کیا ہونے جا رہا ہے

انور ساجدی
عالمی ماہرین نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے دنیا چند دہائیوں میں کئی قیمتی جانوروں، درختوں اور سمندری حیات سے محروم ہوجائے گی قطب شمالی کی برف تیزی کی ساتھ پگھل رہی ہے جس کی وجہ سے سفید برفانی ریچھ کے معدوم ہوجانے کا خطرہ ہے اس سال سائبیریا میں ریکارڈگرمی پڑی ہے اور درجہ حرارت 30 سینٹی گریڈ سے اوپر چلا گیا ہے نہ صرف یہ بلکہ کئی یورپی ممالک میں باقاعدہ لُو چلی ہے۔
جہاں تک ہمارے خطے کا تعلق ہے تو یہاں کے ماحولیات کو شدید خطرات لاحق ہیں آلودگی اور وائرس کی وجہ سے کوئٹہ پائن کے درخت سوکھ گئے ہیں آج تک پتہ نہیں چلایا جاسکاکہ ان قیمتی درختوں کو کیا وائرس لگا ہے آبادی میں اضافہ اور خفیہ شکار کی وجہ سے چلتن مارخور کی نسل معدوم ہوجانے کا خطرہ ہے کوئٹہ کی وادی جو چشموں اور کاریزوں کی وجہ سے آباد تھی ہزاروں ٹیوب ویلوں کی وجہ سے سب کچھ ختم ہوگیا ہے زیر زمین پانی آخری دموں پر ہے بیروزگاری اور غربت کی وجہ سے بلوچستان کے ہر جگہ کے لوگ ٹیوب ویل لگاکر فصلیں اُگا رہے ہیں اس باعث زیر زمین پانی کے ذخائر تیزی کے ساتھ ختم ہورہے ہیں بلوچستان کے طول و عرض میں شاید ہی کوئی جنگلی جانور بچا ہو لوگوں نے بھیڑیوں ہائینہ (ہپتار) لومڑیوں اور گیدڑوں کی بھی بلاوجہ نسل کشی کی ہے البتہ سیاسی گیدڑ اور لومڑی خوب پھل پھول رہے ہیں اور بلوچستان کے وسائل کو ٹڈی دل کی طرح چٹ کررہے ہیں ساحل بلوچستان پر جو انسانی المیہ جنم لے رہا ہے وہ اپنی جگہ لیکن ”درون“ کے پہاڑی بکرے اور دنبے کی نسل ختم ہونے کا خدشہ ہے ساحل پر مقامی آبادی کے ناپید اور نابود ہونے کا امکان بھی بڑھ گیا ہے ہنگول نیشنل پارک میں جتنے بھی چرند اور پرند ہیں وہ آئندہ چند دہائی تک ختم ہوجائیں گے جبکہ ہنگول میں جو نایاب درخت ہیں ان کا نصف پہلے ہی ختم ہوچکا ہے ادھر کیچ کی شان اور شناخت کھجور کے لاکھوں درختوں کی وجہ سے ہے لیکن جومنصوبے ترتیب دیئے گئے ہیں ان کی وجہ سے ہمارے بعد کھجور کے باغات نہیں ہونگے البتہ سڑکوں کے درمیان اور امراء کے گھروں کے سامنے کھجور کے آرائشی درخت ضرور نظر آئیں گے۔
طویل عرصہ کے بعد مجھے درا کھالہ اور سونارو کے درمیان رات کے سفر کے دوران ایک لومڑی نظر آئی جس پر بہت سکون محسوس ہوا جب ہم چھوٹے تھے تو مشکے میں راتوں کو گیدڑ بڑی اونچی آوازیں نکالتے تھے لیکن یہ گیدڑ بھی باقی نہیں رہے کسی زمانہ میں بھیڑیوں کی تعداد اتنی زیادہ تھی کہ وہ راتوں کو ریوڑوں پر حملے کرتے تھے اور چرواہے ساری رات نہیں سوتے تھے لیکن یہ مخلوق بھی تقریباً ختم ہوگئی ہے ان کی جگہ خونخوار انسانوں نے لے لی ہے جنہیں انسانی خون پینے کی عادت ہوگئی ہے۔ بلوچستان کا سمندر روز بروز آلودہ ہورہا ہے کئی سال پہلے ہم گڈانی کے ساحل پر کھڑے تھے نوجوان وہاں پر مچھلیاں پکڑ رہے تھے ان کے جالوں میں اچھی خاصی مچھلیاں آجاتی تھیں لیکن اب کنڈ سے لیکر سونمیانی تک مچھلیاں موجود نہیں ہیں ماہی گیروں کا زیادہ زور ڈام پر ہے لیکن ڈام کو بھی لیز آؤٹ کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے بہت جلد وہاں بھی مچھلی اور جھینگے ناپید ہوجائیں گے رفتہ رفتہ پوری ساحلی پٹی پر جب کروڑوں انسان آباد ہونگے اور وہ شفاف سمندر کو گند پھینک کر آلودہ کردیں گے تو سمندری حیات خود بخود ہلاک ہوجائے گی کراچی کا حال سب کے سامنے ہے سارے شہر کا سیوریج سمندر میں ڈالا جارہا ہے دور دور تک سمندر کا پانی کالا اور گدلا ہے۔
ایک بنیادی ضرورت یہ ہے کہ سنجیدہ این جی اوز یہ ریسرچ کریں کہ ساحل بلوچستان کے ماہی گیروں کو بیروزگار ہونے میں کتنا عرصہ لگے گا لہٰذا انہیں آگاہ کیا جائے کہ وہ اپنی آئندہ نسلوں کو اس پیشے میں نہ ڈالیں یہ بھی بتادیا جائے کہ وہ متبادل روزگار تلاش کریں۔ساحل پر آبادکاری کے جو منصوبے منظر عام پر آئے ہیں وہ ریاستی مفاد کو سامنے رکھ کر بنائے گئے ہیں ان میں مقامی آبادی اور ماہی گیروں کی گنجائش نہیں بنتی لہٰذا یہ طے کرنا بھی ضروری ہے کہ اس علاقے کی آبادی کہاں جاکر بس جائے ابھی تو گوادر ایئر پورٹ کی تعمیر شروع ہوئی ہے اس کی تکمیل 10 سال بعد ممکن ہے چانچہ 10 سال بعد پورا منظر بدل جائے گا کیونکہ گوادر پر چینی باشندے یا غیر ملکی ساہوکار لینڈ کرتے نظر آئیں گے اس وقت صرف ایک ڈھنگ کا ہوٹل ہے جو تھری اسٹار ہے پی سی جیسے مزید ہوٹل درکار ہونگے جن کی پلاننگ یقینی طور پر کرلی گئی ہے مجھے تو سنگار ہاؤسنگ اور نیو ٹاؤن کا مستقبل بھی تاریک دکھائی دے رہا ہے کیونکہ گوادر کے اصل ماسٹر پلان میں یہ جگہ اور مقاصد کیلئے مختص ہے یہ رپورٹ تو کافی عرصہ پہلے بنی تھی کہ باتل لاکھوں ٹن لوہا اور سیمنٹ کا بوجھ برداشت کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا اس رپورٹ کی روشنی میں اس کا مستقبل طے کردیا جائے گا زمینوں کی جس طرح الاٹمنٹ کی گئی ہے اس میں صوبائی دارالحکومت بلکہ سرمائی دارالحکومت بنانے کی بھی گنجائش نہیں ہے۔کاغذوں کے مطابق ایک انچ زمین بھی باقی نہیں ہے تو دارالحکومت کہاں بنے گا دبئی کی طرح سمندر کے ایک حصہ کو ری کلیم کرکے ہی مزید تعمیرات کی گنجائش نکالی جاسکتی ہے جوں جوں سی پیک کے منصوبے آگے بڑھیں گے گوادر میں بلاوجہ آنے اور رہنے والوں کا داخل ممنوعہ کردیا جائے گا کیونکہ کوئی سیکورٹی رسک نہیں لیا جائے گا۔
لاہور سے خبر آئی ہے کہ مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی آئندہ ماہ اے پی سی بلانے اور حکومت ہٹاؤ تحریک پر متفق ہوگئی ہیں بلاول کئی دن سے لاہور میں مقیم ہیں اطلاعات کے مطابق قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر شہباز شریف نے کرونا کا بہانہ بناکر بلاول سے ملاقات سے گریز کیا البتہ چند ن لیگی لیڈر ان سے ملے جس میں طے پایا کہ حکومت کے خلاف تحریک چلائی جائے گی مجھے تو کسی بھی حکومت مخالف تحریک پر شک ہے سراج الحق نے صاف گوئی سے بتایا ہے کہ دونوں جماعتیں حکومت گرانے میں سنجیدہ نہیں ہیں اور خود جماعت اسلامی بھی حکومت گرانے میں دلچسپی نہیں رکھتی لہٰذا اگر اگست میں اے پی سی بلائی بھی گئی تو وہ نشتند گفتند برخاستند پر ہی ختم ہوگی اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر قبل از وقت انتخابات ہوئے تو پیپلز پارٹی کو زیادہ سے زیادہ سندھ حکومت دوبارہ مل سکتی ہے اسے پنجاب میں کامیابی کی امید نہیں ہے جبکہ ن لیگ کو پنجاب کے ساتھ مرکز مل سکتا ہے ن لیگ کے طرفدار اینکر اور کالم نگار سہیل وڑائچ اور طلعت حسین کا یہی خیال ہے لیکن بوجوہ ن لیگ کو گزشتہ اکثریت نہیں ملے گی کیونکہ حسب سابق انتخابات آزادانہ نہیں ہونگے انہیں ایسے انجینئرڈ کیا جائے گا کہ کوئی ایک پارٹی اکثریت حاصل نہ کرسکے جو سیاسی حقائق ہیں ان کے مطابق ملک میں آئند چند برسوں تک شفاف انتخابات کا امکان نہیں ہے تاوقتیکہ تبدیلی لانے کا فیصلہ نہ کیا جائے ن لیگ اور اس کی قیادت کی جس طرح تضحیک کی گئی اور انہیں چور اور ڈاکو ثابت کیا گیا منتظمین بظاہر تو اسے واپس اقتدار میں نہیں لاسکتے لیکن اس ملک میں سب کچھ ممکن ہے کیونکہ ہر معاملہ میں یوٹرن لینا یہاں کے کلچر کا حصہ بن چکا ہے۔
لیکن ملک کے جو حالات ہیں اگر موجودہ حکومت کو مزید 3 سال تک برقرار رکھا گیا تو اسٹیل مل اور پی آئی اے کی طرح کوئی ادارہ صحیح سلامت نہیں بچے گا اخراجات جس طرح بڑھ رہے ہیں اور آمدنی کے ذرائع کم ہورہے ہیں اس کی موجودگی میں ملک کو چلانا موجودہ حکومت کے بس کی بات نہیں ہے اس حکومت کو اس وقت تک برقرار رکھا جائے گا جب تک 18 ویں ترمیم اور این ایف سی ایوارڈ میں تبدیلی نہیں لائی جاتی غالباً اس حکومت سے بس یہی کام لینا ہے جو کہ بظاہر مشکل ہے کیونکہ وزیراعظم عمران خان میں مخالفین کو ساتھ ملانے یا ڈائیلاگ کرنے کی صلاحیت نہیں ہے وہ مکمل طور پر فیل ہوچکے ہیں اس حکومت کی نااہلی کا اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اسے سی پیک منصوبے علیحدہ کردیا گیا ہے کیونکہ چین کو حکومتی طور طریقوں پر اطمینان نہیں ہے سی پیک اتھارٹی مکمل طور پر خود مختار ادارہ بن چکا ہے جو گوادر کے تمام معاملات کی نگرانی بھی کرے گی صوبائی حکومت کا عمل دخل تو پہلے سے نہ ہونے کے برابر ہے آئند ہ اس کا رول مزید کم ہوجائے گا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں