بی این پی عوامی شخصی آمریت کا شکار ہوچکی، کارکنان کو نظر انداز کرنے، غیر جمہوری رویوں نے پارٹی کو دولخت کردیا، سعید فیض ایڈووکیٹ
گوادر (بیورو رپورٹ) بی این پی (عوامی) کے مرکزی سیکرٹری جنرل چیئرمین سعید فیض ایڈووکیٹ نے بی این پی (عوامی) سے اپنی راہیں جدا کرلیں۔ ضلع گوادر کے عہدیداروں اور ارکان سمیت پارٹی کے عہدے اور بنیادی رکنیت سے مستعفی ہونے کا اعلان کردیا۔ بی این پی (عوامی) کے مرکزی سیکرٹری جنرل چیئرمین سعید فیض ایڈووکیٹ نے گوادر پریس کلب میں پر ہجوم پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے پارٹی کے عہدے اور بنیادی رکنیت سے مستعفی ہونے کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ میں نے گوادر اور ضلع بھر کے تمام عہدیداروں اور ساتھیوں کی اجتماعی مشاورت کے بعد یہ فیصلہ کیا ہے کہ ہم پارٹی کے تمام عہدوں اور بنیادی رکنیت سے اجتماعی طورپر مستعفی ہونگے۔ یہ فیصلہ کسی وقتی جذبات یا ذاتی رنجش کا نتیجہ نہیں بلکہ طویل عرصے سے پارٹی کے اندر جاری غیر جمہوری رویوں، شخصی آمریت، مشاورت کے فقدان اور پارٹی آئین کی مسلسل خلاف ورزیوں کے باعث کیا جانے والا ایک اصولی اور ناگزیر فیصلہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے ہمیشہ سیاسی جدوجہد، باہمی احترام، اداراہ جاتی فیصلوں اور جمہوری طرز عمل پر یقین رکھا مگر بدقسمتی سے پارٹی کے اندر ان اصولوں کا عملی وجود ختم ہوچکا تھا۔ تنظیم کو ایک شخص کے فیصلے کے تابع کر دیا گیا، اختلاف رائے کو دشمنی سمجھا گیا اور مشاورت کی جگہ انا پرستی نے لے لی۔ یہی غیر سیاسی ماحول پارٹی کی قوت کو تباہ کرتا رہا اور اسی رویے نے پہلے بھی بی این پی عوامی کو دو مرتبہ شدید ٹوٹ پھوٹ کا شکار کیا۔ کبھی وزارت کی جنگ نے، کبھی صدارت کی رسہ کشی نے اور کبھی ذاتی عناد و انا پسندی نے پارٹی کو دوبار دو لخت کردیا اور افسوس کہ یہ سلسلہ آج بھی بدستور جاری ہے۔ انہوں نے کہا کہ پارٹی کا بنیادی مرکزی ادارہ جسے سینٹرل کمیٹی کہتے ہیں جس کا انتخاب مرکزی کونسل سیشن میں بند اجلاس کے دوران آئین کی روح سے ہونا لازمی تھا۔ اس کا انتخاب پارٹی صدر نے بند اجلاس کے دوران روک دیا اور اعلان کیا کہ سینٹرل کمیٹی کے ارکان کا انتخاب بعد میں مرکزی کا بینہ کی مشاورت سے ہوگا۔ یہ فیصلہ سراسر غیر آئینی اور غیر جمہوری تھا۔ اس کے بعد ڈیڑھ سال تک کابینہ کا اجلاس بھی نہیں بلایا گیا۔ نہ مشاورت ہوئی، نہ کوئی تنظیمی فیصلہ سازی سامنے آئی۔ اس تمام عرصے میں پارٹی صدر نے بغیر کسی سے رائے لیے اکیلے سینٹرل کمیٹی کے ارکان مقرر کر دیے جو شخصی آمریت کی بدترین مثال ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایسے ماحول میں سنجیدہ سیاسی کیڈر، نظریاتی کارکن اور ذمہ دار عہدیداران کیسے اپنا کردار ادا کرسکتے ہیں۔ بطور سیکرٹری جنرل مجھ سے کسی فیصلے میں مشورہ نہیں کیا جاتا تھا۔ پارٹی کو مشاورت کے بجائے حکم کے ذریعے چلانے کا مسئلہ معمول بن گیا۔ نہ احترام، نہ جوابدہی نہ اداراہ جاتی سوچ، یہ صورتحال کسی بھی سیاسی کارکن کے لیے قابل برداشت نہیں رہ سکتی۔ انہوں نے کہا کہ بلوچستان کی موجودہ حساس صورتحال میں سیاسی جماعتوں کو بالغ نظری، اجتماعی قیادت، عوامی سوچ اور اصولی سیاست کی ضرورت ہے۔ مگر بدقسمتی سے ہمارے پلیٹ فارم کو ایسا رکھا گیا کہ وژن ختم ہو کر رہ گیا اور اب وہ سیاسی تربیت اور وہ جمہوری ماحول باقی نہیں رہا جس میں اجتماعی سیاسی جدوجہد آگے بڑھ سکے۔ انہوں نے کہا کہ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ اگر کسی سیاسی کارکن کو اپنی جماعت میں اپنی سوچ کی ترویج کا موقع نہ مل سکے تو اسے اپنے نظریات کو آگے بڑھانے کیلئے اہم فیصلے کرنے پڑیں گے۔ غیر سیاسی ماحول میں اپنی عزت نفس اور سیاسی تربیت کو قربان کرنا از حد نا ممکن ہے۔ انہوں نے کہا کہ انہی تمام حالات، رویوں اور غیر آئینی اقدامات کے باعث میں بطور سیکرٹری جنرل اپنے عہدے اور بی این پی عوامی کے ضلعی سطح کے عہدیداران تحصیل کے ارکان اورماڑہ، پسنی، جیونی، گوادر کے ارکان و عہدیداران بھی با ضابطہ طور پر بی این پی (عوامی) کی بنیادی رکنیت اور تمام عہدوں سے اجتماعی استعفے کا اعلان کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم اپنی سیاسی جدوجہد، بلوچستان، عوام اور جمہوریت کے لیے اپنی اصل سوچ اور اصولوں کے مطابق جاری رکھیں گے اور آئندہ لائحہ عمل کا جلد اعلان کریں گے۔


