پاک ایران بارڈر بندش کیخلاف ٹرانسپورٹرز و تاجر برادری کا احتجاج

حب(نمائندہ انتخاب )پاک ایران بارڈر بندش کے خلاف صوبہ کے دیگر حصوں کی ضلع حب کے صنعتی شہر حب میں بھی ٹرانسپورٹرز اور تیل و دیگر کاروبار سے منسلک افراد سڑکوں پر نکل آئے رخشان مکران بارڈر ٹریڈ الائنس بلوچستان کی کال پر مکران کراچی ٹرک اونر ایسوسی ایشن کے زیر اہتمام احتجاجی ریلی نکالی گئی اور لسبیلہ پریس کلب کے سامنے مظاہرہ اور پریس کانفرنس ،وفاقی اور صوبائی حکومت سے پاک ایران باڈر فوری بحال کرنے کا مطالبہ ،ایک تو پہلے سے بلوچستان میں بیروزگاری عام ہے اور لوگ کسمپرسی کی زندگی گزار نے پر مجبور ہیں تو دوسری جانب حکومت نے پاک ایران بارڈر کاروبار کرکے لاکھوں لوگوں کو بیروزگار کردیا جس کی وجہ سے لوگوں کے گھروں میں فاقے پڑ چکے ہیں اور چولہے ٹھنڈے پڑ گئے ہیں اگر حکومت نے بلوچستان بارڈر بحال نہیں کیا تو آئندہ لائحہ عمل میں پہیہ جام ،شٹر ڈائون اور پیدل لانگ کی کال دینگے جس کی تمام تر ذمہ دار ی وفاقی و صوبائی حکومت پر عائد ہو گی مقررین کا مظاہرین اورپریس کانفر نس سے خطاب تفصیلات کے مطابق پاک ایران بارڈر بندش کے خلاف ٹرانسپورٹرز اور مختلف کاروبار سے منسلک کاروباری لوگوں کی ایک بڑی تعداد سڑکوں پر نکل آئی رخشان مکران بارڈر ٹریڈ الائنس بلوچستان کی کال پر مکران کراچی ٹرک اونر ایسو سی ایشن کے اہتمام حب شہر میں احتجاجی ریلی نکالی گئی ریلی کے شرکاء نے اپنے ہاتھوں میں بینزر اور پلے کارڈز اٹھا رکھے تھے جن پر پاک ایران بارڈر بحال کرنے کے مطالبات درج تھے ریلی شرکاء مینRCDشاہراہ سے ہوتے ہوئے لسبیلہ پریس کلب پہنچے جہاں پر ریلی کے شرکاء نے احتجاجی مظاہرہ کیا اور پریس کانفرنس کی اس موقع پر مظاہرہ اور پریس کانفرنس سے مکران کراچی ٹرک اونر ایسوسی ایشن کے صدر محمد سفر رخشانی ،جنرل سیکرٹری منظور زہری ،سینئر نائب صدر جاوید عظیم ،سلیم کلڑزئی ،ول وش بلوچ ،میران بلوچ ،عزت اللہ کاکڑ ،حاتم جان محمد حسنی و دیگر نے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ بلوچستان کے لوگوں کا کاروبار پاک ایران بارڈر سے منسلک ہے جس کی بندش کی وجہ سے اس وقت لاکھوں افراد بیروزگار ہو کر کسمپرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں اور پاک ایران بارڈر بندش کے خلاف پورے کے ٹرانسپورٹرز اور بارڈر ٹریڈ سے منسلک مختلف کاروباری افراد سڑکوں پر نکل آئے اور پریس کلبز کے سامنے احتجاج کر رہے ہیں ایک تو پہلے سے بلوچستان کے لوگوں میںا حساس محرومی پایا جاتا ہے تو دوسری جانب انہیں بے روزگار کر کے انکے زخموں پرنمک پاشی کی جارہی ہے انھوں نے کہاکہ بلوچستان کے لوگ انتہائی پسماندہ اور غربت کی لکیر کے نیچے زندگی گزار رہے رہیں حکومت بلوچستان کی عدم توجہی کا شکار ہے یہاں نہ روزگار ہے نہ زراعت ہے اور نہ ہی کوئی صنعتی شعبہ موجود ہے ہر طرف پسماندگی، بے بسی اور لاچاری کا سماں ہے روزگار کا کوئی دیگر زریعہ موجود نہیں ہے حکومت لوگوں کی معاشی اور روز مرہ زندگی کی ضروریات کو پورا کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں لے رہی ہے اس لئے لوگ سرکار اور سرکاری اداروں سے مایوس ہوکر اپنی گھریلو اور معاشی ضروریات کو پوری کرنے کے لئے اپنی مدد آپ کے تحت اپنے خود ساختہ روزگار سے جڑے ہوئے ہیں جو کہ پاک ایران بارڈر کے ساتھ منسلک ہے برسوں سے بلوچستان کے لوگوں کے روزگار کا دارومدار ایران بارڈر سے منسلک رہا ہے ایران بارڈر سے مزدوری کرکے اپنے بچوں کا پیٹ پال رہے ہیں بچوں کی صحت، تعلیم، کھانے پینے کی ضروریات سے لیکر معاشی ضروریات کے سارے اسباب اسی بارڈر سے مزدوری کرکے پورا کر رہے ہیں یہاں کوئی بڑی تجارت نہیں ہورہی ہے صرف دو وقت کی روٹی کی خاطر اپنی زندگیوں کو خطرات میں ڈال کر اپنے بچوں کا پیٹ پال رہے ہیں مگر افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ سرکار کو یہ بھی گوارا نہیں کہ بلوچستان کے لوگوں کو ایران بارڈر کی مزدوری سے دو وقت کی روٹی کیوں مل رہی ہے سرکار ہمیں روزگار دینے کے بجائے ہماری مزدوری کو بند کرنے پر تلی ہوئی ہے اور پاک ایران بارڈر کو مکمل طور پر سیل کردیا ہے، جو کہ ہماری معاشی قتل کے مترادف ہے بارڈر بند کرنے کی وجہ سے لوگ فاقہ کشی پر مجبور ہیں نان شبینہ کا محتاج ہیں صحت کا مسئلہ درپیش ہے بچوں کی تعلیم پر برے اثرات مرتب ہو رہے ہیں امن وامان کی صورتحال دن بدن بدتر ہوتی جارہی ہے، سرکار کے خلاف نفرت میں اضافہ ہو رہا ہے حالات بدترین رخ اختیار کر چکے ہیں اس لئے حکومت کو ہوش کا ناخن لینا چاہئے لوگوں کو بے روزگار کرکے کسمپرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور نہ کیا جائے انھون نے کہاکہ ہم اس پریس کانفرنس کے ذریعے حکومت سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ ہماری غربت اور پسماندگی پر ترس کھاکر پاک ایران بارڈر پر عائد کردہ بے بنیاد پابندیوں اور سختیوں کو فی الفور ہٹائے ہمیں امن کے ساتھ باعزت طریقے پر روزگار کرنے کا موقع دے اگر بارڈر بندش پر نظر ثانی نہیں کی گئی اور اتوار تک لسٹ جاری نہیں کیا گیا تو ہم اپنا جمہوری حق استعمال کرکے ہر قسم کے احتجاج پر مجبور ہونگے جس میں احتجاجی مظاہروں سے لیکر شٹر ڈائون ہڑتال اور بلوچستان کی تمام اہم شاہراہوں کی بندش اور دھرنا شامل ہے ہمارا مطالبہ ہے کہ حکومت فوری طور پر بارڈر کھول دے بارڈر کی بندش کسی بھی صورت میں قابل قبول نہیں ہے حکومت بارڈر کھلنے کا نوٹیفیکیشن فوری طور پر جاری کرے اگر اتوار تک لسٹ جاری نہیں کیا تو 18 نومبر بروز پیر کو رخشان اور مکران ڈویژن مین مکمل طور پر شٹر ڈائون ہڑتال ہو گی کیونکہ بلوچستان کی 80 فیصد لوگوں کے معاش اور روزگار کا مسئلہ ہے بارڈر بند کرنے کی وجہ سے 35 لاکھ لوگ برائے راست متاثر ہو رہے ہیں 35 لاکھ لوگ برائے راست اسی بارڈر کے روزگار کے ساتھ وابسطہ ہیں اس کے علاہ ہم حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ۔ ہفتے میں تین دن(جمعہ ہفتہ اور اتوار)کی چھٹیوں کا نوٹیفیکیشن واپس لیا جائے بلوچستان بھر میں تیل کی ترسیل پر عائد پابندی کو ختم کیا جائے پاک ایران بارڈر سے منسلک قریبی اضلاع کے لوگوں کی آمدورفت اور راشن ((خوردنوش) کی ترسیل پر عائد کردہ پابندیوں کو ہٹایا جائے باقی جتنے کراسنگ پوائنٹس کھلنے کے ایپروول ہوچکے ہیں ان پر عمل درآمد کو یقینی بنایا جائے بارڈر میں اوریجنل شناختی کارڑ ہونے کے باوجود شناختی مالک کی موجودگی کی شرط کو ختم کیا جائے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں