امن عمل میں پیش رفت ہوئی لیکن طالبان کے حملے قابل مذمت ہیں: خلیل زاد

اسلام آباد :امریکہ کے نمائندہ خصوصی برائے افغانستان زلمے خلیل زاد نے شمالی صوبے سمنگان میں افغان انٹیلی جنس کے دفتر پر طالبان کے حملے کی مذمت کرتے ہوئے تمام فریقوں سے تشدد کم کرنے زور دیا ہے۔
خلیل زاد کا کہنا تھا کہ صوبائی دارالحکومت ایبک میں پیر کو ہونے والا طالبان کا حملہ ان کی طرف سے بین الافغان مذاکرات شروع ہونے سے قبل تشدد کم کرنے کے عزم کی نفی ہے۔
خلیل زاد نے منگل کو اپنی متعدد ٹوئٹس میں کہا کہ "ہم اس حملے کی مذمت کرتے ہیں۔ صوبائی دارالحکومت میں ایک گاڑی کو اڑانے کے لیے دھماکہ خیز مواد کا استعمال ناقابل قبول ہے۔”
ان کے بقول "یہ کارروائی ان لوگوں کو مضبوط کرے گی جو امن کی مخالفت کرتے ہیں اور ایسا کرنا بگاڑ پیدا کرنے والوں کے ہاتھوں میں کھیلنا ہے۔” خلیل زاد نے مزید کہا کہ افغانستان میں تمام فریقوں کو تشدد کم کرنا ہوگا۔
پیر کو افغانستان کے شمالی صوبے سمنگان کے دارالحکومت ایبک میں افغان انٹیلی جنس ایجنسی کے دفتر پر ہونے والے حملے میں 11 افغان سیکیورٹی اہل کار ہلاک ہو گئے تھے جب کہ اس حملے میں 60 سے زائد عام شہری زخمی بھی ہوئے۔
مبینہ طور پر چار عسکریت پسندوں نے افغان نیشنل سیکورٹی ڈائریکٹوریٹ ( این ڈی ایس) کے دفتر کے مرکزی دروازے کو دھماکہ خیز مواد سے بھری گاڑی سے نشانہ بنایا اور اس کے بعد انہوں نے عمارت پر حملہ کر دیا۔
صوبائی گورنر عبدالطیف نے ریڈیو فری یورپ/ریڈیو لبرٹی کو بتایا کہ حملے کے بعد سیکیورٹی اہلکاروں اور حملہ آوروں کے درمیان کئی گھنٹوں تک فائرنگ کا تبادلہ ہوا جس دوران چاروں حملہ آور ہلاک ہو گئے۔
دوسری طرف سماجی رابطے پر جاری ایک بیان میں طالبان نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔
حال ہی میں افغانستان میں تشدد کی کارروائیوں پر امریکہ اور بین الااقومی برادری تشویش کا اظہار کرتی رہی ہے۔
یہ حملہ ایسے وقت ہوا ہے جب افغان حکومت اور طالبان کے درمیان امریکہ اور طالبان کے درمیان دوحہ میں طے پانے والے معاہدے کے تحت قیدیوں کی رہائی میں پیش رفت ہو چکی ہے لیکن بعض قیدیوں کی رہائی کے معاملے پر فریقین کے درمیان تعطل برقرار ہے۔
زلمے خلیل زاد نے کہا کہ "ہم دوحہ میں 29 فروری کو امریکہ اور طالبان کے درمیان طے پانے والے امن معاہدے پر عمل درآمد کے لیے 135 دن کے سنگ میل پر پہنچ گئے ہیں۔
ان کے بقول اس معاہدے کے تحت پہلے مرحلے کی ذمہ داریوں کو پورا کرنے کے لیے سخت محنت کی گئی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ افغانستان میں تعینات امریکی فورسز کی تعداد میں کمی، پانچ فوجی اڈوں کو خالی کرنا اور نیٹو اتحاد کی فورسز میں کمی بھی اسی معاہدے کا حصہ تھا جس پر عمل درآمد کیا گیا۔
خلیل زاد کا کہنا تھا کہ قیدیوں کی رہائی کے عمل میں سست روی کے باوجود بڑی پیش رفت ہو چکی ہے۔ ان کے بقول طالبان اور افغان حکومت کی مذاکراتی ٹیموں نے بین الافغان مذاکرات کے لیے درکار لوازمات کے لیے تیار ی کر لی ہے۔
زلمے خلیل زاد نے اگرچہ تسلیم کیا ہے کہ طالبان کی طرف سے جاری تشدد میں اب تک کسی امریکی کی جان نہیں گئی ہے۔ تاہم ان کے بقول انسداد دہشت گردی کے معاملے پر مزید پیش رفت کی ضروت ہے۔
اُن کے بقول حالیہ عرصے میں افغانستان میں تشدد کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے اور بغیر کسی وجہ کے بڑی تعداد میں افغان شہری ہلاک ہو رہے ہیں۔
خلیل زاد نے اپنی ٹوئٹ میں مزید کہا کہ "جیسا کہ ہم معاہدے عمل درآمد کے اگلے مرحلے کے منتظر ہیں۔ ہمارا نکتہ نظر شرائط پر مبنی رہے گا۔ ہم قیدیوں کی رہائی، تشدد میں کمی ،انسداد دہشت گردی کے وعدوں پرعمل درآمد اور بین الافغان مذاکرات کے آغاز اور اس میں پیشرفت کے لیے دباؤ ڈالیں گے۔
یاد رہے کہ امریکہ اور طالبان کے درمیان 29 فرروری کو طے پانے والے معاہدے کے 135 دنوں کے اندر امریکہ نے اپنی فورسز کی تعداد کو کم کر کے 8600 کی سطح پر لے آنا تھا۔
طالبان نے اس بات کی ضمانت دی تھی کہ وہ اپنے زیرِ اثر علاقوں میں کسی گروپ کو پرتشدد سرگرمیوں کی اجازت نہیں دیں گے جو امریکہ یا کسی دوسری ملک کے لیے خطرہ ہوں گے۔
معاہدے کے تحت افغان حکومت اور طالبان کے درمیان قیدیوں کے تبادلے کے بعد بین الافغان مذاکرات کا آغاز ہو نا تھا اگرچہ ابھی افغان حکومت نے طالبان کے پانچ ہزار قیدیوں میں سے چار ہزار سے زائد کو رہا کر دیا ہے جب کہ طالبان نے افغان حکومت کے 700 سے زاہد قیدی رہا کر دیے ہیں۔
دوسری طرف امریکہ کے وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے روسی وزیر خارجہ سر گئی لاوروف سے پیر کو فون پر بات کی۔
امریکی محکمہ خارجہ کی طرف سے جاری ایک یبان کے مطابق وزیر خارجہ پومپیو اور ان کے روسی ہم منصب لاوروف نے اقوامِ متحدہ کے قیام کے 75 ویں سالگرہ کی یاد منانے کے لیے مستقبل قریب میں سلامتی کونسل کے پانچ مستقل ارکان کے رہنماؤں کا اجلاس بلانے پر تبادلہ خیال کیا ہے۔بیان کے مطابق امریکی اور روسی وزرائے خارجہ نے افغانستان سمیت دیگر امور پر بھی تبادلہ خیال کیا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں