پاکستان کے دفاعی بجٹ میں مسلسل دوسرے برس کٹوتی

واشنگٹن :پاکستان کا سالانہ بجٹ 2020-2021، دنیا کے بہت سے دیگر ممالک کی طرح کرونا وائرس سے متاثرہ ایک ایسے ملک کا بجٹ ہے جس کی معیشت بری طرح متاثر ہوئی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ حکومت کو اپنے اہداف پورے کرنے سے زیادہ عام آدمی کی مدد کے منصوبوں پر خرچ کرنا پڑا ہے۔گذشتہ بجٹ میں بھی حکومت مشکل میں نظر آئی تھی اور پاکستان کی فوج نے اپنے بجٹ میں کمی کی پیشکش کی تھی۔ جو اس مرتبہ بھی پاکستان کے دفاعی بجٹ میں موجود ہے۔پاکستان میں سسٹین ایبل ڈیولپمنٹ پالیسی انسٹی ٹیوٹ کے ایشیا سٹڈیز کے ڈئریکٹر شکیل احمد رامے کہتے ہیں کہ گذشتہ ایک سال کے دوران خطے میں ایسے واقعات ہوئے ہیں کہ ان کے پیشِ نظر اگر پاکستان اپنے دفاعی بجٹ میں اضافہ کرے تو بھی حیرت نہیں ہونی چاہئے۔ تاہم انہوں نے کہا کہ ہمارا دفاعی بجٹ سیلف ڈیفنس کا بجٹ ہوتا ہے، حقیقی معنوں میں اپنے دفاع کا بجٹ ہےدفاعی تجزیہ کار لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ امجد شعیب کہتے ہیں کہ فوج کو ملکی مشکلات کا پورا احساس ہے اور یہی وجہ ہے کہ اس مرتبہ بھی بجٹ میں کمی سے اتفاق کیا گیا ہے حالانکہ ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر کم ہونے کی وجہ سے جو کٹوتی گذشتہ برس 23 فیصد تھی وہ اب بڑھ کر 30 سے 35 فیصد ہوجائے گی۔اقتصادی ماہر اور کنسلٹنٹ قیصر بنگالی کہتے ہیں کہ فوج کی جانب سے اپنے بجٹ میں کمی کی بات کو گہرائی سے دیکھنے کی ضرورت ہے کیونکہ اس سے پہلے نوے کی دہائی میں جب ایسی بات کی گئی تھی تو فوج کی ایجوکیشن کور کے بجٹ کا کچھ حصہ وفاقی ایجوکیشن بجٹ میں ڈال دیا گیا تھا۔ ایسا ہی فوج کے پنشن کے اخراجات بھی جو کافی زیادہ ہیں کچھ وزارتِ خزانہ کے تحت آ گئے۔انہوں نے کہا کہ پاکستان میں فوج پر اخراجات کا ایک وسیع سلسلہ ہے۔ جی ٹی روڈ پر سفر کیجئے تو ہر پچیس کلومیٹر کے بعد ایک فوجی کنٹونمنٹ ملے گا جو انگریز کی یادگار ہے اور اب اس کی ضرورت سمجھ میں نہیں آتی۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ فوجی ہیڈکوارٹرز کو راولپنڈی سے اسلام آباد منتقل کیا جا رہا ہے۔ اس پر بھی اخراجات آئیں گے، آخر اس کی ضرورت کیا ہے؟انہوں نے کہا کہ ہر ملک میں کوسٹ گارڈ ہوتا ہے مگر ہمارے ہاں اس کے ساتھ ساتھ ایک میری ٹائم سیکیورٹی ایجنسی بھی ہے۔ ایک ہی کام دو ادارے کر رہے ہیں۔پاکستان میں فوجی افسروں کو سول عہدوں پر تعینات کئے جانے کی روایت رہی ہے۔ موجودہ حکومت نے بھی بعض اہم عہدوں پر فوجی ماہرین تعینات کئے ہیں۔ اس بارے میں جنرل شعیب کا کہنا ہے کہ اگر فوج کے ریٹائرڈ افسر یہ قابلیت رکھتے ہیں کہ وہ سول عہدوں پر خدمات انجام دے سکیں تو اس میں کیا حرج ہے۔ان کا کہنا تھا کہ یہ فوجی ماہرین جب بھی کسی سول عہدے پر تعینات کئے گئے، انہوں نے اپنی قابلیت سے اس شعبے کو ترقی دی۔ انہوں نے ماضی میں پاکستان سٹیل ملز اور پی آئی اے میں فوجی افسروں کی بہتر کار کردگی کی مثال دی اور کہا کہ اس سے حکومت کو مالی بچت بھی ہوتی ہے کیونکہ ریٹائرڈ فوجی افسر اگر کسی سول عہدے پر کام کرتا ہے تو اسے پینشن نہیں دی جاتی۔قیصر بنگالی نے اس سے اتفاق نہیں کیا۔ انہوں نے کہا کہ ایسے افسر پنشن بھی لیتے ہیں اور تنخواہ بھی۔ انہوں نے کہا کہ اس کی مثال کراچی میں تعینات رینجرز ہیں جو دو تنخواہیں لیتے ہیں۔ اور صرف ریٹائرڈ ہی نہیں حاضر سروس فوجی افسر بھی بعض عہدوں پر تعینات کئے گئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر فوجی افسروں نے کسی سول ادارے کی کارکردگی بہتر بنائی بھی تو صرف عارضی طور پر عارضی اقدامات کے ذریعے جو ان کے وہاں سے جاتے ہی ختم ہو گئے۔لیفٹننٹ جنرل امجد شعیب نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ فوج اپنے تعمیراتی منصوبوں کے اخراجات اپنے وسائل سے پورے کرتی ہے اور اس کا ہاؤسنگ کا شعبہ اتنا بہتر اور منظم ہے کہ حکومت نے بھی اسے ہاؤسنگ کے اپنے منصوبوں کیلئے قابلِ قدر جانا ہے۔تاہم قیصر بنگالی کہتے ہیں کہ ہمیشہ ایسا نہیں ہوتا کہ فوج کی یہ تعمیرات پائیدار رہی ہوں اور اس کی مثال جنرل مشرف کے دور میں کراچی میں تعمیر کیا گیا وہ پل ہے جو مکمل ہونے کے چند روز بعد ہی ٹوٹ گیا تھا۔ یا پھر لیاری کا وہ پل جس پر سے بھاری ٹریفک کو گزرنے کی اجازت نہیں ہے کیونکہ وہ اس کا متحمل نہیں ہو سکتا۔قیصر بنگالی کا کہنا تھا کہ فوج اب ایسے کمرشل منصوبوں میں الجھ رہی ہے جو اسے زیب نہیں دیتے۔ انہوں نے کہا کہ اب فوجی لانڈری ہے، گوشت کی دوکان ہے، جو صرف فوجیوں کیلئے مخصوص نہیں ہے، عسکری بینک ہے جس میں سب اکاؤنٹ کھول سکتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ فوج کا کام اگر دفاع ہے تو اسے اپنا کام کرنا چاہئے۔ کمرشل منصوبوں میں روڈ ٹرانسپورٹ میں نیشنل لاجسٹک سیل کا غلبہ ہے، فرٹیلائیزنگ انڈسٹری میں فوج کا غلبہ ہے اور ہاؤسنگ سیکٹر میں بھی قریب قریب ایسا ہی ہے۔لیفٹیننٹ جنرل ریٹائیرڈ امجد شعیب کہتے ہیں کہ فوج کے بعض صنعتی منصوبے ایسے ہیں جن سے برآمدات بھی ہوتی ہیں۔ اور فوج اپنے اخراجات بھی پورے کرتی ہے۔تاہم قیصر بنگالی کہتے ہیں کہ اگر ایسا ہے بھی تو یہ رقم قومی خزانے میں نہیں بلکہ فوج کے اپنے فنڈ میں ہی جمع ہوتی ہے۔پاکستان میں فوج نہ صرف سرحدوں کی حفاظت کرتی ہے بلکہ کسی بھی موسمی آفت کی صورت میں خواہ وہ سیلاب ہو، زلزلہ یا کوئی اور قدرتی آفت، فوج سویلین آبادی کی مدد کیلئے موجود ہوتی ہے۔سی پیک جیسے ترقیاتی منصوبے جو بین الااقوامی اہمیت کے حامل ہیں، ان کی سیکیورٹی کی ذمے داری بھی فوج سنبھال رہی ہے۔ اور ٹڈی دل کا صفایا بھی اب فوج ہی کرے گی۔ملک کو دہشت گردی کے عفریت سے محفوظ رکھنے کیلئے فوج کی خدمات اور قربانیاں نہ صرف موجودہ حالات میں پاکستان کیلئے اثاثہ ہیں بلکہ تاریخ میں بھی رقم ہو چکی ہیں اور سسٹین ایبل ڈیولپمنٹ پالیسی انسٹی ٹیوٹ میں ایشیا سٹڈیز کے ڈئریکٹر شکیل احمد رامے کہتے ہیں کہ ملک ایک خاندان کی طرح ہوتا ہے اور اس میں اگر فوج اور سویلین مل کر کام کرتے ہیں تو اسے قابلِ قدر سمجھنا چاہئے۔تاہم پاکستان کے معاشرے میں فوجی اور سویلین کا فرق موجود ہے اور شاید اس فرق کو دور کرنے کیلئے کوئی ماہر موجود نہیں ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں