بلوچستان میں الیکشن نہیں، جس نے جتنا پیسہ لگایا وہ کامیاب ہو گیا، ڈاکٹر مالک بلوچ
کوئٹہ(یو این اے )نیشنل پارٹی کے سربراہ ڈاکٹر مالک بلوچ نے کہا ہے بلوچ راجی مچی مجمع کو حکومت نے مس ہینڈل کیارد عمل میں15دن مکران ڈیوژن بندرہا بلوچستان حکومت اور وفاقی حکومت بلوچستان میں امن اومان میں ناکام ہوچکے ہیں بلوچستان میںاعوام کے منتخب نمائندے نہیں ہوں گے حالات بہتر نہیں ہو سکتے ہیں بلوچستان میں یہ سب سے بڑا مسئلہ ہے عوام حق و حاکمیت سے محروم ہے بلوچستان میں الیکشن نہیںجس نے جتنا پیسہ لگایا وہ کامیاب ہو گیابلوچستان کا مسلہ سیاسی ہے بندوق کے زور پر ہوتا تو 22 سال میں اس کو ختم ہونا چاہیے بلوچستان کے تمام ادارے بریک ڈان کے شکار ہے اگر یہی حال رہا دو تین مہینے کے بعد مزید حالات خراب ہوں گے ان خیالات کا اظہار انہوں نے نجی ٹی وی سے خصوصی بات چیت کرتے ہوئے ڈاکٹر مالک بلوچ کہا ہے کہ میںمیرا ذاتی تجربہ یہی ہے کہ گوادر میں بلوچ راجی مچی مجمع کو حکومت کی جانب سے کو مس ہینڈل کیا گیاجس کے رد عمل میں15 دن مکران ڈیوژن بند رہا مس ہینڈل نہیں ہوتا تو اتنا خون خرابہ نہیں ہوتا جو نہیں ہونا چاہیے تھا جب تک وہ انسانی حقوق کی بات کرتے ہیں جب تک وہ لاپتہ افراد کی بات کرتے ہیں جب تک وہ جمہوری انداز میں جدوجہد کر رہے ہیں وہ تو ان کی رائے بنتی ہے انہوں نے کہا ہے کہ میں سمجھتا ہوں کہ 70 اور آج کی مومنٹ میں فرق ہے اس موومنٹ میں بڑے بڑے کدآور لوگ تھے جو لیڈرشپ ہے وہ پہاڑوں پہ یا باہر بیٹھا ہوا ہے اور اس میں جو عمل ہو رہا ہے اس میں بہت سے جگہوں پہ دونوں جانب سے بے گناہ کوگ مارے جاتے ہیں میں سمجھتا ہوں کہ یہ دونوں قابل مذمت ہیں چاہے ریاست کی طرف سے ہو چاہے ان کی طرف سے جو بے گناہ مزدور یا بے گناہ راگیر یا دوسرے جو مارے جاتے ہیں لیکن اس میں سمجھتا ہوں کہ فکری حوالے سے اس میں زیادہ میچورٹی ہے اور اس میں زیادہ جپڑھے لکھے لوگ شامل ہے انہوں نے کہا ہے بلوچستان میںجو دہشت گردی ہے اس کے پیچھے بہت بڑا تاریخ ہے چاہے اپ مذہبیت یا انہتاءپسندی کو لے لیں وہ افغان انقلاب سے شروع ہو کے امریکی انقلاب تک چلا گیا جس کے اثرات اب بھی بلوچستان میں موجود ہیں دوسری بلوچ بغاوت ہے نواب اکبر خان شہید ہونے کے بعد اس میں شدت آیا ہے اور وہ ابھی تک روزبروز بڑھ رہا ہے گھٹ نہیں رہا ہے بلوچستان حکومت اور وفاقی حکومت بلوچستان میں امن اومان میں ناکام ہوچکے ہیں انہوں نے کہا ہے کہ خاص طور پر اگر میں بلوچستان کی بات کروں بلوچستان کے تمام ادارے بریک ڈان کے شکار ہے کوئی بھی ادارہ اپنے حوالے سے کام نہیں کر رہا ہے او بلوچستان میں یہ سب سے بڑا مسئلہ ہے عوام حق و حاکمیت سے محروم ہے بلوچستان کے عوام 2024 میں جس طریقے سے دیوار پہ لگایا اور غیر منتخب لوگوں کو کامیاب کرایا گیا بلوچستان میںاعوام کے منتخب نمائندے نہیں ہوں گے میں سمجھتا ہوں کہ وہ حالات بہتر نہیں ہو سکتے ہیںبلوچستان میں دہشت گردی روز بروز بڑ رہی ہے حکومت سے کنٹرول نہیں ہو رہی ہے بلوچستان کا مسلہ سیاسی ہے بندوق کے زور پر ہوتا تو 22 سال ہو گئے ہیں اس کو ختم ہونا چاہیے لیکن میں سمجھتا ہوں کہ آج اس میں زیادہ شدت آگئی ہے اسلام آباد کی ایک مائنڈ سیٹ ہے وہ ہمارے نوجوانوں کو روز بروز پارلیمنٹ سے دور کرتا جا رہا ہے وہ یہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان میں جمہوریت نہیں ہے ہم کیوں اپنے آپ کو اس عذاب میں کیوں ڈال دیں تو وہ آہستہ آہستہ چاہے بلوچ ہویا پختون ہے وہ بغاوت کی طرف جا رہے ہیں اس کا حل یہی ہے کہ ٓاپ عوام کی رائے کا احترام کریں بلوچستان کے سائل وسائل ہیں وہ یہاں کی حکومت کے حوالے کر ہیںبلوچستان میں الیکشن نہیں اکشن ہوا ہے جس نے جتنا پیسہ لگایا وہ کامیاب ہو گیا تو میں سمجھتا ہوں اس طرح سے بلوچستان کا سٹریکچرٹوٹ گیا ہے بلوچستان کے تمام ادارے تباہ ہوچکے ہے نہ پولیس نہ بیروکریسی اور نہ ہی پارلیمنٹ کام کر رہا ہے اگر یہی حال رہا دو تین مہینے کے بعد مزید حالات خراب ہوں گے