اتائیوں کے ہاتھ سرجری
تحریر: انور ساجدی
اسماعیل انڈسٹری حب کا سب سے کامیاب صنعتی یونٹ ہے۔کافی عرصہ سے یہ منافع بخش یونٹ ناکام فیکٹریوں کے بیچ میں قائم و دائم ہے۔اس کے مالک سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل ہیں۔اس یونٹ کی پیداوار کینڈی لینڈ اور کوکومو انتہائی مقبول ہیں۔گزشتہ دوسالوں میں اس فیکٹری نے چار ارب روپے سے زائد منافع کمایا ہے۔یہ سارا کمال مفتاح اسماعیل اور اس کی مارکیٹنگ کا ہے۔حال ہی میں اطلاع ملی ہے کہ اسماعیل انڈسٹریز ابوظہبی میں اپنی فیکٹری کی شاخ قائم کر رہی ہے۔کمپنی اعلامیہ کے مطابق حب والی فیکٹری بھی چلتی رہے گی جبکہ ابوظہبی میں نیا اسٹیٹ آف یونٹ لگایا جا رہا ہے۔کمپنی اعلامیہ کے باوجود شکوک موجود ہیں کہ اسماعیل انڈسٹری پاکستان چھوڑ کر مستقل طور پر یو اے ای مراجعت کر رہی ہے۔اگرچہ وجوہات کا علم نہیں لیکن ایک بڑی وجہ سیاست ہے۔مفتاح پہلے مسلم لیگ ن میں تھے چند ماہ وزیر خزانہ بھی رہے اور ان کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے بہت ہی مشکل وقت میں آئی ایم ایف کا قرضہ حاصل کر کے ملک کو ڈیفالٹ سے بچایا تاہم اچانک میاں نوازشریف نے لندن سے حکم جاری کیا کہ مفتاح کو نکال کر ان کے سمدھی اسحاق ڈار کو وزیرخزانہ مقرر کیا جائے۔16 ماہ کے وزیراعظم شہبازشریف نے چار و ناچار بڑے بھائی کا حکم تسلیم کرلیا۔نوازشریف کا ہمیشہ سے یہی یقین ہے کہ معیشت کو اسحاق ڈار کے سوا کوئی چلا نہیں سکتا۔میاں صاحب کو قطعاً اس بات کی پرواہ نہیں کہ وقت بدل چکا ہے۔ٹیکنالوجی بدل چکی ہے۔
اسحاق ڈار تو ایک دونا دونا اوردو دونے چار کے زمانہ کے منشی ہیں اور جدید دور میں معیشت کو چلانا ان کے بس کی بات نہیں ہے۔اسحاق ڈار تب سے میاں صاحب کے ذہن میں پیوست ہو چکے ہیں جب وہ اتفاق فاؤنڈری میں ان کے اباجان کے اکاؤنٹنٹ یا منشی تھے۔اسحاق ڈار کی شخصیت اور کمٹ منٹ کا اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ جب مشرف کے دور میں گرفتار ہوئے تو حدیبیہ پیپر کیس میں نوازشریف کے خلاف سلطانی گواہ بن گئے۔ایسے ویسے نہیں بنے بلکہ کئی صفحات پر مشتمل اعترافی بیان لکھ ڈالا۔اس کے باوجود ان سے میاں صاحب کی انسیت سمجھ سے بالاتر ہے۔بہرحال بے عزت کر کے نکالے جانے کے بعد مفتاح اسماعیل نے خود کو ن لیگ سے جدا کرلیا۔انہوں نے سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کے ساتھ مل کر ایک پارٹی بنانے کا سوچا جو اس وقت بن چکی ہے۔”عوام پاکستان“ البتہ ان کے ایک ساتھی مصطفی نواز کھوکھر اور نوابزادہ حاجی لشکری رئیسانی ابھی تک اس پارٹی سے دور ہیں۔مفتاح اسماعیل غالباً مستقبل قریب میں بھرپور سیاسی کردار ادا کرنے کا پلان سوچ چکے ہیں اس لئے وہ اپنے کاروبار کو یو اے ای منتقل کرنے کا منصوبہ بنا چکے ہیں۔انہوں نے حکومت پاکستان کو اس کی باقاعدہ اطلاع دے دی ہے۔ درکار رقم کی منتقلی سے بھی اسٹیٹ بینک کو آگاہ کرچکے ہیں۔غالباً یہ پہلا کیس ہے کہ ایک صنعت کار قانونی طریقے اختیار کر رہے ہیں ورنہ سینکڑوں صنعت کار اربوں ڈالر ہنڈی اور غیر قانونی طریقوں سے یو اے ای پہنچا چکے ہیں۔مفتاح کو خدشہ ہے کہ اگر انہوں نے حکومت مخالف سرگرمیوں میں حصہ لیا تو موجودہ یا آنے والی حکومتیں پاکستان میں ان کا کاروبار چلنے نہیں دیں گی۔اس لئے وہ اپنا کاروبار محفوظ بنانے کے لئے ابوظہبی کا رخ کر رہے ہیں۔اس وقت پاکستان کے جو سیاسی و معاشی حالات ہیں وہ اس حد تک دگرگوں ہیں کہ باہر سے سرمایہ کاری آنے سے رہی اپنے ملک کا سرمایہ بھی تیزی کرے ساتھ باہر منتقل ہو رہا ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ ملک ”اتائیوں“ کے ہاتھ میں ہے۔وہ طب کے ابجد سے ناواقف ہونے کے باوجود بضد ہیں کہ اہم ترین سرجری کی ذمہ داری وہ انجام دیں گے۔اس سرجری کا جو نتیجہ نکلے گا وہ سب کو پہلے سے معلوم ہے۔ان اتائیوں نے جب دیکھا کہ باہر سے کوئی دوست ملک اور پرائیویٹ سرمایہ کار نہیں آ رہے تو انہوں نے اس کا صرف اور صرف یہی حل نکالا کہ بجٹ اور غیر بجٹ اقدامات کے ذریعے عوام پر ٹیکسوں کا ناقابل برداشت بوجھ ڈال دیا۔یعنی وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ان کاکاروبار اور کماؤ پوت سو صرف غریب عوام ہیں۔ان کی کمائی چھین کر ملک کو چلایا جا سکتا ہے۔وہ بھی غیریبانہ طریقے سے۔
اندازہ لگائیے کہ جو معیشت نوازشریف کے کہنے پر چل رہی ہے وہ کیسے ترقی کرے گی۔موصوف یادداشت کھو جانے کے عارضہ میں دھیرے دھیرے مبتلا ہو رہے ہیں۔انہیں اکثر پرانے واقعات اور باتیں یاد ہیں لیکن حالیہ واقعات جلد بھول جاتے ہیں۔نوازشریف اپنی جماعت اپنی ساکھ اور بڑے لیڈر کے طور پر اپنا امیج کھو چکے ہیں اس لئے یہ اسے پنجاب میں اس طرح کا زوال آیا ہے جو پیپلز پارٹی کو آیا ہے۔ہمارےاتائی حکمرانوں کا یہ حال ہے کہ بجلی نہیں گیس نہیں اجناس کی قیمت نہیں اس کے باوجود وہ بھاری بھرکم ٹیکسوں کے ذریعے ملک کو چلانے کے دعوے دار ہیں۔اوپر سے آئی پی پی ایز کے کھربوں روپے کی ادائیگی پنشن کے لئے کھربوں روپے کا انتظام دفاعی اخراجات اور نئے آپریشنز کے لئے اربوں روپے مختص کرنے جا رہے ہیں۔ان اقدامات کا کیا نتیجہ نکلے گا یہ کون نہیں جانتا۔یہ تو خودکش حملہ کے مترادف ہے لیکن یہ اتائیحکیم ہیں بڑے ہوشیارانہوں نے اپنی اور آئندہ آنے والی نسلوں کے آب و دانے کا بندوبست غیر ممالک میں کیا ہے۔اس کا اندازہ اس بات سے کیجیے کہ ایک سیاست دان کی چار بیگمات ہیں ہر ایک کےلئے ملک کے اندر اور باہر شاندار رہائش گاہوں کا بندوست ہے۔
یہ لوگ ناکام سرجری کے بعد فوری دستیاب پروازوں کے ذریعے ملک عدم سدھاریں گے جبکہ عوام کو زندہ درگور ہونے کے لئے چھوڑ دیں گے۔یہ گھمبیر صورتحال اس بات کی متقاضی ہے کہ کوئی عوامی تحریک چلائی جائے۔انقلاب تو خیر بڑی بات ہے اتنا ہو کہ ٹیکس زدہ حکمرانوں سے جان چھوٹے اگرچہ جماعت اسلامی نے اسلام آباد تک دھرنے کا اعلان کیا ہے لیکن اس کی عوامی حمایت اور طویل عرصہ تک دھرنے دینے کی استعداد کم ہے حالانکہ76 سال بعد جماعت اسلامی کو ایک سنہری موقع ہاتھ آیا ہے لیکن وہ ایک حد سے آگے نہیں بڑھ سکی کیونکہ جماعت اسلامی بھی اسی امام کی مقتدی ہے جو باقی جماعتیں ہیں حالانکہ آر اور پار والی کوئی تحریک چلا کر جماعت اسلامی ملک گیر عوامی پذیرائی حاصل کرسکتی ہے۔اگر اس وقت عوام کو اتھاہ مایوسیوں سے نہیں نکالا گیا تو اس ملک میں ناقابل یقین المیے جنم لے سکتے ہیں اور کئی طرح کے سقوط وقوع پذیر ہوسکتے ہیں۔