خواتین کا عالمی دن

محنت کش خواتین کے عالمی دن کے حوالے سے پاکستان کے مختلف شہروں میں ریلیاں جلسے اور تقریبات منعقد ہورہے ہیں اور پہلی باردائیں بازو کی مذہبی سیاسی جماعتوں نے اس دن کے حوالے سے جلسے جلوس کیئے ہیں بنیادی طور پر یہ دن محنت کش خواتین کی حقوق کی جدوجہد سے وابستہ ہے تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو 1908میں نیویارک کی ایک گارمنٹس فیکٹری کی محنت کش خواتین نے اوقات کار میں کمی اور تنخواہوں میں اضافے جیسے مطالبات کے حق میں تحریک چلائی اور اس دوران جبر و تشدد کا سامنا کیا انہی محنت کش خواتین کوعقیدت پیش کرنے کے لیے امریکہ کی سوشلسٹ پارٹی نے نیویارک کی سڑکوں پر مارچ کیا اور1909میں پہلی بار خواتین کا قومی دن منایابالاخر1910میں جرمنی کی سوشلسٹ رہنما نے اس دن کو عالمی سطح پرمنانے کی تجویز دی اور آخر کار اقوام متحدہ نے اس دن کو عالمی سطح پر منانے کا اعلان کیا گیالیکن پاکستان میں تنظیم اوراور متحرک سوشلسٹ تحریک کی عدم موجود گی کے باعث عالمی مالیاتی سرمائے کی علمبردار نیو لبرل ازم اور اس کی این جی اوز نے موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے عملیطور پرمحنت کش خواتین کے عالمی دن کو خواتین کے عالمی دن میں تبدیل کرلیا ان کا اصل مسئلہ معاشرے میں ہر دم جاری طبقاتی جدوجہد سے ہے۔ یہ مختلف طبقات کی خواتین کویکسا ں حثیت لیکر در اصل محنت کش خواتین کے مسائل سے توجہ ہٹانے کیلئے کوشاں ہیں۔افسوس کہ گزشتہ چند سالوں سے پاکستان میں طبقہ اشرافیہ کی خواتین پر مشتمل تنظیموں نے عورت کی نجات کی جائز تحریک کو عمومی طبقاتی تحریک سے الگ کرنے کا نتیجہ یہ نکلا کہ لبرلز اور دائیں بازو کی قوتوں کے مابین ایک جعلی مقابلے کی کیفیت پیدا کی گئی تا کہ محنت کش خواتین کو علیحدہ رکھ کر پاکستان میں طبقاتی جدوجہد کے آگے بند باندھا جا سکے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ بائیں بازو کے عناصر محنت کش طبقے کی جدو جہد کی بنیاد پر تمام مسائل کو دیکھنے اور محنت کشوں کو منظم کرنے کے لیے آگے بڑھیں

اپنا تبصرہ بھیجیں