بلوچستان یونیورسٹیز ایکٹ کی منظوری، جامعات کو گرانٹ ان دینے کا معاملہ سرد مہری کی نظر

کوئٹہ : سال 2022ءمیں یونیورسٹیز کا مسودہ تو منظور ہوگیا لیکن ایک سال گزر جانے کے باوجود صوبائی ہائیرایجوکیشن اتھارٹی کا قیام عمل میں نہ لایاجاسکاجس کے تحت بلوچستان کے جامعات کو چلایاجاسکے،بلوچستان کی 13جامعات کو صرف ڈھائی ارب روپے گرانٹ ان ایڈ جبکہ ایک یونیورسٹی کاسالانہ خرچ ساڑھے تین ارب روپے ہیں گزشتہ کئی ماہ سے بلوچستان کی تین بڑی جامعات بلوچستان یونیورسٹی ،بیوٹمز اور سرداربہادر خان وومن یونیورسٹی شدید مالی بحران کاسامنا کررہی ہے ملازمین کے پاس تنخواہیں نہیں جبکہ کلاس فور ملازمین فاقہ کشی پر مجبور ہیں۔ یاد رہے کہ بلوچستان اسمبلی سے سال2022ءمیں منظور ہونے والے ایکٹ کے تحت اختیارات گورنر سے منتقل ہوکر وزیراعلیٰ بلوچستان کے پاس چلے گئے تھے اور وائس چانسلر کی تعیناتی گورنر کی بجائے وزیراعلیٰ بلوچستان کرینگے ،بلوچستان یونیورسٹیز ایکٹ سال 2022ءمیں صوبائی اسمبلی سے پاس ہوگیا لیکن گزشتہ ایک سال میں صوبائی حکومت کی جانب سے صوبائی ہائیرایجوکیشن اتھارٹی کا قیام عمل میںنہیں لایاجاسکا جس کے تحت بلوچستان کے جامعات کو چلایاجاسکے گزشتہ کئی ماہ سے بلوچستان کی تین بڑی جامعات بلوچستان یونیورسٹی ،بیوٹمز اور سرداربہادر خان وومن یونیورسٹی شدید مالی بحران کاسامنا کررہی ہے ملازمین کے پاس تنخواہیں نہیں جبکہ کلاس فور ملازمین فاقہ کشی پر مجبور ہیں حکومت بلوچستان کی جانب سے گرانٹ ان ایڈ دینے کے بعد معاملہ سردمہری کی نظر ہوگئی ،بلوچستان میں حکومت بلوچستان کی جانب سے مجموعی طورپر 13یونیورسٹیوں کو گرانٹ ان ایڈ کی مد میں ڈھائی ارب روپے دی جاتی ہے جبکہ صرف جامعہ بلوچستان کوسالانہ ساڑھے3ارب روپے تنخواہوں ،پنشنز ودیگر مد میں ضرورت ہے دیگر یونیورسٹیاں اس کے علاوہ ہیں ،جامعہ بلوچستان کی اپنی انکم 40سے45کروڑ جبکہ ایچ ای سی سالانہ 90سے95کروڑ روپے فراہم کرتی ہے ،صوبائی ایچ ای سی کے قیام سے مالی بحران کے خاتمے کیلئے زمینی حقائق کو مدنظررکھتے کر بحران کے خاتمے کیلئے اقدامات ممکن تھے لیکن وہ صوبائی ایچ ای سی کاقیام عمل میں نہیں لایاجاسکا۔،دوسری جانب فیڈریشن آف آل پاکستان یونیورسٹیز اکیڈمک سٹاف ایسوسی ایشنز(فپواسا)بلوچستان چیپٹر کے فرید خان اچکزئی کہتے ہیں کہ ہم نے اس وقت بھی یونیورسٹیز ایکٹ کو تعلیم دشمن قرار دیا تھا ،ایکٹ میں گورنر سے اختیارات لینے کے علاوہ بعض شقوں پر ہمیں اعتراضات ہیں، جس کے حوالے سے ہم سے کوئی مشاورت نہیں کی گئی۔ انہوں نے کہا کہ اس ایکٹ کو بنانے کے دوران ہمیں آن بورڈ نہیں لیا گیا، نہ ہی طلبہ طالبات، اساتذہ سے کوئی رائے لی گئی۔ اس کے مستقبل میں خطرناک نتائج سامنے آئیں گے۔ ہم نے اس حوالے سے بلوچستان اسمبلی کے ممبران سے بھی بات کی اور انہیں بتایا کہ یہ ایکٹ صوبے کے تعلیمی نظام کے حوالے سے مسائل پیدا کرے گا۔ اس کی شقوں کو پڑھ کر ان میں ترامیم کی جائیں۔ انہوں نے کہا کہ اس ایکٹ میں پرو وائس چانسلر کی تقرری کا اختیار بھی وزیر اعلی کو دیا گیا ہے، جو نامناسب ہے اور اس میں جو بھی وائس چانسلر ہوگا وہ اپنے بندے کو رکھے گا، جس سے مسائل پیدا ہوں گے۔ فرید اچکزئی نے کہا کہ اس ایکٹ کی منظوری کے بعد فیسوں میں اضافے اور دیگر انتظامی مماملات کے ساتھ تعلیمی نظام میں مسائل پیدا ہوں گے جن کا ہمارا پسماندہ صوبہ کسی طرح متحمل نہیں ہوسکتا۔ ہم اس بات کے مخالف نہیں کہ 18ویں ترمیم کے ذریعے جو اختیارات ہمیں مل رہے ہیں، ان سے فائدہ نہ اٹھایا جائے۔ لیکن ہم کہتے ہیں جو بھی فیصلے ہوں ان میں تمام متعلقہ حکام کی مشاورت اور مرضی بھی شامل ہو۔

اپنا تبصرہ بھیجیں