سعودی عرب کی ناکام بغاوت

سعودی عرب کے حوالے سے پہلے یہ اطلاع آئی کہ شاہی خاندان کی تین اہم شخصیات کو گرفتار کر لیا ہے پھر کہا گیا کہ یہ تینوں افراد سعودی حکومت کے خلاف بغاوت کی منصوبہ بندی کر رہے تھے۔ گرفتار شخصیات میں سے ایک سعودی فرماں روا شاہ سلمان بن عبدالعزیزکے بھائی شہزادہ احمد بن عبدالعزیز، دوسرا بھتیجا شہزادہ محمد بن نائف اور تیسرا کزن شہزادہ نواف بن نائف شامل ہیں۔امریکی اخبار نیویارک ٹائمزکے مطابق شاہی خاندان کے ان افراد کو ولی عہد محمد بن سلمان کے حکم پر گرفتارکیا گیاہے اور ان پر شاہ اور ولی عہد کو ہٹانے کے لئے بغاوت کی منصوبہ بندی کاالزام عائد کیا ہے۔اس کے نتیجے میں انہیں سزائے موت یاعمر قید کی سزا دی جا سکتی ہے۔بادشاہت میں حکومت کی تبدیلی کے لئے بغاوت ہی واحد راستہ ہے ورنہ شاہ کی موت کے بعد اس کا ولی عہداس عہدے پر فائز ہوتا ہے۔ جمہوری حکومت میں حکومت کا انتخاب مقررہ مدت کے بعد عوام کے ووٹوں کے ذریعے ہوتا ہے مگر وہاں بھی اکثر و بیشتر فوجی بغاوت ہو جاتی ہے جیسے کچھ عرصہ پہلے ترکی میں فوج نے بغاوت کر دی تھی جسے عوام نے ناکام بنا دیا تھااور اس کی پشت پناہی کاالزام امریکا پر عائد کیا گیا تھا۔اسی طرح برازیل کے عوام بھی فوجی بغاوت کے سامنے ڈٹ گئے تھے۔بغاوت ایسا جرم ہے جو کامیاب ہو جائے تو انقلاب کہلاتا ہے۔یہ بھی تاریخی حقیقت ہے پسماندہ اور ترقی پذیر ملکوں میں اگر حکومت امریکاکی پسند کی نہ ہو تو وہاں اپنے ہم خیال افراد کی حکومت قائم کرنے کے لئے بغاوت کا گر آزمایا جاتا ہے۔ پاکستان میں تاریخ کا بڑا حصہ امریکی پسند یدہ حکومتوں کی تاریخ سمجھی جاتی ہے۔ امریکا اپنی پسند و نا پسند کا اعلان کرنے میں کوئی لگی لپٹی نہیں رکھتاوزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو وزیر خارجہ ہنری کسنجر کے ذریعے براہ راست پیغام دیا گیا اگر ایٹم بم بنانے کی ضد پر ڈٹے رہے تو عبرت کا نمونہ بنا دیں گے۔ وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹونے راولپنڈی کے راجہ بازار میں اس دھمکی کا بہادری سے جواب دیا اور تاریخ میں امر ہوگئے۔بادشاہت کا اپنا مزاج ہے۔وہاں کے عوام شاہ پرست ہوتے ہیں شاہی گھرانے کے افراد میں سے ہی تبدیلی جاری رہتی ہے۔پاکستان اور بھارت میں آزادی کے بعد جمہوری نظام میں بھی چند خاندانوں (نہرو،بھٹو اور شریف فیملی)کو مغلیہ شہزادوں جیسی حیثیت حاصل ہو گئی تھی جو اب ٹوٹتی نظر آتی ہے کیونکہ دنیا بھر میں صنعتی انقلاب نے بادشاہت پر کاری ضرب لگائی ہے۔ یورپ میں بادشاہت کا صفایا ہوگیا مگر عرب ممالک میں صنعتی انقلاب برپا نہیں ہو سکا اس لئے وہاں بادشاہت کا نظام جوں کا توں موجود ہے البتہ جیسے جیسے تیل کے ذخائر ختم ہو رہے ہیں وہاں بھی سرمایہ داری نظام اپنے قدم جمانے لگا ہے اوراس کے ساتھ ہی شاہی خاندان کی سوچ میں بھی تبدیلی کے آثار دکھائی دینے لگے ہیں۔سعودی عرب میں عورتوں کو دی جانے والی مراعات در اصل فکری تبدیلی کے رجحان کی علامات ہیں۔امریکا نے گزشتہ چار دہائیوں سے جس طرح اس خطے میں جنگ جاری رکھی ہوئی ہے اس نے بھی عرب حکمرانوں کے عدم تحفظ کے احساس میں اضافہ کیا ہے۔ سعودی عرب اور قطر کی جانب سے سینکڑوں ارب ڈالر فوجی اسلحے کے آرڈردینے کا محرک یہی عدم تحفظ کا خوف ہے۔سعودی عرب کی سربراہی میں دہشت گردی کے خاتمے کی صلاحیت رکھنے والی فوج کے قیام کا پس منظر اس خطے کو تباہ کرنے والی جنگ ہے جو القاعدہ کا نام لے کر شروع ہوئی تھی اوراب کسی طرح ختم ہونے میں نہیں آرہی۔صرف افغانستان میں اسامہ کے تعاقب میں امریکاکے دو ٹریلین (2000ارب)ڈالر خرچ ہوئے جانی نقصان اس کے علاوہ ہے۔اب وقت آگیا ہے کہ عرب حکمران اپنے عوام کی فلاح و بہبودکے بارے میں سوچیں۔امریکا یا کسی دوسرے ملک سے یہ توقع نہ کی جائے کہ وہ فی سبیل اللہ ان کی حفاظت کرے گا۔عراق، شام اور لیبیاء کی تباہی دور حاضر میں ہوئی۔افغانستان خانہ جنگی کے دہانے پر کھڑا ہے اگر اشرف غنی اور افغان طالبان کے درمیان مسائل حل کرنے کے لئے مثبت اور فیصلہ کن مذاکرات نہ ہوئے تواس کا نقصان ہمسایہ ممالک کو بھی پہنچے گا پورا خطہ متأثر ہوگا۔سعودی عرب کو ایران سے بھی معاملات طے کرنا ہوں گے ایران سے جنگ سعودی عرب اور اس خطے کے لئے ایک مسئلہ بنے گی روس اور چین تماشائی نہیں رہیں گے۔وزیر اعظم عمران خان بجا طور پر درست کہتے ہیں کہ جنگ شروع کرنا انسان کے اپنے ہاتھ میں ہوتا ہے لیکن اسے ختم کرنا اسکے اختیار میں نہیں ہوتادنیا نے دو عالمی جنگیں دیکھی ہیں تیسری عالمی جنگ اگر خدانخواستہ ہو گئی تو سب کچھ جل کر راکھ ہوجائے گا۔سعودی حکومت اپنے خلاف ناکام بغاوت کے حوالے سے تحقیقات کرے تاکہ اصل ذمہ داروں تک پہنچ کران کا خاتمہ کیا جائے۔چند ماہ قبل دی جانے والی امریکی دھمکی کو فراموش نہ کیا جائے۔ ذراسی کوتاہی اورغفلت بہت بڑے نقصان کا موجب ہوگی۔فول پروف تحقیقات ضروری ہیں۔ اپنے ملک اور عوام کی ترقی سلامتی اور استحکام پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جا سکتا۔امید ہے سعودی حکومت اس حوالے سے چوکنّا رہے گی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں