غیر ملکی طلبہ کی واپسی روکنے کے لیے 17 ریاستوں کا ٹرمپ حکومت پر مقدمہ

کولمبیا :امریکہ کی 17 ریاستوں اور ڈسٹرکٹ آف کولمبیا نے ٹرمپ انتظامیہ کے اس فیصلے کے خلاف عدالت سے رجوع کر لیا ہے جس کے مطابق آن لائن کلاسیں لینے والے غیر ملکی طلبہ کے ویزے منسوخ کر دیے جائیں گے۔
گزشتہ ہفتے ریاست کیلی فورنیا نے اسی طرح کا الگ مقدمہ دائر کیا تھا جب کہ ہارورڈ یونیورسٹی اور میساچوسٹس انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی کی ایسی ہی درخواست کی سماعت منگل کو ہو گی۔ ملک بھر کی 200 سے زیادہ یونیورسٹیوں نے ہارورڈ اور ایم آئی ٹی کے حق میں بیانات عدالت میں داخل کرائے ہیں۔
امیگریشن اینڈ کسٹمز انفورسمنٹ کی جانب سے ایک ہفتہ قبل جاری کیے گئے بیان میں کہا گیا تھا کہ موسمِ خزاں میں شروع ہونے والے تعلیمی سال کے لیے ان طلبہ کو ویزا جاری نہیں کیا جائے گا جن کی تمام کلاسیں آن لائن ہوں گی اور جو طلبہ ملک میں موجود ہیں، انھیں واپس جانا پڑے گا۔
سترہ ریاستوں نے عدالت میں داخل کی گئی درخواست میں کہا ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ کے حکم نامے سے کالجوں اور یونیورسٹیوں کی احتیاط سے کی گئی منصوبہ بندی ناکام ہو جائے گی جو وہ کئی مہینوں سے کر رہی تھیں۔ اس کے نتیجے میں بہت سے طلبہ کو وبا کے دوران وطن جانا پڑے گا جہاں ان کی تعلیم حاصل کرنے کی اہلیت شدید متاثر ہو سکتی ہے۔
میساچوسٹس کی اٹارنی جنرل مورا ہیلی نے مقدمے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ ٹرمپ انتظامیہ نے ایڈمنسٹریشن پروسیجر ایکٹ کے خلاف ورزی کی ہے۔ اس نے یہ تک بتانے کی زحمت نہیں کی کہ اس ناسمجھی کے فیصلے کی بنیاد کیا ہے۔ اس کی وجہ سے تعلیمی اداروں کو اس انتخاب پر مجبور ہونا پڑے گا کہ وہ یا تو صحت عامہ کو لاحق خطرات کے باوجود کیمپس کھولیں یا اپنے غیر ملکی طلبہ کو وطن واپس جانے پر مجبور کریں۔
بوسٹن کی امریکی ڈسٹرکٹ کورٹ میں دائر کی گئی درخواست وفاقی حکم نامے کو چیلنج کرنے کی تازہ قانونی کوشش ہے۔ اس حکم نامے کو ریاستوں اور یونیورسٹیوں نے ٹرمپ انتظامیہ کا سیاسی اقدام قرار دیا ہے جس کا مقصد موسم خزاں میں طلبہ کی حاضری پر مجبور کرنا ہے جب کہ بہت سے تعلیمی ادارے اعلان کر چکے تھے کہ صحت عامہ کو لاحق خطرات کی وجہ سے زیادہ کلاسیں آن لائن ہوں گی۔
وفاقی ہدایت نامے کے بعد غیر ملکی طلبہ نے پریشان ہو کر ایسے کورسز کی تلاش شروع کر دی تھی جس میں کیمپس کی حاضری ضروری ہو گی۔ ایسے کورسز کم دستیاب ہیں۔ بہت سی یونیورسٹیاں منصوبہ بنا رہی ہیں کہ چند آن لائن اور چند حاضری والی کلاسوں پر مشتمل کورس پیش کیے جائیں تاکہ وبا کے دوران اساتذہ، طلبہ اور کمیونٹی کی صحت کا تحفظ کیا جا سکے۔
وائٹ ہاؤس کی ترجمان کیلے میک اینانی نے گزشتہ ہفتے انتظامیہ کے فیصلے کا دفاع کیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ کسی تعلیمی ادارے، مثلاً فینکس یونیورسٹی سے آن لائن کلاسیں لینے کے لیے کسی ویزے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ تو پھر ان غیر ملکی طلبہ کو کیوں چاہیے؟ شاید بہتر مقدمہ ان طلبہ کو کرنا چاہیے جنھوں نے ٹیوشن کی پوری فیس دی ہے لیکن انھیں کیمپس میں کلاسیں نہیں ملیں گی۔
ان 17 ریاستوں اور ڈسٹرکٹ آف کولمبیا میں مجموعی طور پر 1124 کالج اور یونیورسٹیاں ہیں جن میں 2019 میں 3 لاکھ 73 ہزار غیر ملکی طلبہ نے داخلہ لیا تھا۔ عدالت میں داخل کی گئی درخواست کے مطابق ان طلبہ کی وجہ سے معیشت کو 14 ارب ڈالر کا فائدہ ہوا تھا۔
مجموعی طور پر امریکہ میں گزشتہ سال 11 لاکھ غیر ملکی طلبہ نے تعلیم حاصل کی اور امریکی تعلیمی اداروں میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے والوں میں ان کا تناسب 5٫5 فیصد تھا۔
اعلی تعلیم کے تقریباً 40 اداروں نے اس مقدمے کی حمایت میں بیانات جمع کرائے ہیں جن میں ژیل، ڈی پال، شکاگو یونیورسٹی، ٹفٹس اور رٹجرز کے علاوہ الی نوئے، میری لینڈ، میساچوسیٹس، منی سوٹا اور وسکونسن کی اسٹیٹ یونیورسٹیاں شامل ہیں۔
ہارورڈ اور ایم آئی ٹی کے مقدمے میں جن تعلیمی اداروں نے درخواست گزاروں کی حمایت میں بیانات جمع کرائے ہیں ان میں اسٹینفورڈ اور ڈیوک کے علاوہ آئی وی لیگ کی سات یونیورسٹیاں بھی شامل ہیں۔ ان میں کہا گیا ہے کہ حکومت کی پالیسی میں اچانک اور بنیادی تبدیلی سے تعلیمی اداروں کی تیاریوں کو دھچکا لگا ہے اور شدید نقصان پہنچ رہا ہے۔
دس جولائی کو 180 یونیورسٹیوں پر مشتمل پریزیڈنٹس الائنس آن ہائؕیر ایجوکیشن اینڈ امیگریشن نے اس مقدمے کے حق میں بیان داخل کیا تھا۔ تنظیم کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر میریئم فیلڈبلم نے ایک بیان میں کہا کہ غیر ملکی طلبہ کے حق میں آواز اٹھانے والے تعلیمی اداروں کی تعداد سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان طلبہ کے لیے کتنی حمایت موجود ہے اور یہ ہمارے کیمپسز کے لیے ان کے غیر معمولی تعاون کا اعتراف ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں