افغان حکومت کی پاکستان کو ٹی ٹی پی عسکریت پسندوں کو سرحدی علاقوں سے دور منتقل کرنیکی پیشکش

اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک) افغانستان کی طالبان حکومت نے پاکستان کو ٹی ٹی پی کے شدت پسندوں کو سرحدی علاقوں سے دور منتقل کرنے کی پیشکش کی ہے۔ اس بات کا انکشاف پاکستان کے وزیرِ داخلہ رانا ثناءاللہ نے وائس آف امریکہ کو دیے گئے ایک انٹرویو میں کیا۔ رانا ثناءاللہ نے بتایا کہ افغان طالبان نے ٹی ٹی پی کے پاک افغان سرحد پر مقیم عسکریت پسندوں کو افغانستان کے دور دراز علاقوں میں بسانے کی پیش کش کی ہے تاکہ ان کی سرحد پار رسائی آسان نہ رہے۔ وفاقی وزیرِ داخلہ نے یہ بھی بتایا کہ طالبان نے حکومتِ پاکستان کو یہ پیشکش دو ماہ قبل کی تھی۔ دوسری جانب افغانستان کی طالبان حکومت کی جانب سے اس ضمن میں کبھی کوئی بیان سامنے نہیں آیا ہے۔ افغان طالبان کی عبوری حکومت کے وزیرِ خارجہ امیر خان متقی نے گزشتہ ماہ دورہ پاکستان کے دوران کہا تھا کہ پاکستان اور ٹی ٹی پی کو باہمی طور پر اپنے معاملات حل کرنے کی ضرورت ہے۔ کابل کی جانب سے ٹی ٹی پی کے شدت پسندوں کو سرحد سے دور منتقل کرنے کی تجویز ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب افغان طالبان کی ثالثی میں حکومتِ پاکستان اور ٹی ٹی پی کے درمیان امن مذاکرات ناکام ہوچکے ہیں۔ اپریل میں پاکستان کی قومی سلامتی کمیٹی نے کہا تھا کہ ملک میں دہشت گردی کی حالیہ لہر کالعدم ٹی ٹی پی کے لیے نرم گوشہ اور عدم سوچ بچار پر مبنی پالیسی کا نتیجہ ہے جو عوامی توقعات اور خواہشات کے بالکل منافی ہے۔ افغان طالبان کی ثالثی میں ہونے والے مذاکرات کی ناکامی کے بعد پاکستان نے افغانستان سے ملحقہ سرحدی علاقوں میں ٹی ٹی پی کے خلاف ٹارگٹڈ آپریشن شروع کررکھا ہے۔ رانا ثناءاللہ کہتے ہیں کہ اس وقت کالعدم ٹی ٹی پی کے لوگ پاکستان سے ملحقہ افغانستان کے علاقوں میں مقیم ہیں اور پاک افغان سرحد سے دور منتقلی سے ان کی پاکستان تک رسائی محدود ہوجائے گی۔ تاہم انہوں نے اس بارے میں مزید تفصیلات نہیں بتائیں کہ ٹی ٹی پی کے عسکریت پسندوں کو افغانستان کے کن علاقوں میں منتقل کیا جائے گا۔ وفاقی وزیرِ داخلہ نے کہا کہ افغان طالبان کا یہ مو¿قف ہے کہ کالعدم ٹی ٹی پی کو ان کی حمایت حاصل نہیں۔ البتہ پاکستان کو طالبان حکومت سے یہ گلہ ضرور ہے کہ کالعدم ٹی ٹی پی پاکستان کے اندر آکر جو کارروائیاں کرتی ہے اس سے امن و امان کی صورتِ حال خراب ہوتی ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں