افغا نستان خانہ جنگی کے راستے پر

اگلے روزاشرف غنی نے کابل کے صدارتی محل میں اپنے عہدے کا حلف اٹھایااور عبداللہ عبداللہ نے اپنے آفس میں حلف برادی کی رسم ادا کی جبکہ زمینی حقائق کے مطابق افغان طالبان ملک کے نصف سے زائدرقبے پر قابض ہیں اور امریکہ گزشتہ 20برس میں دنیا کی سپر پاور کہلانے والی نیٹو افواج اور مقامی افغان رہنماؤں (حامد کرزئی،اشرف غنی اورعبداللہ عبداللہ وغیرہ) کی حمایت اور 2 ٹریلین ڈالرخرچ کرنے کے باوجودافغان طالبان کے ساتھ معاہدہ کرنے پر مجبور ہوگیاہے۔امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے واضح الفاظ میں کہہ دیا ہے کہ وہ مزید 20سال افغانستان میں نہیں ٹھہر سکتے جو مالی اور جانی نقصان ہوچکا وہی کافی ہے۔چند روز پہلے افغان صدر اشرف غنی کا طالبان قیدیوں کی رہائی سے انکارامریکا سمیت کسی کو پسند نہیں آیا۔یہ درست ہے کہ امریکی وفد (زلمے خلیل زاد)نے اشرف غنی کی تقریبِ حلف برداری میں شرکت کی اس لئے کہ امریکا ابھی اپنی پرانی پوزیشن سے دست بردار نہیں ہوا،لیکن ابھی اقتدارباضابطہ طور پر افغان طالبان کونہیں سونپا گیا۔سوال یہ ہے کہ عبداللہ عبداللہ کون سے افغانستان کے صدر کہلائیں گے؟ انہیں کتنے فیصد عوام کی حمایت حاصل ہے؟ اورکتنے فیصد رقبے پر قابض ہیں؟کتنے جنگجو ان کی طرف سے امریکا کے خلاف لڑ رہے ہیں؟اس کے علاوہ کیا وہ اتنے وسائل کے مالک ہیں کہ اشرف غنی(اور ان کے حمایتی) امریکاکی جگہ لے سکیں گے؟ عبداللہ عبداللہ کے اس احمقانہ اقدام کے نتیجے میں افغانستان کچھ عرصے کے لئے خانہ جنگی کا شکار ہو سکتا ہے۔امن کی منز ل عارضی طور پر دورہو سکتی ہے۔عبداللہ عبداللہ نے حلف برداری سے پہلے یہ بھی نہیں سوچا دو روز قبل ایک بزرگ کی برسی کے موقع پر ان پر قاتلانہ حملہ ہو چکا ہے اس حملے میں وہ اور حامد کرزئی بال بال بچے ہیں۔شائد انہیں یہ گمان ہو کہ روسی افواج کے بعد انہیں اقتدار میں تھوڑا بہت حصہ مل گیا تھااسی طرح وہ اس بار بھی طالبان سے کچھ نہ کچھ ضرور حاصل کر لیں گے لیکن اس مرتبہ منظر نامہ تبدیل نظر آتا ہے وہ مسلسل امریکی کیمپ میں بیٹھے رہے ڈالر سمیٹے وزیر خارجہ اور سی ای او جیسے عہدوں پر فائز ہوئے۔وہ مانیں یا نہ مانیں پلوں کے نیچے سے بہت سارا پانی بہہ چکا ہے۔اس مرتبہ افغان طالبان جو فیصلہ کریں گے امریکا کے ساتھ انہیں بھی ماننا پڑے گا۔انہیں اپنی پسند کے مطابق کوئی عہدہ نہیں ملے گا۔ افغان صدر اشرف غنی نے حلف برداری سے قبل کوشش کی تھی کہ عبداللہ عبداللہ ان کے ساتھ مل کر کام کریں موجودہ عبوری حکومت میں بھی شامل رہیں لیکن وہ عبداللہ عبداللہ کو کابینہ میں 60فیصد شراکت دینے کو تیار نہیں ہوئے۔اب عبداللہ عبداللہ نے اپنے صدر ہونے کا اعلان کر دیا ہے اس لئے نتائج کے ذمہ دار وہ خود ہوں گے۔باقی تمام افغان لیڈر چالیس سال سے جاری جنگ کاخاتمہ چاہتے ہیں۔افغان صدر اشرف غنی طالبان قیدیوں کی رہائی پر رضامند ہو گئے ہیں۔افغان طالبان سے مذاکرات کے لئے کمیٹی کا اعلان کرنے والے ہیں۔ امریکا نے اپنی فوجیں افغانستان سے نکالنا شروع کر دی ہیں۔ پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان نے صدر اشرف غنی کو حلف برادری کے بعد مبارکباد دیتے ہوئے کہا ہے کہ ان کے ساتھ مل کر امن کے لئے کام کرنے کو تیار ہیں۔خطے کے دیگر ممالک بھی امن کا قیام چاہتے ہیں جنگ جاری رکھنے کی حمایت کوئی ملک نہیں۔سعودی عرب میں بھی امریکی پالیسی کے حامی ماضی کے مقابلے میں کمزور ہو چکے ہیں۔شاہ سلمان بن عبدالعزیز کے بھائی اور ان کے کزنز کی گرفتاری سے یہی تأثر ملتا ہے کہ سعودی حکومت کا جھکاؤآنے والے دنوں میں امریکامخالف ہوگا۔اس کی بنیاد خود امریکی صد رڈونلڈ ٹرمپ نے یہ کہہ کر رکھ دی تھی کہ”سعودی حکومت ان کی وجہ سے قائم ہے وہ جب چاہیں اسے ا یک ہفتے میں اس کو ختم کر سکتے ہیں“۔اس دھمکی کا جواب انہیں فوراً دیا گیا جس سے ظاہر ہوتا تھاکہ آئندہ امریکی حامیوں کو اس قابل نہیں رہنے دیں گے جو موجودہ حکومت کا خلاف بغاوت کے لئے آسانی ہوسکیں۔اب اطلاعات مل رہی ہیں کہ شاہ سلمان بن عبدالعزیز سے امریکا اور برطانیہ سے ضمانت لی تھی کہ وہ اپنے سوتیلے بھائی کو گرفتارنہیں کریں گے۔اس کے معنے یہی ہوتے ہیں کہ وہ امریکا اور برطانیہ کی گڈ بکس میں ہیں اور موجودہ سعودی حکومت کے لئے مستقل خطرہ ہیں لہٰذاحکومت کا رویہ سخت محتاط رہاہوگا۔ ویسے بھی بادشاہت میں حکومتوں کی تبدیلی کا ایک راستہ خاندان کے بعض افراد کی بغاوت رہ جاتا ہے۔اگر سعودی شاہی خاندان کے کچھ افراد اس مقصد کے لئے متحرک ہوئے تو اسے انوکھی بات نہیں کہا جا سکتا۔یہ تبدیلی بھی امریکا نواز افغان رہنماؤں کے لئے سود مند نہیں۔ اس تناظر میں جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ امریکا افغانستان کو تین حصوں میں تقسیم کرنا چاہتا ہے غلطی پر ہیں۔ امریکا اپنی یہ خواہش عراق میں پوری نہیں کرسکا حالانکہ اس وقت اسے نیٹو فورسز کی بھرپور حمایت حاصل تھی۔اب تو اس کی ایک ہی خواہش ہے کہ مزید فوجیوں کو ہلاکت سے بچائے اس کا ثبوت شیڈول کے مطابق اس کا گزشتہ کل سے انخلاء شروع ہونا ہے۔اب جو کچھ ہوگا طالبان کی مرضی کے مطابق ہوگا۔یہ حقیقت سامنے رہے کہ معاہدہ امریکا اور اسلامی امارت افغانستان کے درمیان ہوا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں