کیاپارٹی بدلنے کا موسم آ گیاہے؟

اگلے روز مسلم لیگ نون کے6 اور پی پی پی کے ایک رکن اسمبلی نے پنجاب کے وزیر اعلیٰ سردار عثمان بزدار سے وزیر اعلیٰ ہاؤس میں ملاقات کی انہیں اپنی غیر مشروط حمایت کا یقین دلایا ہے۔ملاقات میں صوبے کے عوام کی خدمت کے لئے مل کر کام جاری رکھنے پر اتفاق کیا گیا۔لیگی اراکین (اور پی پی پی کے رکن نے بھی)کہا ہے کہ ہم آپ کے ساتھ ہیں اور ساتھ رہیں گے۔وزیر اعلیٰ بزدار نے ملاقات کے لئے آنے والے اراکین کو یقین دلایا کہ آپ میرے لئے قابلِ احترام ہیں آپ کے جائز کام ہر صورت میں ہوں گے۔اطلاعات کے مطابق وزیر اعلیٰ متعلقہ ڈپٹی کمشنرکو ہدایات جاری کر دی ہیں کہ مذکورہ اراکین کو حکومتی اراکین کا درجہ دیا جائے اور ان کے مسائل حل کئے جائیں۔ نون لیگ کے ایم پی اے نشاط ڈاہا نے کہا ہے ابھی فارورڈ بلاک نہیں بنایا لیکن وقت آنے پر کوئی بھی فیصلہ ہو سکتا ہے۔مسلم لیگ میں جرأت ہے تو 15ارکان کے خلاف ایکشن لے کر دکھائے۔ انہوں نے اپنے فیصلے کا دفاع کرتے ہوئے کہا:”ہاں میں لوٹا ہوں مگر پاکستان میں کون لوٹا نہیں؟نواز شریف، شہباز شریف، یوسف رضا گیلانی، شاہ محمود خود لوٹے ہیں تحریک انصاف تو ساری لوٹوں کے ذریعے بنی ہے۔اس سے معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے اپنا مکمل ہوم ورک کیا ہواہے اور یقین رکھتے ہیں آنے والے دنوں میں جو حالات پیدا ہوں گے وہ ان کا مقابلہ کریں گے اور کامیاب ہوں گے۔ ایسی اطلاعات کچھ عرصے سے گشت کر رہی تھیں کہ مسلم لیگ نون اور پی پی پی کے بعض اراکین اپنے قیادت کی پالیسی سے ناخوش اراکین کی معقول تعداد حکومت کے ساتھ جانے کا جلد ہی اعلان کرے گی،ملاقات نے ان افواہوں کو سچ کر دکھایا۔لیکن یہ بھی سچ ہے کہ ایسا پہلی بار نہیں ہواپاکستان میں یہ عمل بار بار دہرایا گیا ہے قریب ترین واقعہ پرویز مشرف کے دور میں رونما ہوا تھا جب نیب کا قیام اورسیاسی وفاداریوں کی تبدیلی ایک ساتھ دیکھی گئی۔اب تو پی ٹی آئی کے رکن قومی اسمبلی نور عالم بھی ہاؤس میں کہنے لگے ہیں زیادہ بولوں تو نیب پوچھنا شروع کردیتا ہے تم نے اثاثے کیسے بنائے؟ حالانکہ میں انہیں کئی سو سال کا ریکارڈ دے سکتا ہوں۔پی ٹی آئی کے ایم این اے نور عالمنے قومی اسمبلی کے فلور پر اپنی قیادت پر مہنگائی میں ناقابلِ برادشت اضافے پر کڑی تنقید کی تھی اور اس اقدام کو پارٹی منشور اور عوام کے مفادات کے منافی قرار دیا تھا۔اپوزیشن نے ان کی تقریر پر ڈیسک بجا کرخوشی کا اظہار کیا تھا۔سیاست چوں چوں کا مربّہ بن جائے تومستقبل کے بارے میں کوئی پیش گوئی مشکل ہو جا تی ہے۔نشاط ڈاہانے کھل کر بات کی ہے انہوں نے صاف اور سادے الفاظ میں عام آدمی کو یہ حقیقت بتا دی ہے کہ اپوزیشن کی دونوں پارٹیاں خاندانی جائیداد بننے کی بناء پر اندر سے کھوکھلی ہو چکی ہیں،عام آدمی کے لئے ان پارٹیوں کی قیادت شجرِ ممنوعہ ہے عام آدمی کا کام اپنی پارٹی کی قیادت کے زندہ باد اور مخالفین کے لئے مردہ باد کے نعرے بلندکرنا ہے اور وہی کہنا اور وہی کرنا ہے جو پارٹی قائد حکم دے۔جو پارٹیاں خاندان تک محدود ہوجائیں وہ انجام کاراپنے قائدین کی اونچی حویلیوں تک سکڑ جاتی ہیں۔ قیادت مشکل وقت میں خاندان سمیت اپنے اثرورسوخ اور مالی وسائل کے بل پرلندن،دبئی اورسعودی عرب ”جلاوطنی“ اختیار کر لے تو درمیانے اور نچلے درجے کی لیڈرشپ سیاست سے کنارہ کش ہوجاتی ہے یا حکمران جماعت کا حصہ بن جاتی ہے۔پاکستان میں مسلم لیگ نون اور پی پی پی ٹوٹ پھوٹ اور انہدام کے مرحلے سے گزر رہی ہیں۔ہمسایہ ملک بھارت میں کانگریس ماضی کی بڑی سیاسی جماعت تھی نہرو خاند ان کی میراث بن کر رہ گئی تو دہلی میں عام آدمی پارٹی کا مقابلہ کرنے کے قابل نہیں رہی۔بلاول بھٹو زرداری پی پی پی کے گڑھ لیاری (کراچی) میں ہار گئے۔یاد رہے سیاست میں صرف نوجوان قیادت کام نہیں آتی جوان خیالات اور زندہ تصورات کی ضرورت ہوتی ہے۔ پرانے نعرے وقت گزرنے کے ساتھ فرسودہ ہوکر اپنی دلکشی کھو دیتے ہیں۔نواز شریف نے جب نظریاتی ہونے کا نعرہ لگایا تو بعض تجزیہ کاروں نے اسے سچ جانا دوسروں نے حیرت کا اظہار کیا۔یہی کچھ اس وقت دیکھنے میں آیا جب بلاول بھٹو زرداری نے بحریہ ٹاؤن کے وسیع و عریض محل سے نکل کرلیاری میں رہنے والوں کو پانی فراہم کیامگرسندھ حکومت سے اپنا وعدہ پورا نہ کرا سکے تو لیاری والوں نیاان سے سیاسی رشتہ توڑ لیا۔جھوٹے وعدے تو شریف فیملی بھی کرتی ہے۔عا م آدمی کے لئے نون لیگ اور پی پی پی میں کوئی فرق نہیں رہا، ورنہ پی پی پی کا ایک ایم پی اے چھ نون لیگی ایم پی ایز کے ساتھ وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار سے ملاقات نہ کرتا،انہیں یقین نہ دلاتا:”میں آپ کے ساتھ ہوں اور آپ کے ساتھ رہوں گا“۔بلکہ اب تو یہ بھی سننے میں آرہا ہے کہ آئندہ الیکشن بھی پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر لڑیں گے اورلگتا یہی ہے کہ جانے والے پی پی پی یا نون لیگ میں واپس نہیں آئیں گے۔انہوں نے دکھی دل کے ساتھ اپنے پرانے رشتے مستقل طور پر ختم کرنے کے بعد عثمان بزدار سے ملاقات کی ہے۔دونوں پارٹیوں کی قیادت کے لمحہ فکریہ ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں