بین الافغان مذاکرات میں تاخیر: افغان حکومت کی طالبان کو نئی پیش کش

اسلام آباد :افغان طالبان نے خبردار کیا ہے کہ قیدیوں کی رہائی میں تاخیر کا عمل بین الافغان مذاکرات پر اثر انداز ہو سکتا ہے جو کسی کے مفاد میں نہیں ہو گا جب کہ افغانستان کی قومی سلامتی کونسل کے ترجمان کا کہنا ہے کہ انہوں نے طالبان کو ایک نئی پیش کش کی ہے۔
افغانستان کی قومی سلامتی کونسل کے ترجمان جاوید فیصل نے وائس آف امریکہ کو بتایا ہے کہ قیدیوں کے تبادلے کے حوالے سے انہوں نے طالبان کو (نئی) پیشکش کی ہے۔ اس ضمن میں 592 مزید طالبان قیدیوں کی رہائی پر غور کر رہے ہیں۔
ترجمان نے طالبان کو کی جانے والی پیش کش کی مزید وضاحت نہیں کی۔جاوید فیصل کے مطابق طالبان کو قیدیوں کی نئی فہرست فراہم کرنے میں کوئی مسئلہ نہیں ہونا چاہیے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ طالبان حقیقی قیدیوں کی رہائی کے بجائے مبینہ طور پر ان افراد کی رہائی پر بضد ہیں جو منشیات فروشی، غیر ملکی افراد، انسانی اور خواتین کے حقوق کی پامالی کی کارروائیوں میں ملوث ہیں۔
طالبان کے دوحہ ميں قائم سياسی دفتر کے ترجمان سہيل شاہين نے افغان حکومت کی جانب سے عائد کردہ الزمات کی سختی سے تردید کی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ افغان حکومت کو قیدیوں کی جو فہرست دی ہے ان میں تمام قیدی سیاسی ہیں۔ اُنہیں دوحہ میں ہونے والے امن معاہدے کے مطابق رہا ہونا چاہیے۔
ياد رہے کہ امریکہ اور طالبان کے درميان رواں برس فروری میں ہونے والے امن معاہدے کے تحت افغان حکومت نے طالبان کے پانچ ہزار قيدی رہا کرنا ہيں جب کہ طالبان بھی افغان حکومت کے 1000 قيديوں کو رہا کرنے کے پابند ہیں۔
ليکن اب تک افغان حکومت نے طالبان کے 4000 سے زائد جب کہ طالبان نے اپنی حراست میں موجود افغان حکومت کے 700 سے زائد قيدی رہا کیے ہيں۔
افغان حکام نے طالبان کی جانب سے فراہم کردہ فہرست میں سے 600 قیدیوں کو رہا کرنے سے انکار کر دیا تھا۔
سہیل شاہین کے مطابق طالبان قیدیوں پر مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث ہونے کے الزامات حربہ ہیں جو امن کی راہ میں رکاوٹ تو ضرور بن سکتے ہیں لیکن یہ حل نہیں ہے۔
اُن کے بقول تمام قیدیوں کی رہائی کے بعد امن مذاکرات کا پہلا دور قطر کے دارالحکومت دوحہ میں متوقع ہے۔
اس سے قبل طالبان ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے بھی معاملات کو حل کرنے کے لیے دوحہ امن معاہدے پر عمل درآمد پر زور دیا تھا۔
اتور کو اپنے ایک ٹوئٹ میں انہوں نے کہا تھا کہ اگر کوئی مذاکرات سے قبل جنگ بندی کی بات کرتا ہے تو یہ غیر منطقی عمل ہے۔ موجودہ حالات میں اُن کے پاس جنگ جاری رکھنے کے علاوہ کوئی متبادل راستہ نہیں ہے۔
دریں اثنا سفارتی سطح پر بھی افغان حکومت اور طالبان کے درمیان بات چیت کے عمل میں مثبت پیش رفت کے اشارے مل رہے ہیں۔
پشاور یونیورسٹی کے شعبہ پاکستان اسٹیڈیز سینٹر کے ڈائریکٹر پروفیسر ڈاکٹر فخر الاسلام کے مطابق افغان صدر اشرف غنی کابل کی باگ ڈور سنبھالے ہوئے ہیں لیکن دلچسپ امر یہ ہے کہ برِ سر اقتدار شخص کو امریکہ اور طالبان کے درمیان طے پانے والے معاہدے سے مکمل طور پر باہر رکھا گیا تھا۔ ان کے نزدیک یہی اس امن معاہدے کی سب سے بڑی خرابی تھی۔ان کے بقول اگرچہ طالبان کے پاس عسکری طاقت ہے لیکن اشرف غنی سیاسی طور پر کابل میں پُر اعتماد شخصیت ہیں۔
ڈاکٹر فخر الاسلام کا کہنا ہے کہ امن معاہدے سے قبل ایک عام تاثر تھا کہ امریکہ ہی افغانستان کے تمام معاملات کو چلاتا ہے لیکن اشرف غنی کی حکومت نے اس تاثر کو زائل کر دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قیدیوں کی رہائی یک مشت نہیں بلکہ مرحلہ وار ہو رہی ہے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ وہ افغان حکومت اور طالبان کے درمیان حالیہ تناؤ کو عارضی سمجھتے ہیں۔افغان امور کے ماہر اور سینئر صحافی سمیع یوسف زئی کا کہنا ہے کہ طالبان اس بات پر بضد ہیں کہ انہوں نے افغان حکومت کو مکمل تحقیق کے بعد قیدیوں کی فہرست فراہم کی تھی اور وہ ان تمام قیدیوں کی رہائی چاہتے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں