گریشہ کے زمیندار خسارے میں کیوں ؟

بختیار رحیم بلوچ

گریشہ ضلع خضدار کی ایک تحصیل ہے۔ یہاں پچانوے فیصد لوگوں کا روزگار زراعت سے وابستہ ہے۔ زمیندار سال کے بارہ مہینے میں قرض لے کر پیاز، خربوزہ، تربوزہ،گندم، کپاس اگاتے ہیں۔ یہاں بجلی نہ ہونے کی وجہ سے لوگ ٹیوب ویل لگا کر جنریٹر چلاتے ہیں۔ زمینداروں کو ڈیزل، ادویات، یوریا / زرعی کھاد اور زراعت میں استعمال ہونے والی دوسری اشیا مہنگے داموں ملتی ہیں۔ بے چارے زمیں دار پورا سال زمین پر محنت کرکے فصل اگاتے ہیں۔ ان کی فصل کافی مشقت اور خرچ سے تیار ہوتی ہے تو منڈی میں بہت کم ریٹ میں بکتی ہے۔ کم ریٹ کی وجہ سے زمینداروں کا خرچ اور محنت پورے نہیں ہوتے ہیں، وہ قرضوں تلے دبتے جا رہے ہیں۔
پاکستان کی معیشت زیادہ تر زراعت سے منسلک ہے اور زراعت میں کام کرنےوالوں کو حکومت کی طرف سے کوئی مدد نہیں ملتی ہے۔
دو ہزار سولہ کے بعد بلوچستان میں ضلع خضدار کے لوگوں کے پیاز بہت سستے داموں میں بکتے رہے ہیں۔ زمیندار بیچارے سال بہ سال قرضوں تلے دبتے جا رہے ہیں۔ زمیندار پیاز بہت محنت مشقت نیز زہر، ڈیزل، یوریا، کھاد اور دوسری زراعت میں استعمال ہونے والی چیزیں مہنگے داموں خرید کر پیاز اور دوسری فصلیں کو تیار کر رہے ہیں۔ فصل تیار ہو کر بیوپار سستے داموں منڈی میں بیچتے ہیں۔
زمینداروں کے پاس زمینوں پر خرچ کرنے کے لیے پیسے نہیں ہیں تو وہ فصل اگانے کےلیے منڈیوں کے بیوپاروں سے پیسہ ایڈوانس لے کر پیاز تیار کرتے ہیں۔ جب پیاز تیار ہوتا ہے تو بے چارے زمیندار اپنے گھر کے تمام افرادکے ساتھ تیز دھوپ پر بیٹھ کر نکال کر بوریوں میں ڈال دیتے ہیں۔ دوسری پریشانی یہ ہے کہ روڈ کی خستہ حالی کی وجہ سے گاڑی مالکان پیاز اٹھانے کو تیار نہیں ہوتے یا بہت زیادہ کرایہ پر تیار ہوتے ہیں۔ پیاز دھوپ بارش لگنے سے خراب ہو جاتا ہے، اس لیے زمیندار زیادہ نقصان کے خوف سے گاڑی مالکان کو زیادہ کرایہ دینے پر آمادہ ہو جاتے ہیں۔
بے چارے سال بھر دھوپ، سردی میں کھیت میں کام کرنے والے زمیندار پیاز لوڈ کر کے منڈی میں پہنچا دیتے ہیں۔ یہاں منڈی میں مال اتارنے اور لوڈ کرنے کی مزدوری ادا کرتے ہیں۔ منڈی بیوپار مال بیچ کر مال کی کل آمدنی سے دسواں حصہ اپنا کمیشن اور باقی پیسہ اپنی ایڈوانس میں دی ہوئی رقم کی جگہ لے لیتا ہے۔ زمیندار، مزدوری، کرایہ، کمیشن، زہر، یوریا، سوتلی، باردانہ، ٹریکٹر کے کام کا کرایہ اپنے کندھوں پہ رکھ کر سال بھر اپنے بچوں کو لے کر اس پر محنت کرتے ہیں۔ پورے مال کو منڈی میں بھیج کر جب بیوپار کے پاس حساب کرنے جاتے ہیں، انھیں منڈی بیوپار الٹا قرض دار ٹھہراتے ہیں۔
بلوچستان میں اَسّی فیصد لوگوں کی روزی روٹی زراعت سے منسلک ہے اور پاکستان کی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی بھی زراعت ہے۔ یہاں کے بے بس عوام ہر کام اپنی مدد آپ کے تحت کرتے آ رہے ہیں۔ گزشتہ مہینےمیں بلوچستان کےعوام کی اگائی ہوئی فصلوں میں سے کپاس اور بہت سی دیگر فصلیں ٹڈی دل کی خوراک بن گئیں۔ زمینداروں کے سال بھر کا خرچہ اور قرض کو پیاز سے پورا ہونا تھا لیکن پیاز اب منڈی میں سستے داموں بک رہا ہے۔ ایجنٹ اپنی مرضی سےفروخت کر کے اپنا کمیشن اور ایڈوانس میں دیے ہوئے پیسے تو پورے کر رہے ہیں لیکن کسی بیوپار کو یہ احساس ہی نہیں کہ وہاں کے بے بس زمین پہ کام کرنے والے کہاں کہاں سے قرض لے کر اسے تیار کر چکے ہیں اور کتنی گرمی سردی، دکھ تکلیف، محنت مشقت اور پریشانی سہہ کر یہ فصل تیار کر کے ہمارے ہاتھوں میں دے رہے ہیں۔
دوسری ناانصافی یہ ہے کہ زمیندار پیاز کی خالی بوری سو روپے فی دانہ خرید کر پیاز ڈالتا ہے، منڈی میں پیاز پہنچاتا ہے، بیوپاری دو کلو پیاز بوری کے وزن کی جگہ کاٹ لیتا ہے۔ یہ سوچنے کی بات ہے، سو روپے کی بوری اور دو کلو وزن پیاز زمینداراروں کا مفت میں چلا جاتا ہے۔ بیوپاری اپنا دکان کا کمیشن، کرایہ، بوری، مزدوری سے پہلے نکال لیتا ہے۔ کیا بیوپاری اگر پیاز کے خرچ کرنے کے لیے پیسہ دے کر دسویں حصہ کا شریک ہے تو اس کے حصے کے پیاز بغیر بوری / باردانہ کرایہ مزدوری سے منڈی میں پہنچ جاتے ہیں۔ دس حصوں میں سے ایک حصہ لینے والے بیوپاری گاڑیوں کے مالک ہیں، بیوی بچے بڑے بڑے بنگلوں میں ایئرکنڈیشنوں والے کمرے میں صوفہ سیٹوں پر بیٹھ کر ٹیلی ویژن دیکھتے ہیں۔ نو حصہ لینے والے کے پاس سواری کے لیے سائیکل نہیں، کھانے کے لیے روٹی اور پہنے کے لیے کپڑا نہیں۔ سال بھر گرمی سردی کو برداشت کرنےوالے مزدور کی یہ حالت کیوں ہے؟ یہ بات تو ظاہر ہے کہ دسویں حصہ دار کا کوئی خرچ نہیں، نو حصہ اٹھانے والے لاکھوں روپے خرچہ کر رہا ہے، اس ریٹ میں وہ کیا کمائے گا۔
پھر یہی زمیندار جب لوڈ گاڑی کے ساتھ منڈی میں مال لوڈ کر کے جاتے ہیں، اس سے لاکھوں روپے کمانے والا چائے کی صلاح نہیں ہی مارتا۔
چہرے پر ڈیڑھ فٹ کا سنتِ نبوی، ہاتھ میں تصبیح پڑھنے والا صوفی یہ خیال ہی نہیں کرتا کہ مزدور کے خون پسینہ کا وزن اور اس کا جواب اللہ کے ہاں ٹرکوں کے لوڈ کے پیاز سے زیادہ بھاری ّہیں۔ سب باشعور یہ سوچ لیں، وہاں کھیتوں میں محنت کر کے فصل اگانے، زمین پہ بہت ساری فصل تیار کرنے والوں کے بچے دو وقت کے روٹی کے محتاج ہیں اور زندگی کی دوسری سہولیات بجلی، گیس، پینے کا پانی، روڈ، تعلیم، صحت کی سہولیات سے محروم ہیں۔
دوسری طرف ملک کے کونے کونے کے بڑے بڑے سرمایہ داروں اور سرکاری اور نجی افسروں کو بلوچستان کی زراعت سے پیدا ہونے والا ہر فروٹ اور سبزی مفت میں مل جاتے ہیں۔ جیسے سیندک کا سونا، سوئی کا گیس، گوادر کی درجنوں اقسام کی مچھلی اور بلوچستان سے نکلنے والے اور ہزاروں قسم کے قیمتی پتھر مفت میں مل جاتے ہیں۔
آج امیر بلوچستان کے غریب عوام، شاہد آفریدی کی خیرات لینے کو ترستے ہیں اور پارلیمانی اجلاس میں ہمیشہ بلوچستان کو قرض دار ٹھہرایا جاتا ہے۔ بقول اختر مینگل، اگر صحیح طریقے سے حساب کیا جائے تو بلوچستان قرض دار نہیں بلکہ پاکستان بلوچستان کا قرضدار ہو گا
بختیار رحیم بلوچ

اپنا تبصرہ بھیجیں