کینیا میں ٹیکس قوانین کے خلاف مظاہروں میں ہلاکتوں کی تعداد 39 ہو گئی

نیروبی(صباح نیوز)افریقی ملک کینیا میں ٹیکس قوانین کے خلاف مظاہروں میں ہلاکتوں کی تعداد 39 ہو گئی ہے۔کینیا کے قومی حقوق انسانی کمیشن کی چیئرپرسن روزلین ایڈیڈ ے نے مظاہروں کےبارے میں ایک بیان میں کہا کہ یہ ہلاکتیں پولیس اور مظاہرین کے درمیان پرتشدد جھڑپوں کے نتیجے میں ہوئیں۔ایڈیڈے نے کہا، "ہمارے ریکارڈز کے مطابق ملک بھر میں ہونے والے مظاہروں میں 39 افراد ہلاک ہوئے جن میں سے 17 دارالحکومت نیروبی میں ہلاک ہوئے اور 361 زخمی ہوئے۔”اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہ سیکورٹی فورسز نے مظاہرین، صحافیوں، وکلا اور طبی عملے کے خلاف غیر متناسب تشدد کا استعمال کیا، ایڈیڈے نے کہا کہ ہم اس صورتحال کی مذمت کرتے ہیں۔مظاہرین کی جانب سے مختلف علاقوں میں مظاہرے جاری ہیں۔ جب کہ احتجاج کی وجہ سے بہت سے کاروباری مراکز بند ہیں ، جبکہ کچھ سڑکوں پر نقل وحرکت دستیاب نہیں۔فوجی اور بکتر بندگاڑیاں نیروبی میں گشت کررہی ہیں، جبکہ بھاری ہتھیاروں سے لیس سپاہی افراتفری اور لوٹ مار کے خلاف پولیس کا ہاتھ بٹا رہے ہیں۔ٹیکس مخالف پرامن احتجاج منگل کو اس وقت پرتشدد ہو گیا جب قانون سازوں نے متنازعہ قانون پاس کیا۔ بعد ازاں، ووٹنگ کا اعلان ہونے کے بعد، ہجوم نے وسطی نیروبی میں پارلیمنٹ کمپلیکس میں توڑ پھوڑ کی اور کمپلیکس کو جزوی طور پر آگ لگا دی۔ یہ واقع پولیس کی جانب سے مظاہرین پر گولی چلانے کے بعد پیش آیا۔قابل ذکر بات یہ ہے کہ صدر ولیم روٹو کی حکومت کو درپیش یہ سب سے سنگین بحران ہے۔ روتو نے اتوار کو ایک ٹیلی ویژن انٹرویو میں کہا کہ مظاہروں میں 19 افراد مارے گئے تھے، لیکن انہوں نے اصرار کیا کہ ان کے ہاتھوں پر خون نہیں ہے اور انہوں نے ہلاکتوں کی تحقیقات کا وعدہ کیا۔انسانی حقوق کی تنظیم نے کہا کہ کے این سی ایچ آر مظاہرین، طبی کارکنوں، وکلا، صحافیوں، گرجا گھروں، طبی ایمرجنسی مراکز اور ایمبولینسوں پر لوگوں کے خلاف بلا جواز تشدد اور طاقت کے استعمال کی شدید مذمت کرتا ہے۔ اس میں کہا گیاہے کہ، ‘ہم سمجھتے ہیں کہ مظاہرین کے خلاف استعمال کی گئی طاقت ضرورت سے زیادہ اور غیر متناسب تھی۔’ واچ ڈاگ نے یہ بھی کہا کہ وہ پارلیمنٹ اور دیگر سرکاری عمارتوں سمیت کچھ مظاہرین کی طرف سے پرتشدد اور چونکا دینے والی لاقانونیت کی شدید مذمت کرتا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں