اس مہلت کو کارآمد بنایا جائے

پاکستان میں آج کل تعلیمی اداروں سے شادی ہالوں تک جانے سے حکومت نے منع کر رکھا ہے۔طلباء اپنے گھروں تک محصور ہو گئے ہیں۔گویا فرصت ہی فرصت ہے۔تعلیمی سال ختم ہوچکا تھا، سالانہ امتحانات شروع ہونے کی وجہ سے بچے باقی ماندہ پرچوں کی تیاری میں بھی دلچسپی کھو بیٹھے ہیں اس لئے کہ بار بار ڈیٹ آگے بڑھا دی جاتی ہے اس میں حکومت یا اسکول انتظامیہ کا کوئی قصور نہیں قصور اس زرپرست ذہنیت کا ہے جس نے کرونا وائرس کے ذریعے چین کو نیست و نابود کرنے کا خواب دیکھا تھا۔چین میں زندگی کی چہل پہل لوٹ آئی مگر امریکا اور یورپ اپنے ہی ایجاد کردہ بیماری کی لپیٹ میں ہیں۔ہر روز نئے مریض سامنے آرہے ہیں پرانے مریضوں میں سے مرنے والوں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔پاکستان میں متأثرین کی تعد ادبہت کم ہے52بتائی جا رہی ہے وہ بھی ایران سے آئے ہیں اپنے صرف 2ہیں۔اس کے باوجود کروڑوں طلباء کے پاس کوئی مثبت اور کارآمدسرگرمی نہیں رہی گلی کوچوں میں وقت ضائع کرنے پر مجبور ہیں۔اگر ہماری وزارت تعلیم چاہتی تو فرصت کے لمحات کو مثبت سرگرمی میں تبدیل کر سکتی تھی جدید ٹیکنالوجی سے مدد لی جاتی آن لائن تعلیم دی جاتی،طلباء گھر بیٹھے تعلیم حاصل کرتے۔ بدقسمتی سے وزارت تعلیم نے یہ فریضہ ادا نہیں کیا اس لئے طلباء کا قیمتی وقت ضائع ہو رہاہے۔اب بھی سوچا جائے کہ طلباء کا قیمتی وقت ضائع ہونے سے بچانے کی راہ نکالی جا سکتی ہے۔حکومت سندھ نے فیصلہ کیا ہے کہ پہلی سے آٹھویں کلاس کے کے طلباء کو امتحان لئے بغیر اگلی کلاسز میں پروموٹ کر دیا جائے۔اس کا ایک فائدہ ہوگاکہ والدین اور بچوں کے سر سے امتحانات کے حوالے سے غیر یقینی کیفیت کا بوجھ اتر جائے گا۔فیصلے میں یہ اعلان بھی شامل ہے کہ نیا تعلیمی سال یکم جون سے شروع ہوگا۔امید ہے دیگر صوبے بھی یہی طریقہ آزمائیں گے۔ ظاہر ہے موجودہ تعلیمی سال کو آئندہ تعلیمی سال تک توسیع دینا بھی درست نہیں گزشتہ سال کا بوجھ آئندہ سال کا حصہ بنانے کا کوئی فائدہ نہیں نقل کا مکمل خاتمہ کئے بغیر امتحانات بے معنی اور بے مقصد رسم بن کر رہ گئے ہیں۔ جسے اپنا نام لکھنا نہیں آتا ایم اے کی ڈگری جیب میں لئے گھوم رہا ہے۔وکلاء اور اساتذہ اپنی اسناد کی تصدیق کرانے کو تیار نہیں۔ڈاکٹرمریضوں کے گردے فروخت کرتے گرفتار کئے جا رہے ہیں۔ججز کی غیر اخلاقی ویڈیو مسلم لیگ ن کی نائب صدر منظر عام پر لا چکی ہیں۔متعلقہ جج بھی اعترافی بیان دے چکے ہیں،یہ محض الزام نہیں۔ایسے ماحول میں علم، اہلیت، میرٹ اور وقت کی قدروقیمت کا اندازہ کون لگائے؟سیاست بھی موروثی ہو چکی متعدد خاندانوں تک محدود ہو کر رہ گئی ہے۔براہِ راست ٹیکس وصول کرنا حکومت کے بس سے باہر ہے بالواسطہ ٹیکس کا فارمولہ کئی دہائیوں سے جاری ہے۔بجلی،پیٹرول، گیس اور بجلی کے بلوں میں ماہانہ کی بنیادوں پر اضافہ کرکے حکومت اپنے اخراجات پورے کرتی ہے۔عام آدمی مہنگائی کی دلدل میں دھنسا جا رہا ہے۔کالا باغ ڈیم کی مخالفت کے بعد ملک میں ایک ڈیم تعمیر نہیں ہوابھارت نے اسی دوران سینکڑوں ڈیم تعمیر کر لئے۔سندھ طاس معاہدے میں پاکستان راوی اور چناب سے محروم ہو گیااب بجلی سستی پیدا کرنے کے لئے ڈیم درکار ہیں مہمند ڈیم کی تعمیر چند مہینے قبل شروع ہوئی اسے مکمل ہونے میں کئی سال درکار ہوں گے،بھاشا ڈیم سمیت دیگر ڈیموں کی تعمیر ابھی فائلوں میں دبی ہوئی ہے۔گزشتہ روز ایکنک نے ویریندر ڈیم کے لئے رقم منظور کی ہے مستقبل میں پن بجلی ملنا شروع ہو گی تب تک ن لیگ کے دور میں کئے گئے معاہدوں کے تحت (15سال تک) مہنگے بلوں کی جبری ادائیگی کرنا ہوگی۔ اسی مہنگائی کا بوجھ اٹھائے ایک نسل پل کر جوان ہوگی۔ماضی کی حکومتوں کے مشکل فیصلے دیر تک عوام کے کندھوں پر سوار رہیں گے۔پہلے ہی پاکستان ریکوڈک کاپر اینڈ پروجیکٹ اور رینٹل پاور کے مقدمات ہار چکا ہے۔اپیل میں جیت اور ہار دونوں کے امکانات ہیں۔کرونا کے مثبت اور منفی اثرات مرتب ہونے کا سلسلہ ابھی جاری ہے۔تیل کی قیمتوں میں کمی کرونا کا دیا ہوا تحفہ ہوگا۔اسے دانشمندی سے استعمال کیا گیا تو عام آدمی کی مشکلات میں کمی آئے گی۔اس میں گڑبڑ ہوئی تو عام آدمی کے لئے جینا مزید مشکل ہو جائے گا۔قائد حزب اختلاف شہباز شریف کی واپسی کا کوئی اشارہ نہیں دیا جا رہا مریم نواز بھی بیرونِ ملک جانے کے لئے عدالت میں درخواست دائر کر چکی ہیں۔ایلیٹ کلاس کے لئے قانون موم کی ناک ہے جیسا چاہیں ویسا فیصلہ لے لیا جاتا ہے۔سزا یافتہ قیدی جب چاہے عوام کو خدا حافظ کہتا ہوا بیرونِ ملک جا سکتا ہے۔قانون صرف غریب آدمی کے لئے حرکت میں آتا ہے۔ غریب آدمی ابھی تک صبر شکر سے کام لے رہا ہے جس روز اس نے موت سے بد تر زندگی کے خلاف آواز بلند کی اور سسک سسک کر مرنے سے انکار کیا اس کے بعد یہ توقع کی جا سکے گی کہ اب اس کے بچے سکھ کا سانس لینے کے قابل ہوجائیں گے۔وہ مبارک دن کب آئے گا؟پیش گوئی ممکن نہیں لیکن امید پر دنیا قائم ہے وہ دن ضرور آئے گا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں