اردوان اورعالم اسلام

انور ساجدی
86سال بعد تاریخی شہر استنبول کی تاریخی کلیسا آیاصوفیہ میں نماز جمعہ ادا کی گئی سلطان طیب اردوان نے بھی اس روح پرور اجتماع میں شرکت کی ترکی کے مختلف علاقوں سے آنے والے مسلمانوں نے بھی رقت آمیز مناظر کے دوران نماز کی سعادت حاصل کی۔
آیا صوفیہ کودوبارہ مسجد بنانا کوئی معمولی واقعہ نہیں ہے اس سے جہاں عیسائی دنیا میں کھلبلی مچ گئی ہے تو دوسری طرف اس وقت مشرق وسطیٰ کے اہم ملک سعودی عرب بھی خائف ہے کیونکہ مستقبل قریب میں طیب اردوان اور شہزادہ محمد کے درمیان قیادت کا مسئلہ شدت اختیار کرنے والا ہے سعودی فرمان روا شاہ سلیمان کا آخری سفرشروع ہوچکا ہے وہ سعودی عرب کے بانی شاہ عبدالعزیز یاابن سعود کے آخری صاحبزادہ ہیں جس کے بعد فرماں روائی ایک اور نسل کو منتقل ہوگی جہاں تک شہزادہ محمد کا تعلق ہے تو وہ ایک مختلف انسان ہیں بلا کے ضدی اناپسند اور شدید رعونت کاشکار انکی جارحانہ پالیسیوں جنگوں اور تشدد رویہ کی وجہ سے سعودی عرب کی مالی حالت انتہائی کمزور ہوگئی ہے اوپر سے کرونا اور تیل کی کم قیمتوں نے رہی سہی کسر پوری کردی ہے بھاری اخراجات کوپورا کرنے کیلئے سعودی عرب نے اپنے اہم اثاثے فروخت کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور وہ دن بھی آنے والا ہے کہ سعودی عرب امداد دینے کی بجائے قرض لینے والا ملک بن جائیگا ایسی صورت میں عالم اسلام کی قیادت کیسے ممکن ہے؟جبکہ وہ آنکھیں بند کرکے امریکی ڈکٹیشن قبول کررہا ہے اسرائیل سے سعودی عرب نے درپردہ تعلقات قائم کررکھے ہیں وفود کا تبادلہ بھی ہورہا ہے موجودہ نازک حالات میں جبکہ اسرائیل تمام مقبوضہ علاقوں کو دوبارہ ہڑپ کرنے کا منصوبہ بنا چکا ہے سعودی عرب کے اس سے قریبی تعلقات کو عالم اسلام مشکوک نظروں سے دیکھ رہا ہے اسکے مقابلے میں طیب اردوان کی پالیسی زیادہ بہتر ہے اسکے اسرائیل سے سفارتی تعلقات بھی ہیں تجارت ہورہی ہے لیکن ظاہری طور پر وہ اسرائیل کی سخت مخالفت کرتے ہیں ابھی دو روز ہوئے انہوں نے قبلہ اول کو آزاد کرنے کے عزم کااظہار کیا گوکہ وہ سیاسی مقاصد کیلئے یہ موقف اختیار کررہے ہیں پھر بھی مسلمانوں میں ترکی کیلئے پسندیدگی بڑھ رہی ہے شاہ سلمان کے بعد مشرق وسطیٰ میں قیادت کاخلاپیداہوگا جسے پر کرنے کیلئے طیب اردوان جیسی اور کوئی شخصیت موجود نہیں حالانکہ لیبیا میں ترکی کو شکست کا سامنا ہے شام میں بھی وہ طویل عرصہ تک الجھارہے گا کرونا نے ترکی کی معیشت کو بھی بری طرح متاثر کیا ہے اس کی سب سے بڑی صنعت سیاحت ہے جس سے وہ اربوں ڈالر کماتا ہے بند پڑی ہے ایک اور مسئلہ یہ ہے کہ اردوان کی پالیسیوں سے احیائے اسلام کی جو تحریک شروع ہوگئی ہے اس سے مغربی سیاح یہاں آتے ہوئے خوف محسوس کرنے لگے ہیں جبکہ مقامی مسلمانوں نے بھی اپنے ساحلوں اور سیاحتی مقامات پربرہنہ سیاحوں کو ناپسندیدگی کی نگاہ سے دیکھنے لگے ہیں لہٰذا آئندہ چند سالوں کے دوران سیاح زیادہ تعداد میں یہاں کا رخ نہیں کریں گے مصر کی طرح یہاں بھی مغربی سیاحوں پر حملے ہوسکتے ہیں ترکی کی معیشت کو مزید دھچکہ اس وقت لگے گا جب امریکہ اسکے خلاف سازش کرے گا اور اردوان کو ہٹانے کی کوشش کرے گا2016ء میں بھی ایسی کوشش ہوئی تھی معیشت میں خرابی کی وجہ سے عوام میں بے چینی بھی بڑھ رہی ہے لیکن جب اسرائیل غرب اردن کی وادی کو کودوبارہ شامل کرے گاتو اس وقت سب سے سخت موقف ترکی کا ہوگا جس کی وجہ سے اردوان کو سیاسی فائدہ پہنچے گا ایک اور اہم مسئلہ ایران ہے ایران اس وقت اپنے بچاؤ کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگارہا ہے چین سے تذویراتی معاہدے کے بعد ایران کے وزیرخارجہ ماسکو گئے ہیں وہ امریکہ کے مقابلے میں روس کی حمایت حاصل کرنا چاہتے ہیں روس اور ایران کے تعلقات شام کی صورتحال کی وجہ سے پہلے سے اچھے ہیں روس،شام کی جنگ میں بحیرہ روم سے حصہ لے رہا تھا لیکن ایران اسے چین کے ساتھ خلیج لانا چاہتا ہے یہاں روس کا رول کیا ہوگا یہ آنے والا وقت ہی بتائے گا۔لیکن تشویش کی بات یہ ہے کہ دنیاکی تین بڑی طاقتوں امریکہ،چین اور روس ہمارے سمندر میں آمنے سامنے ہونگے ویسے بھی امریکہ اور چین کے درمیان سردجنگ تیز ہوگئی ہے امریکہ نے ہوسٹن میں واقع چینی قونصل خانہ بند کردیا ہے جبکہ جواب میں چین نے بھی جدید شہر چنگ ڈو میں امریکی قونصل بند کردیا ہے اگر ڈونلڈ ٹرمپ دوبارہ منتخب ہوگئے تو وہ ساؤتھ چائناسی میں چین کیخلاف بڑا محاذ کھولے گا جہان اسکے اتحادی جاپان اور جنوبی کوریا پہلے سے تیار بیٹھے ہیں جوابی کارروائی کے طور پر چین،ایران سے مل کر خلیج میں امریکہ اور اسکے اتحادیوں کو تنگ کرسکتا ہے چین آسانی کے ساتھ جنگ اور محاذ آرائی کی طرف نہیں جائیگا کیونکہ وہ روئے زمین کا سب سے بڑا تاجر اور ساہوکار ہے وہ اسلحہ کی جنگ کی بجائے تجارتی جنگ پریقین رکھتا ہے لیکن جس طرح ہر شعبہ میں اسکی ترقی جاری ہے بالآخر ٹکراؤ ناگزیر ہوگا ایک امریکی تھنک ٹینک کے مطابق چین نے دنیا پر غلبہ حاصل کرنے کیلئے50سالہ پلان بنایا ہے جبکہ امریکہ کے پاس ایسا کوئی پلان نہیں ہے روس کے بعد چین بھی خلا میں امریکہ کے مقابلے کی صلاحیت حاصل کرچکا ہے اس نے تین روز قبل کامیابی کے ساتھ مریخ کی جانب سے اپنا مشن بھیجا یہ اقدام اس لئے اٹھانا پڑا کہ امریکہ نے گزشتہ سال خلائی فوج بنانے کا اعلان کیا تھا جس کا مقصد دشمنوں کیخلاف خلا سے کارروائی کرنا ہے اور اپنے قیمتی اثاثے خلا میں محفوظ بنانا ہے چین کا مریخ مشن اسی کی توڑ کرنے کی کوشش ہے اسکے علاوہ چین ڈالر کے مقابلے میں نیا مالیاتی نظام بھی لارہا ہے اور ایسا طریقہ کار وضح کررہا ہے کہ دنیا کا ڈالر پر انحصار ختم ہوجائے اگر صدر ٹرمپ اس سال نومبر میں ہونیوالا صدارتی انتخاب ہارگئے تو دنیا ایک بڑی آزمائش سے بچ جائے گی کیونکہ جوبائیڈن ایک سمجھدار اور معاملہ فہم انسان ہیں وہ طریقے سلیقے سے امریکہ کا کھویا ہوا وقار اور معاشی قوت بحال کریں گے وہ چین اور روس کا مقابلہ خالی خولی باتوں سے نہیں کریں گے بلکہ امریکی معیشت کومضبوط کرکے پیش قدمی کریں گے روس اور چین کو امریکہ پریہ فوقیت حاصل ہے کہ دونوں عظیم ممالک کے صدر تاحیات منتخب ہیں اور انہیں اپنے ممالک کے اندر جمہوریت انسانی حقوق کی پامالی کی کوئی فکر نہیں ہے یہ دونوں شخصیات ڈوما اور پولٹ بیورو کے سامنے جوابدہ بھی نہیں ہیں اس لئے وہاں پر پالیسیوں کا تسلسل جاری ہے اور کوئی پوچھنے والا نہیں ہے اگرچہ روس دنیا کا آٹھواں بڑا صنعتی ملک ہے لیکن اس کی پیداوار اوربرآمدات چین کی طرح نہیں ہیں حالانکہ اسکے وسائل چین سے سوگنا زائد ہیں لیکن سوشلزم کے خاتمہ کے بعد روس ترقی کی دوڑ میں پیچھے رہ گیا آج بھی اسکی سب سے بڑی پیداوار اسلحہ سازی ہے اور وہ جب تک کنزیومر گڈز نہیں بنائے گا اسکی تیزرفتار ترقی ممکن نہیں ہے۔
مشرق وسطیٰ کی ایک اور خبر یہ ہے کہ کویت کے91سالہ امیراپنے ملک کے ایک اسپتال میں طبیعتبگڑ جانے سے شدید علیل ہیں اور امریکہ نے اسے اپنے ہاں منتقل کردیا ہے عجیب بات ہے کہ مشرق وسطیٰ کے ممالک جو تیل کی پیداوار سے مالامال ہیں آج تک اپنے ممالک میں کوئی ڈھنگ کااسپتال نہیں بنواسکے۔امیر کویت کے رخصت ہوجانے سے بھی مشرق وسطیٰ کی صورتحال میں نمایاں تبدیلی آئے گی جس کی وجہ سے ایران کو بحرین کی طرح کویت کے معاملات میں بھی دخل دینے کا موقع ملے گا جب ذوالفقار علی بھٹو برسراقتدار تھے تو کویت سعودی عرب بحرین یو اے ای سمیت دیگرممالک انکے دائرہ اثر میں تھے لیکن آج صورتحال یہ ہے کہ یہ تمام ممالک عالمی فورسز انڈیا کی حمایت کررہے ہیں نااہل قیادت کی وجہ سے پاکستان اپنا اثرورسوخ کھوچکا ہے ایک حقیقت یہ ہے کہ جس ملک کی معیشت خراب ہو اسکی قیادت ساری دنیامیں گھوم پھر کر امداد اوربھیک مانگے تو اسکی کیا قدر ہوگی پاکستان ایڈہاک ازم پر چل رہا ہے اسکے پاس آگے کا کوئی منصوبہ نہیں ہے یہ اپنی آمدن کے ذرائع بڑھانے کی بجائے سیکیورٹی کے مسائل بڑھا رہا ہے اس لئے آئندہ عشرہ اور بھی خراب گزرے گا۔
عمران خان کے بعد جو بھی اقتدار میں آئیگا اسے موجودہ حکومت کی خرابیوں کو دور کرنے میں ایک نہیں دو مدت درکار ہوگی کیونکہ یہ حکومت تو آٹا،چینی،پیٹرول اور بجلی کے مسائل حل کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتی یہ ملک کی معیشت ٹھیک کرنے اور سیاسی استحکام لانے میں کیسے کامیاب ہوسکتی ہے پاکستان کو گھمبیر مسائل کو ٹھیک کرنے کیلئے واقعی میں بڑی تبدیلی چاہئے لیکن ایسی تبدیلی نہیں جو عمران خان لائے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں