبلی اپنے آپ میں جماعتیں ہیں پارٹی کا ہررکن اپنے حلقے میں ووٹ بینک رکھتا ہے، اگر کوئی جمہوری انداز میں کسی اور جماعت میں جانا چاہتا ہے تووہ انکی اپنی مرضی ہے، بی اے پی جمہوری جماعت ہے۔ ہم ہر ایک کے فیصلے کی قدر کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم اپنے حلقے کو اپنے والدین سے زیادہ اہمیت دیتے ہیں کیونکہ اسی میں انکی عزت ہے اور یہی ووٹر ہماری طاقت ہیں۔ بڑی جماعتوں کا سیاست کا انداز الگ ہے۔ وزیر اعلیٰ نے مزید کہا کہ آواران شورش کا گڑھ تصور کیا جاتا تھا، ہم ایسے بھنور میں پھنس گئے ہیں کہ دونوں جانب سے ہمارے لوگ مارے جاتے ہیں لوگ پہاڑوں پر کسی نہ کسی وجہ سے گئے ہیں بہت کی نا انصافیاں ہوئی ہیں لیکن اسکا مطلب یہ نہیں ہے کہ اپنے لوگوں پر ہتھیار اٹھا لیں ہم نے تخریب کاری کا مقابلہ کیا ہے ہم بلوچستان میں چیزوں کو بہتر کر رہے ہیں اگر کہیں کمی یا کوتا ہی ہے تو ہمارے پاس ملک کے فریم ورک میں رہتے ہوئے پارلیمنٹ سمیت دیگر فورمز ہیں ، انہوں نے کہا کہ جو نوجوان ہم سے نالاں ہو کر پہاڑوں پر گئے ہیں ان سے کہتا ہوں کہ آپ کے پاس بہت سے فورم ہیں ان پر آواز اٹھائیں 2013ءمیں آواران نوگو ایریا تھا میں نے 544 ووٹ لئے اس وقت کہا گیا کہ اپنے ووٹوں پر کوئی کونسلر بھی نہیں بنتا لیکن آواران میں ہم کسی کی غمی خوشی میں بھی نہیں جاسکتے تھے۔ انہوں نے کہا کہ پہاڑوں پر گئے لوگوں کے لئے میری یہی رائے ہے کہ وہ پڑھے لکھے ہیں جو نقصان ہوا ہے وہ ہو چکا ہے کسی بھی تحریک کو اس وقت تک کامیاب نہیں کیا جا سکتا جب تک عوام اس کے ساتھ نہ ہوں جب عوام انکے ساتھ نہیں ہے اور اب بھی وہ یہی سمجھتے ہیں کہ وہ ٹھیک کر رہے ہیں تو کیا ایسا نہیں ہے کہ وہ بلوچ عوام کے حقوق لینے کے بجائے ان سے دشمنی کر رہے ہیں؟ اس وقت جو حالات ہیں وہ دیکھ کر نہیں لگتا کہ پہاڑوں پر گئے لوگ عوام کی خیر خواہی کر رہے ہیں جب چیزیں ان کی دسترس سے باہر ہیں اور عوام ان کے ساتھ نہیں ہیں تو عقل و فکر کا یہی تقاضہ ہے کہ وہ ایسا فیصلہ کریں جو ان کے حق میں ہو۔ انہوں نے کہا کہ شورش پسند لوگوں کے عمل نے عوام کو فائدہ نہیں نقصان دیا ہے عوام، اپنے آپ کو عذاب میں ڈالنے بجائے وہ اپنے فیصلے پر نظر ثانی کریں اگر پہاڑوں پر جانے والے فرزند بلوچستان ہیں تو آج وہ حالات اور وقت کا تقاضہ ہے انہیں اپنا فیصلہ واپس لینا ہوگا۔ ایک سوال کے جواب میں وزیراعلیٰ میر عبدالقدوس بزنجو نے کہا کہ گوادر کو سنجید دیگی سے لینے کی ضرورت ہے گوادر پورٹ کی ذمہ داری وفاقی حکومت کی ہے ہر حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ باتوں کے بجائے عملی کام کرے گوادر پورٹ شروع ہونے کے بعد موجودہ شورش کا آغاز ہوا ہمیں ان چیزوں کو بھی مد نظر رکھتے ہوئے فیصلے کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ وفاقی حکومت کا بلوچستان کو این ایف سی کا حصہ وقت پر نہ دینا بھی عجیب بات ہے، این ایف کے معاملے پر ہماری ٹیم نے وزیر خزانہ اسحاق ڈار سے ملاقات کی ہے، احسن اقبال پروفیسر اور اچھے انسان ہیں لیکن بلوچستان کے معاملے میں انہیں سنجیدہ اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ گوادر میں انڈس ہسپتال شروع کیا ہے، گوادر میں پانی کا مسئلہ اہم ہے صوبے کی مالی پوزیشن ایسی نہیں کہ ہم بہت زیادہ ترقیاتی کام کریں ہمیں گوادر میں مزید کام کرنے کی ضرورت ہے اور گوادر کی ذمہ داری وفاقی حکومت کو لینے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ بات چیت پر شرم محسوس نہیں کرتا 2018 میں بھی ہم نے غیر قانونی ٹرائلنگ پر کاروائی کی مکمل چوری روکنا مشکل ہے ، گوادر کے ماہی گیروں کو لیبر کا درجہ دیا گیا ہے ہم نے اپنے تمام وعدے پورے کئے ہیں، بیشتر چیک پوسٹیں ختم کی ہیں کچھ باقی ہیں انہیں بھی ختم کریں کے کسٹم کو بھی کہا ہے کہ وہ سرحد پرسختی کریں کسی کو بھی اجازت نہیں دونگا کہ وہ اپنی ذمہ داری سرحد پر نہیں نبھاتے تو وہ شہروں میں آکر چیک پوسٹیں لگائیں۔ انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں گزشتہ بجٹ میں ارکان اسمبلی پر بکتر بند گاڑیاں چڑھائی گئی ، مختلف طبقات فکر کے لئے احتجاج کر رہے ہیں تھے لیکن رواں بجٹ کے موقع پر کوئی احتجاج نہیں تھا 8 ماہ میں ہم نے لوگوں کے مسائل سنے اور انہیں حل کرنے کی کوشش کی سیکورٹی فورسز کی ذمہ داری امن و امان بحال کرتا ہے میں انہیں یہ نہیں کہتا کہ وہ چین لگا کر سولین کو روکیں۔ ریاست کی ذمہ داری ہے شہریوں کا خیال رکھے جب تک ہم عوام کو جائز حق نہیں دیتے ہم کسی کو روزگار کمانے سے نہیں روکیں گے، غریب کی جیب کی طرف جو دیکھے گا میں اس کے خلاف کاروائی کرونگا۔ انہوں نے کہا کہ ریکوڈک کے معاملے کا معلوم ہوتا تو وزارت اعلیٰ حلف بھی نہیں لیتا، ریکوڈک انتہائی متنازعہ بن چکا تھا۔ مجھے بلوچستان کے عوام کے حقوق حاصل کرنے تھے لیکن ہم ایک ایسے مقام پر آگئے جہاں ملک کا مستقبل بھی داﺅ پر لگا ہوا تھا لیکن جب ٹھان لی کہ ہم نے یہ معاہدہ کرتا ہے تو ہمارے لئے آسانیاں پیدا ہو ئیں۔ مجھے کہا گیا کہ یہ ایک ایسا فیصلہ کیا گیا ہے جس سے بہتر معاہدہ نہیں ہوسکتا تھا۔ وزیر اعلیٰ نے کہا کہ ماضی میں اگر نواب اسلم رئیسانی یہ فیصلہ نہ کرتے تو آج ہماری یہ پوزیشن نہیں ہوتی۔ ماضی میں ہمارا حصہ 25 فیصد تھا جس میں اخراجات بھی شامل تھے، آج ہمارے پاس 25 فیصد حصہ بغیر کسی اخراجات کے ملے گا، پاکستان کی تاریخ میں کبھی بھی 8 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری نہیں ہوئی۔ اس سے روپے کی قدر بھی بہتر ہوگی صوبے میں ریکوڈک منصوبے کو عملا چلانے کے لئے بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں