منزل کہاں تک تیری

تحریر: انور ساجدی
ایک مختصر سفر پر جانا پڑا تو دیکھا کہ کراچی ائیرپورٹ پر ہزاروں لوگوں کا ہجوم جمع ہے۔اکثر لوگوں کے ہاتھوں میں ہار تھے اور وہ اپنے عزیز واقارب حجاج کرام کے گلے میں ڈالنے کے لئے بے تاب تھے۔بعض حاجیوں پر گل پاشی بھی کر رہے تھے بظاہر تو یہ ایمان پرور منظر تھا لیکن حج پر جانا ہمارے ملک میں عبادت سے زیادہ سماجی مرتبہ بلند کرنے کا ذریعہ بن گیا ہے۔کافی پرانا محاورہ ہے کہ نو سو چوہے کھا کر بلی حج کو چلی یعنی بندگان خدا سے جو مرضی سلوک کرو لکین حج پر جاﺅ نہ صرف سارے گناہ معاف ہو جاتے ہیں بلکہ آئندہ کا حساب ازسرنو کھلے گا یعنی چھوٹ ہی چھوٹ ہے۔کہا جاتا ہے کہ پاکستانی حاجیوں کی تعداد دوسرے نمبر پر ہے جبکہ عمرہ میں پاکستانیوں کی تعداد پہلے نمبر پر ہے۔بڑی اچھی بات ہے لیکن اس کے باوجود پاکستان کے کسی شہر میں خاص دودھ نہیں ملتا۔خالص غذا نہیں ملتی۔آٹے میں لکڑی کا برادہ شامل کیا جاتا ہے۔گھی اور تیل میں مردہ جانوروں کی ہڈیاں پگھلا کر بنایا جا رہا ہے۔مصالحوں میں مختلف اجناس کے چھلکے ملائے جا رہے ہیں اور تو اور میڈیکل اسٹوروں پر زندگی بخش ادویات بھی دو نمبر فروخت کی جا رہی ہیں۔جنرک سسٹم نہ ہونے کی وجہ سے جعلی کمپنیاں وہ دوائیں بنا رہی ہیں جو بڑی کمپنیاں بناتی ہیں۔قہر خدا ا ڈاکٹروں کی اکثریت انہی دو نمبر ادویات نسخوں میں لکھ دیتے ہیں۔90فیصد سرکاری اسپتال اصطبل خانوں کا منظر پیش کر رہے ہیں۔ادویات کی خریداری میں ہیر پھیر ہو رہی ہے یہی وجہ ہے کہ شیر خوار بچوں سے لے کر بزرگوں تک کوئی شفایاب نہیں ہوتا جعلی ادویات کا کاروبار پورے ملک میں پھیلا ہوا ہے اور اس کی مالیت اربوں روپے میں ہے۔یہ بات بقینی تو نہیں ہے لیکن گماں یہی ہے کہ بڑی ادویات ساز ملٹی کمپنیاں بھی کم معیار کی دوائیں تیار کر رہی ہیں یورپ اور امریکہ کے مقابلے میں پاکستانی ادویات کا معیار کافی پست ہے ملک کے طویل و عرض میں پرائیویٹ اسپتالوں کا جال بچھا ہوا ہے کیونکہ یہ بڑا منافع بخش کاروبار ہے۔اسی طرح پرائیویٹ اسکول بھی گلی محلوں میں کھل گئے ہیں جو بھاری فیسیں وصول کر رہے ہیں۔بلوچستان میں صحت کا شعبہ بہت بری حالت میں ہے۔اس لئے بلوچستان کے ہزاروں لوگ علاج کی خاطر کراچی آتے ہیں اور خود سندھ کا یہ حال ہے کہ کراچی کے سوا دیگر شہروں میں صحت کی سہولتیں بلوچستان جیسی ہیں۔کچھ عرصہ قبل حیدرآباد میں سلنڈروں کا دھماکہ ہوا تو جلنے والے مریضوں کو کراچی منتقل کیا گیا کیونکہ وہاں پر برن وارڈ نہیں تھا۔چند سال پہلے سیہون میں شہباز قلندر کی درگاہ پر دھماکہ ہوا تو اتنے بڑے شہرمیں کوئی ایسا اسپتال نہیں تھا کہ مریضوں کو داخل کیا جاتا حالانکہ اس وقت بھی مراد علی شاہ وزیراعلیٰ تھے اور سیہون ان کا آبائی گاﺅں ہے۔ایک طرف یہ صورت ہے تو دوسری جانب لاکھوں افراد حج اور عمرہ کرنے جاتے ہیں اس کے باوجود پاکستانی سماج انتہائی کثیف ہوگیا ہے اوپر سے نیچے تک بے ایمانی اور رشوت ستانی کا دور دورہ ہے۔سرکاری دفاتر میں غریب سائیلین کو دھتکارا جاتا ہ اور رشوت کے بغیر کوئی کام نہیں ہوتا۔
جہاں تک انصاف کے شعبے کا تعلق ہے تو وہاں پر اندھیرہی اندھیر ہے۔عدالتیں دن رات سیاسی مقدمات کی سماعت کرتی رہتی ہیں جبکہ عام لوگوں کے مقدمات برسوں سے چل رہے ہیں اور کوئی شنوائی نہیں ہوتی۔اسی وجہ سے لاکھوں مقدمات فیصلوں کے منتظر ہیں لیکن جج صاحبان کو سیاسی مقدمات سے ہی فرصت نہیں ہے۔کئی بار آج مقدمہ دائر کیاگیا اور آج ہی سماعت شروع ہوئی اگر اعلیٰ عدالتوں کا یہ حال ہے تو نچلی سطح کی عدالتوں کا کیا عالم ہوگا؟۔بیورو کریسی تو شروع دن سے زور آور رہی ہے یہ صرف حاکمان وقت اور سیاسی جغادریوں کے کام کرتی ہے۔عام آدمی کی تو اس تک رسائی ہی نہیں ہے۔بیڈگورننس انتہا کو پہنچ گئی ہے۔ایسا لگتا ہے کہ پاکستان انگریزی دور کا نوآبادیات ہے اور بیورو کریسی عوام کو رعایا سمجھ کر اپنے آقا کی طرح سلوک کر رہی ہے۔ملک کے کسی ادارے کی کوئی کل سیدھی نہیں ہے۔یہ واحد ریاست ہے کہ خود اپنے آئین کو نہیں مانتی اس کے سیاست دان اپنے آپ کو خود بوٹ چاٹ کا لقب دیتے ہیں بلکہ ایک ٹی وی پروگرام میں سینیٹر واوڈا ایک کالا بوٹ بھی اپنے ساتھ لائے تھے واوڈا ہی وہ شخص ہے جس نے سیاست دانوں کو ایک جانور سے تشبیہ دی تھی اور کہا تھا کہ جب بھی انہیں حکم ملے یہ دم ہلاتے ہوئے آئیں گے غالباً واوڈا کو ذاتی طور پر بھی اس کا تجربہ ہے۔سیاست دان جس پارلیمنٹ میں بیٹھتے ہیں وہ اپنی وقعت کھو بیٹھی ہے چنانچہ ایک انارکی اور خلفشار کی کیفیت ہے۔کسی کو سجھائی نہیں دیتا کہ ریاست کو کیسے بحرانوں سے نکالیں کافی کشمکش کے بعد ہمارے حکمرانوں نے فیصلہ کیا کہ چین جا کر اپنی وابستگی اس ہمسایہ طاقت کے ساتھ جوڑ دی جائے جس پر سابق آقا امریکہ بہت ناراض ہوگیا اور کانگریس نے حالیہ انتخابات کے بارے میں بھاری اکثریت سے ایک قرارداد منظور کرلی اس قرارداد میں 8 فروری کے انتخابات کو فراڈ کیا گیا اور دھاندلی کی تحقیقات کا مطالبہ کیا گیا۔ خودہمارے حکمرانوں نے سی پیک کی خاطر امریکہ کی ناراضگی مول لے کر دانشمندانہ فیصلہ نہیں کیا ہے۔اس کے اثرات جلد ظاہر ہونا شروع ہو جائیں گے۔
چین کا مطالبہ پر شہبازشریف نے سوچے سمجھے بغیر فوجی آپریشن شرع کرنے کا اعلان کیا حالانکہ چین نے آپریشن نہیں سیکورٹی معاملات ٹھیک کرنے اور سیاسی استحکام کا مطالبہ کیا تھا۔شہبازشریف بھول گئے تھے کہ جس صوبے میں آپریشن مقصود ہے وہاں پر پی ٹی آئی کی حکومت ہے اور اس کی مرضی اور منظوری کے بغیر کوئی آپریشن شروع نہیں ہوسکتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ حکومت پسپا ہوگئی اور آپریشن کے بارے میں وضاحت جاری کرنا پڑی۔ہاں اگر بلوچستان میں جاری آٰپریشن کو وسعت دینا مقصود ہے تو وہ بہت آسان ہے کیونکہ صوبائی حکومت نہ صرف اس کے حق میں ہے بلکہ اس کی رائے ہے کہ آپریشن کی سب سے زیادہ ضرورت بلوچستان میں ہے۔جہاں تک بلوچستان کا تعلق ہے تو اس کے لئے آپریشن اور مسلح کارروائیاں نئی نہیں ہیں۔وہاں کے لوگ طویل عرصہ سے اس صورت حال سے گزر رہے ہیں اگر مزید سختی آئی تو وہ بھی وہ چار و نہ چار بھگت لیں گے لیکن بنیادی سوال اپنی جگہ رہے گا کہ ملک میں امن و سیاسی استحکام کیسے آئے گا؟ کب آئین اور پارلیمنٹ کی بالادستی تسلیم کی جائے گی۔جن پالیسیوں کی وجہ سے ملک عظیم تباہی سے دو چار ہوا ان کی اصلاح کب کی جائے گی۔اور سیاست میں مداخلت کا سلسلہ کب بند کیا جائے گا۔پاکستان کے25 کروڑ عوام ایک قوم نہیں ہجوم ہیں بلکہ بے قابو ہجوم ہے۔
لہٰذا اس ملک کے معاملات کو ٹھیک کرنا بہت ہی مشکل کام ہے۔حکمرانوں نے ہلکے زخموں کو خود چرکے لگا کر کینسر میں تبدیل کر دیا ہے اور اب وہ اس کینسر کا علاج اسپرین کی گولی سے کر رہے ہیں۔حبیب جالب نے برسوں پہلے کہا تھا کہ
گماں تجھ کو رستہ کٹ رہا ہے
یقین مجھ کو منزل کھو رہے ہو

اپنا تبصرہ بھیجیں