شال سے کوہ سلیمان

جیند ساجدی
ماہر جغرافیہ کو ہ سلیمان کو ایرانی سطح مرتفع کااختتامی حدود سمجھتے ہیں۔ان کے مطابق ایرانی سطح مرتفع ایران کے شمالی علاقے البرز جوکیسپیئن سمندر کے جنوب میں واقع ہے یہ سطح مرتفع البرز سے شروع ہو کر کوہ سلیمان کی مشرقی حدود یعنی دریائے سندھ (Indus River)میں ختم ہوتا ہے۔ ماہر جغرافیہ کے مطابق کوہ سلیمان ایرانی سطح مرتفع کو بر صغیر سے جدا کرتا ہے۔برطانوی راج کے دور میں ایک انگریز سرکاری ملازم جب دریائے سندھ کے مغرب کے طرف یعنی کوہ سلیمان کی طرف آئے تھے تو انہوں نے یہ تحریر کیا تھا کہ ”دریائے سندھ کے مشرق (سندھ اور پنجاب) میں ایک اور دنیا آباد ہے جبکہ دریائے سندھ کی مغرب (بلوچستان)میں ایک اور دنیا آباد ہے۔یہ علاقہ بر صغیر سے بلکل مختلف ہے۔بر صغیر کی طرح یہ علاقہ سرسزب وشاداب نہیں اور نہ ہی بر صغیر کی طرح میدانی علاقہ ہے۔اس پہاڑی علاقہ کا جغرافیہ بر صغیر کی نسبت وسطی ایشیاء سے ملتا جلتا ہے۔“بلوچستان میں کوہ سلیمان تین چیزوں کی وجہ سے جانا جاتا ہے۔ایک بلوچی حال احوال،جس میں سفر کرنے کے بعد مہمان میزبان کو اپنی طبیعت کا حال،سفر کا حال اور موسم کے مطابق معلومات دیتا ہے اور اس کے جواب میں مہمان بھی علاقے کی صورتحال،اپنی طبیعت اور موسم کے بارے میں معلومات دیتا ہے۔غالباً یہ حال احوال کی رسم قدیم بلوچی ثقافت کا حصہ ہے لیکن اب اسے صرف کوہ سلیمان میں آباد بلوچ قبیلے ہی برقرار رکھے ہوئے ہیں۔کوہ سلیمان کی معروفی کی دوسری وجہ اس کی موسیقی وشاعری ہے جسے نڑسر کہتے ہیں۔نڑسر ایک ایسے قسم کی شاعری ہوتی ہے جس میں شاعر ماضی کی جنگوں کی داستانیں اور اپنے شہیدوں کو یاد کرتا ہے۔تیسری وجہ سلیمانی زبان ہے جو بلوچی کی ایک بولی ہے۔اس بولی کے علاوہ بلوچی کی دو اور بولیاں رخشانی اور مکرانی کہلاتی ہیں۔رند و لاشاردور میں شاعری کو موجودہ بلوچستان میں بہت فروغ ملا جس نے بلوچ تاریخ کو محفوظ رکھنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔رند ولاشار دور کی شاعری اکثرسلیمانی بلوچی میں کی گئی ہے۔دیرانہ خواہش تھی کہ کوہ سلیمان کا دور ہ کیا جائے جب کوہ سلیمان کے ایک چھوٹے سے گاؤں کھرر بزدار کے ایک دوست نے اپنے گاؤں مدعو کیا تو وہاں کچھ دن گزارنے کا اتفاق ہوا۔کھرر بزدار جہاں ہمارے میزبان کا گھر تھا وہ کوئٹہ سے تقریباً 6گھنٹے کی مسافری پر واقعہ ہے۔کھرر بزدار پہنچنے کے لئے پہلے بارکھان کی خوبصورت تحصیل رکھنی جانا پڑتا ہے۔
رکھنی سے کھرر بزدار محض 30کلو میٹر کے فاصلے پر ہے لیکن خستہ سڑک کی وجہ سے کھرر پہنچنے میں ایک گھنٹہ لگ جاتا ہے۔کھرر بزدار کا کچھ حصہ ضلع بارکھان میں ہے جب کہ کچھ حصہ ڈیرہ غازی میں سفر کا پہلا حیران کن تجربہ یہ ہوا کہ جہاں تک کھیتران قبیلہ آباد ہے وہاں کی سڑک پختہ ہے۔جب کہ جہاں سے بزدار قبیلے کی زمینیں شروع ہوتی ہیں وہاں سڑک کچی اور خستہ حالت میں ہے۔اس کے علاوہ کھیترانوں کی زیلی شاخ وگہ کھیترانوں کے علاقے کی سڑکیں بھی کچی ہے۔معلوم یہ ہوا کہ بارکھان کے ایم پی اے کا تعلق کھیتران قبیلے سے ہے اور غالباً قبائلی تعصب کی وجہ سے انہوں نے اپنے علاقے کی کچھ سڑکیں اس لئے نہیں بنائی کیونکہ وہاں ان کا قبیلہ آباد نہیں۔جب کہ وگہ کھیترانوں نے ایم پی اے سے ذاتی دشمنی کی وجہ سے اپنے زمینوں کی سڑک پختہ ہونے نہیں دی۔اس سے علاقے کے منتخب رہنماء کی ذہنی پسماندگی کا علم ہوا شاید دور کوئی اور چل رہا ہے اور وہ کسی اور دور میں رہ رہے ہیں۔قبائلی نظام اور سوچ بلوچ معاشرے میں اپنی آخری سانسیں لے رہا ہے۔ایک بلوچ دانشور کے مطابق بلوچ اب قبائلیت سے نکل کر قوم بننے کی طرف جارہا ہے۔اس بات کا واضح ثبوت 2018ء کے انتخابات تھے جس میں بارکھان سے ایک قوم پرست جماعت سے تعلق رکھنے والے امیدوار کریم کھتیران کو محض چند ہی ووٹوں سے شکست ہوئی تھی۔بعض لوگو ں کا یہ خیال ہے کہ اگر شفاف انتخابات ہوتے تو کریم کھیتران کامیاب ہوجاتے۔سفر کا دوسرا حیران کن تجربہ صوبہ بلوچستان اور پنجاب کی سرحد بندی پر ہوا ہمارے میزبان کا گھر صوبہ پنجاب میں واقع تھا اور بلوچستان کی سرحدان کے گھر سے کچھ ہی قدم کے فاصلے پر تھی۔علاقے کے مکینوں کے مطابق کھرر بزدار میں ایسے بھی گھر ہیں جن کہ دو کمرے پنجاب میں ہیں اور دو بلوچستان میں۔پاکستان میں صوبوں کی سرحد بندی نو آبادیاتی دور کی عکاسی کرتا ہے۔یہاں صوبے 1970ء میں بنائے گئے لیکن لسانی،ثقافتی اور تاریخی بنیادوں پر صوبے بنانے کی بجائے حکام نے یہاں کثیرالسانی صوبے بنائیں جنہیں انتظامی صوبوں کا نام دیا گیا دراصل یہ نام نہاد انتظامی صوبے برطانوی راج نے بنائے تھے۔لسانی اور ثقافتی لحاظ سے کوہ سلیمان بلکل بھی پنجاب کا حصہ نہیں لگتا اور تاریخی دور میں کبھی پنجاب کا حصہ نہیں رہا۔یہاں پہلی بلوچ ریاست کی بنیاد ملک سوراب دو دائی نے رکھی تھی۔دو دائیوں کو تاریخ دان ھوت بلوچ قرار دیتے ہیں۔ملک سوراب دودائی کے تین بیٹے تھے،غازی خان،اسماعیل خان اور فتح خان۔ڈیرہ غازی خان ڈیرہ اسماعیل خان اور ڈیرہ فتح خان (ملتان) کے نام ملک سوراب دودائی کے بیٹوں کی وجہ سے رکھے گئے ہیں۔ 18ویں صدی میں رنجیت سنگھ کی قیادت میں سکھ ایک بڑی طاقت بن کر ابھرے اور انہوں نے بہت سے علاقوں پر قبضہ کیا۔1819ء میں کوہ سلیمان کے بلوچوں کو بھی سکھوں کی ہاتھوں شکست ہوئی۔اس طرح کوہ سلیمان کے کچھ علاقے پنجاب یا سکھ سلطنت کا حصہ بنے۔کوہ سلیمان کے قبائلوں نے سکھ حکومت کو کبھی تسلیم نہیں کیااور ان کے خلاف مزاحمت کرتے رہتے تھے اس لئے اکثر سکھ سپاہی کوہ سلیمان کی شہروں میں ہی محدود رہتے تھے اور دور دراز علاقوں کا دورہ کرنے سے اجتناب کرتے تھے۔
1849ء میں سکھوں کی حکومت کا خاتمہ انگریزوں نے کیااور اس علاقے کی جغرافیہ،ثقافت اور تاریخ کو نظر انداز کر کے انہوں نے بھی اس علاقے کو پنجاب میں شامل کئے رکھا۔قیام پاکستان کے بعد پاکستانی اشرافیہ نے بھی انگریزوں کی بنائی گئی صوبائی حدود کے تحت صوبے بنائے۔بہرحال میزبان کے گھر پہنچتے ہی پہلی مرتبہ بلوچی حال دینے کا تجربہ ہوا اس سے قبل ساراوان،جھالاوان،کچھی اور رخشان جانے کا اتفاق ہوا ہے لیکن وہاں اس طرز کا بلوچی حال دینے کا شاید اب رواج نہیں رہا۔عنایت اللہ بلوچ اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ ”بلوچ اپنے ہندوستانی پڑوسیوں (سندھیوں اور پنجابیوں)سے کافی مختلف ہے۔بلوچوں کا لباس،پگڑی اور خوراک اپنے ہندوستانی پڑوسیوں سے مختلف ہے۔بلوچوں کا روایتی کھانا سجی ہے جس میں مرچ مصالحہ بلکل استعمال نہیں ہوتا اور صرف گوشت پر نمک لگایا جاتا ہے جب کہ بلوچوں کی نسبت اس کے ہندوستانی پڑوسی باکثرت اپنے کھانوں میں مرچوں کا استعمال کرتے ہیں۔“جب ہمیں رات کا کھانا پیش کیا گیا تو سجی سمیت تمام ہی کھانوں میں کثرت سے مصالحوں کا استعمال کیا گیا تھا مصالحے والی سجی کھانے کا یہ پہلا تجربہ تھا اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ کوہ سلیمان کے رہائشیوں کے کھانوں میں اب برصغیر کا اثر بڑھ گیا ہے اور غالباً وہ بھی مرچ مصالحے کے عادی بن گئے ہیں۔انگریز بھی اب اپنے کھانوں میں کالی مرچ کا استعمال کرتے ہیں اس کالی مرچ کا تجربہ انگریزوں کو پہلی مرتبہ بر صغیر میں ہوا تھا بعد میں وہ اس کے عادی بن گئے۔
رات کو موسم توقع سے زیادہ خوش گوار اور سرد تھا صبح جلدی آنکھ کھل گئی اور کھرر بزدار کا دن کا پہلا نظارہ کیا کھرر بزدار دیگر بلوچستان کی نسبت سرسبز ہے اور پہاڑوں پر کچھ درخت دیکھنے میں ملتے ہیں یہاں زمین بہت کم ہے اور پانی کی بھی بہت قلت ہے اس لئے یہاں زمینداری تو کچھ لوگ کرتے ہیں لیکن اس طرح کی زمین آباد نہیں جو رکھنی،وڈھ،گریشہ،بیلہ وغیرہ میں دیکھنے کو ملتی ہے۔البتہ سرسبز پہاڑوں کی وجہ سے یہ علاقہ مویشی پالنے کے لئے بہت اچھا ہے یہاں بزدار قبیلہ آباد ہے جس کے معنی بکریاں پالنے والوں کے ہیں۔اپنے پیشے یعنی بکریاں پالنے کی وجہ سے اس قبیلے کا نام بزدار پڑا غالباً اپنے پیشے کی اعتبار سے بزدار قبیلے نے اس پہاڑی علاقے کو اپنی رہائش گاہ بنانے میں ترجیح دی ہوگی۔موجودہ پنجاب کے وزیراعلیٰ سردار عثمان بزدار کا حلقہ بھی یہی ہے اور ان کا آبائی گاؤں بھارتی کھرر بزدار سے محض50کلو میٹر کے فاصلے پر ہے لیکن بھارتی جانے کا تجربہ نہیں ہوا کیونکہ خستہ سڑک اور پہاڑی سلسلے کی وجہ سے کھرر سے بھارتی کے 50کلو میٹر کا سفر کرنے میں 6گھنٹے لگ جاتے ہیں اس سے اس علاقے کا پسماندگی کا اندازہ ہوتا ہے۔مبارکی جو کہ خوبصورت پہاڑی سلسلہ ہے یہ بلوچستان کی نسبت گلگت بلتستان سے زیادہ مماثلت رکھتا ہے وہاں جانے کا اتفاق ہوا وہاں زمین تقریباً نہ ہونے کے برابر ہے اور لوگوں کا گذر بسر مویشیوں پر انحصار کرتا ہے مبار کی سڑک حال ہی میں عثمان بزدار نے بنوائی ہے اور اپنے علاقے بھارتی سے کھرر بزدار روڈ تعمیر کرنے کی منظوری دیدی ہے روڈ پر کام جاری وساری ہے اگر روڈ قائم ہوا تو بھارتی سے کھرر کا سفر ایک گھنٹہ سے بھی کم ہوجائے گا۔تعلیمی نظام بلکل تباہ نظر آرہا تھا کچھ گھوسٹ سکولز بھی دیکھائی دیئے علاقے کے مکینوں سے گفتگو کرتے وقت ان کی سادگی کا اندازہ ہوا دل میں یہی خیال ہے کہ یہ علاقہ جو کہ اب صوبہ پنجاب کا حصہ ہے یہ کیسے ممکن ہے کہ یہاں کے بچے اور نوجوان نوکریوں کے لئے ایچیسن کالج،لارنس کالج،ملٹری کالج جہلم،گورنمنٹ کالج لاہور،لمز اور نسٹ کے طلباء سے مقابلہ کرپائیں گے۔ہاں اگر یہ علاقہ پسماندہ صوبہ بلوچستان میں ہوتا تو شاید سرکاری نوکری کی خواہش مند لوگوں کے لئے مواقع زیادہ ہوتے لیکن اسی پسماندہ علاقے نے ڈاکٹر دین محمد بزدار،پروفیسر واحد بخش بزدار،علمی حاتم تائی قادر بخش بزدار،ڈاکٹر نیک محمد بزدار،قاسم مجاہد قیصرانی،میر زوراخ بزدار،عبدالقیوم بزدار،سلطان نعیم قیصرانی وغیرہ جیسے نامور دانشور پیدا کئے ہیں پھر یہی خیال آیا کہ ذہنی شعور کا تعلق سڑک کی پختگی اور بجلی سے نہیں۔کچھ عرصہ قبل کوہ سلیمان کی قبائلی علاقوں کے مکینوں کی شناختی کارڈ پر ان کے گاؤں کے پتے کی بجائے علاقہ غیر لکھا جاتا تھا غالباً اگر کسی مہذب معاشرے کی فرد کو اس بات کا علم ہوجائے تو وہ اسے بھیانک قسم کی نسل پرستی (Racism)یا نسلی تعصب قرار دیگا۔یہ ریاست اپنی ملک میں مکین لوگوں کی شناخت علاقہ غیر سے کرتا ہے اور ان کو دوسرے درجے کا شہری سمجھتا ہے یہاں کے حکمرانوں نے اپنے ہی شہریوں کو ناراض کرنے کی بہت سے حماقتیں کی ہیں چاہے وہ غیر مسلم پاکستانی کی صورت ہوں یا پھر فاٹا اور بلوچستان کے قبائلی علاقوں کے لوگوں کی صورت میں ہوں۔اپنی حماقت اور نسلی تفریق کو تسلیم اور درست کرنے کی بجائے اکثر سرکار نے انہی استحصال شدہ لوگوں کو غدارکے لقب سے بھی نوازا ہے۔عثمان بزدار کے دور کو شاید لوگ اس لئے یاد رکھے کہ انہوں نے شناختی کارڈ سے علاقہ غیر کو ختم کروایا ہے۔کسی اردو نویس نے درست فرمایا تھا کہ ”سفر وسیلہ ظفر“یعنی سفر کرنے سے انسان بہت کچھ سیکھتا ہے اور تجربہ کرتا ہے۔اس مختصر دورے نے بہت سے بیش قیمت تجربے دیئے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں